سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(347) قضیہ فلسطین اس کا کیا ھل ہے؟

  • 7712
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1676

سوال

(347) قضیہ فلسطین اس کا کیا ھل ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قضیہ فلسطین،جس کی پیچیدگی اورسنگینی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ،اس کے حل کی کیا صورت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شک ایک مسلمان کو اس بات سے بہت دکھ ہے کہ قضیہ فلسطین انتہائی سنگین صورت اختیار کرگیاہے اوردن بدن اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے اوراس کی پیچیدگی اوربھی گھمبیر صورت اختیار کرتی جارہی ہے اوراب تونوبت یہاں تک آپہنچی ہے جوبے حد المناک ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ فلسطین کے پڑوسی مسلمان ممالک باہمی اختلاف کا شکار ہیں ،دشمن کے خلاف ان کی صفوں میں اتحاد نہیں اورپھر سب سے بڑھ کریہ کہ انہوں نے اسلام کے احکام پر پابندی سے عمل کرنا چھوڑ دیا ہے،جس کے ساتھ فتح ونصرت کو مشروط قراردیا گیا تھا اور جس کے ماننے والوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں زمین میں حکومت اورغلبہ وتسلط سے نوازاجائے گا۔یہ صورت حال اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ اگر فلسطین کے پڑوسی اسلامی ممالک نے اپنی صفوں کو از سرنو متحد نہ کیا اوراپنے اپنے ملکوں میں دین اسلام کو مکمل طورپر نافذ نہ کیا تویہ مسئلہ جو ان ےکے لئے بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے بے حد اہمیت کا حامل ہے،حل نہ ہوگا بلکہ مزید خطرناک صورت اختیارکرجائے گااورپھر اس کے نتائج بھی بہت خوفناک ہوں گے۔یہاں یہ اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ مسئلہ فلسطین اول وآخر ایک اسلامی مسئلہ ہے لیکن دشمنان اسلام نے بے پناہ کوششیں شروع کررکھی ہیں تاکہ اس مسئلہ کو اسلام کے دائرہ سے باہر کردیا جائے اورغیر عرب مسلمانوں کویہ باورکرایا جائے کہ یہ اسلامی نہیں بلکہ ایک عربی مسئلہ ہے ،لہذاغیرعرب مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں اوربظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ دشمنان اسلام اپنی اس مذموم کوشش میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں مگر میری سوچی سمجھی (پختہ ) رائے ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہ ہوگا جب تک اسے خالص اسلامی مسئلہ قرارنہیں دیا جائے گا،اس کے حل کے لئے تمام مسلمانان عالم متفق ومتحد نہ ہوں گے اوروہ یہودیوں کے خلاف اسلامی جہاد نہیں کریں گے،صرف اورصرف جہاد ہی سے ارض فلسطین اس کے اصل باشندوں کو واپس لوٹائی جاسکتی ہےاورباہر سے آنے والے یہودیوں کو ان کے ملکوں میں بھیجا جاسکتا ہے اورفلسطینی یہودیوں کو فلسطین کے باشندوں کے حثیت سے اسلامی حکومت کے تحت رکھا جاسکتا ہے اورانہیں وہاں نہ تواشتراکی حکومت کے تحت رکھا جاسکتا ہے اورنہ کسی سیکولر حکومت کے تحت ،محض جہاد ہی سے یہاں حق کو فتح اورباطل کو شکست ہوسکتی ہے اوراس ملک کے اصل باشندے اپنے وطن میں ایک اسلامی حکومت کے افرادکی حثیت سے ،نہ کہ کسی اورحکومت کے افراد کی حثیت سے یہاں واپس لوٹ سکتے ہیں۔واللہ الموفق۔

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 427

محدث فتویٰ

تبصرے