سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(06) جادوگر سے علاج کرانا جائز ہے؟

  • 7731
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1946

سوال

(06) جادوگر سے علاج کرانا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ ایسے لوگ ہیں جو بقول ان کے شعبدہ بازی کے طبی طریقہ سے علاج کرتے ہیں جب میں کسی کے ہاں جاؤں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ اپنا اور اپنی والدہ کا نام لکھو۔ پھر کل ہمارے پاس آنااور جب کوئی دوبارہ ان کے جاتا ہے تواوہ کہتے ہیں کہ تجھے فلاں فلاں مصیبت آئی ہے اور اس کا علاج یہ اور یہ ہے … ان میں سے کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ میں کلام اللہ سے علاج کرتا ہوں ۔ ایسے لوگوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے اور ان کے پاس جانے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص اپنے علاج اپنے علاج میں ایسا طریقہ استعمال کرے تو یہ اس بات پ ردلیل ہے کہ وہ جنات سے خدمت لیتا ہے اور غیب کی چیزوں کے علم کا دعویٰ کرتا ہے لہٰذا ایسے شخض سے نہ علاج کرانا جائز ہے نہ اس کے ہاں جانا اورنہ اس سے کچھ پوچھنا درست ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی اس جنس کے متعلق فرمایا ہے کہ:

((مَنْ أَتَی عرَّافاً فسَألَہ عَن شَیْئٍ لَمْ تُقْبلْ لَہ صَلاۃُ أَربَعِینَ لَیلة))

جو شخص کسی غیب کی خبریں بتانے والے کے ہاں گیا اوار اس سے کچھ پوچھا تو اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہ ہوگی‘‘

اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔

نیز متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی کاہن ، عراف اور جادو گر کے ہاں جانے ، ان سے کچھ پوچھنے اور ان کی تصدیق کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَنْ أَتی کاہناً فصدَّقہ بما یقُول؛فقد کَفَرَ بِمَا اُنزِل علی محمَّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم))

’’جو شخص کسی کاہن کے ہاں گیا اور اس کی بات کو سچ سمجھا تواس نے اس چیز کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہے‘‘

نیز ہروہ شخص جو علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہے ، خواہ کنکریاں مارنے سے ہو یا نشانہ بنانے سے یا زمین پر خط کھینچے سے یا مریض سے اس کا اس کی ماں یا کے اقارب کا نام پوچھنے سے ہو۔ یہ سب چیزیں اس بات پر دلیل ہیں کہ یہ ایسے لوگ یا عراف ہیں یا کاہن ، جن سے سوال کرنے اور ان کی تصدیق کرنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

لہٰذا ایسے لوگوں سے ان سے کچھ پوچھنے اور ان کی ہاں علاج کرانے سے پرہیز لازم ہے۔خواہ وہ یہ سمجھتے ہوں کہ قرآن سے علاج کرتے ہیں کیو نکہ حقو باطل کی آمیزس اور فریب دہی اہل باطل کا شیوہ ہوتا ہے لہذا جو کچھ وہ کہتے ہیں اسے سچ سمجھنا درست نہیں او رجوشخص ایسے لوگوں میں سے کسی کو جانتا ہو اسے چاہئے کہ وہ اس کامعاملہ افسران متعلقہ اور مراکز شرعیہ تک پہنچائے جو ہر شہر میں موجوہ ہوتے ہیں تاکہ ایسے لوگوں کا اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا جائے تا کہ ان مسلمان کے شرو فساد سے محفوظ رہ سکیں اور اس بات سے بھی کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں۔

اور اللہ ہی مدد گار ہے جس کے بغیرنہ برائی سے بچنے کی ہمت ہے او رنہ نیکی سرانجام دینے کی طاقت ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلداول -صفحہ 34

محدث فتویٰ

تبصرے