سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(337) کیا پشت اورپنڈلیوں کے بالوں کو صاف کرنا جائز ہے

  • 7702
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1657

سوال

(337) کیا پشت اورپنڈلیوں کے بالوں کو صاف کرنا جائز ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بغل اورزیرناف کے ساتھ ساتھ جسم کے باقی حصوں مثلا کمر ،پنڈلیوں اوررانوں سے بھی بالوں کو صاف کردے جب کہ اس کا مقصود عورتوں اوراہل کتاب کافروں وغیرہ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا نہ ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بالابالوں کو صاف کرنا جائز ہے کیونکہ ان کی صفائی سے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچتابشرطیکہ عورتوں یا کافروں سے مشابہت مقصود نہ ہو کیونکہ اصل،اباحت (جواز) ہے اورکسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ دلیل کے بغیر کسی چیز کو حرام قراردے اورمذکورہ بالوں کے صاف کرنے کی کی حرمت کی کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اللہ اوراس کے رسولﷺکا سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جائز ہے۔رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا ہے کہ مونچھیں کترادیں،ناخن تراش دیں،بغلوں کے بالوں کو اکھیڑ دیں اورزیر ناف بال مونڈ دیں۔مردوں کے لئے آپؐ نے سر منڈانا بھی جائز قراردیاہے جب کہ آپؐ نے بال اکھاڑنے والی اوربال اکھڑوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے اورمردوں کو آپؐ نے داڑھی رکھنے اوراسے بڑھانے کا حکم دیا ہے اوران کے سوا دیگر بالوں سے سکوت فرمایاہے اورجس سے اللہ اوراس کا رسول ﷺسکوت فرمائیں وہ قابل معافی ہے اوراسے حرام قراردینا جائز نہیں ہے کیونکہ ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘تحقیق اللہ تعالی نے کچھ فرائض مقررفرمائے ہیں،انہیں ضائع نہ کرو۔کچھ حدود کا تعین فرمایاہے،ان سے تجاوز نہ کرو،کچھ چیزوں کو حرام قراردیا ہے ،ان کا ارتکاب نہ کرواورتم پر رحمت کے پیش نظر ،نہ کہ بھولنے کی وجہ سے کچھ چیزوں سے سکوت فرمایاہے،تم ان کے بارے میں بحث نہ کرو ’’ (دارقطنی وغیرہ) یہ بات امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نےبیان فرمائی ہے۔

مذکورہ حدیث اوراس کے ہم معنی دیگر احادیث وآثارکی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے بھی یہی فرمایا ہے۔ان احادیث وآثار میں سے بعض حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘جامع العلوم والحکم’’ میں حدیث ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی شرح میں ذکر فرمائے ہیں جوشخص ان کو دیکھنا چاہے وہ اس کتاب کا مطالعہ فرمائے ،واللہ اعلم۔

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 420

محدث فتویٰ

تبصرے