ہم اخبارات میں اورسڑکوں پر لگائے جانے والے بورڈوں میں ناخواندگی کے خلاف کوششوں کے بارے میں اکثر پڑھتے رہتے ہیں ،جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ناخواندگی پسماندگی کا سبب ہے جب کہ اللہ تعالی نے اس امت کوامی کے وصف سے یاد کرتے ہوئے فرمایا:
﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ﴾ (الجمعۃ۶۲/۲)
‘‘وہ ہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمدﷺکو) پیغمبربناکربھیجا۔’’
امید ہے آپ اس کی وضاحت فرمائیں گے؟امت محمدیہ کے افراد،جن کا عرب وعجم سے تعلق تھا ،نہ پڑھتے اورنہ لکھتے تھے،اسی وجہ سے انہیں امی کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ان میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،ان کی تعداددوسروں کے مقابلہ میں بہت ہی کم تھی ۔ہمارے نبی حضرت محمدﷺبھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ﴾ (العنکبوت۲۹/۴۸)
‘‘اورآپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اورنہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھ ہی سکتے تھے ایسا ہوتا تواہل باطل ضرورشک کرتے۔’’
یہ نبی الصلوۃ والسلام کی نبوت ورسالت کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے کہ آپ لوگوں کے پاس ایک ایسی مقدس کتاب لے کرتشریف لائے جس کے مقابلہ کی عرب وعجم تاب نہ لاسکے کیونکہ یہ کتاب پاک تواللہ تعالی نے آپﷺپر وحی کے ذریعہ نازل فرمائی تھی اوراس وحی الہی کو روح الامین حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالی نے آپؐ پر سنت مطہرہ اورپہلے لوگوں کے علوم میں سے بہت سے علوم بھی بذریعہ وحی نازل فرمائے،یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے ماضی کے بھی بہت سے حالات وواقعات بیان فرمائے اوربہت سے ایسے حالات وواقعات کی بھی خبر دی جو آخری زمانہ میں یا قیامت ک دن ظہور پذیر ہوں گے نیز آپ ﷺنے جنت،دوزخ،اہل جنت اوراہل جہنم کے بھی بہت سے حالات بتائے اوراس طرح اللہ تعالی نے آپؐ کو دوسروں پر بزرگی اورفضیلت عطافرمائی اورلوگوں کو بتایا کہ آپؐ کو اللہ تعالی نے کس قدر بلندو بالااورارفع واعلی مقام ومرتبہ پر فائز فرمایاہے۔اللہ تعالی نے امت محمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کے جس وصف اميت کا ذکر کیا ہے اس سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اميتکو باقی رہنے دیا جائے بلکہ اس سے مقصود توصرف امرواقعہ اورصورت حال کا بیان ہے کہ جب اللہ تعالی نے اس امت کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمدﷺکو مبعوث فرمایاتھا تواس وقت یہ امت ناخواندہ تھی،اس سے ناخواندگی کی ترغیب مقصود نہیں ہے کیونکہ کتاب وسنت کے صفحات پڑھنے لکھنے کی ترغیب اورناخواندگی کے خاتمہ کے حکم سے لبریز ہیں،چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (الزمر۹/۳۹)
‘‘کہوبھلاجولوگ علم رکھتےہیں اورجونہیں رکھتےدونوں برابرہوسکتےہیں۔’’
نیزفرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ﴾ (المجادلۃ۱۱/۵۸)
‘‘اےاہل ایمان!جب تم سےکہاجائےکہ مجلس میں کھل کربیٹھوتوکھل کربیٹھاکرو (یعنی کھلادائرہ بناکربیٹھاکروتاکہ زیادہ سےزیادہ لوگ وہاں بیٹھ سکیں) ۔ (واللہ اعلم) ،اللہ تم کوکشادگی بخشےگااورجب کہاجائےکہ اٹھ کھڑےہوتواٹھ کھڑےہواکرو،جولوگ تم میں سےایمان لائےہیں اورجن کوعلم عطاکیاگیاہے،اللہ ان کےدرجےبلندکردےگا۔’’
اورفرمایا:
﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّـهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ (فاطر۳۵/۲۸)
‘‘اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں،جو صاحب علم ہیں۔’’
اورنبی کریمﷺنے فرمایاہے‘‘جو شخص علم حاصل كرنے کے لئے کسی راستہ پر چلا تواللہ تعالی نے اس کے لئے جنت کے راستہ پر چلنا آسان بناددے گا۔’’ (صحیح مسلم ) نیز آنحضرتﷺکا ارشادگرامی ہے:جس شخص کے ساتھ اللہ تعالی خیروبھلائی کا ارادہ فرمائے،اسے دین کا علم عطافرمادیتا ہے۔’’ (متفق علیہ) اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات واحادیث ہیں۔وباللہ التوفیق۔