میں انیس برس کا نوجوان ہوں،میں نے بہت سے گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے اوپر بہت ظلم کیا ہے حتی کہ میں مسجد میں نمازیں بھی زیادہ نہیں پرھتا ،زندگی بھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے رمضان میں سارے روزے رکھے ہوں اوربھی بہت سے برےکام کئے ہیں۔میں نے بہت دفعہ توبہ کا ارادہ کیا لیکن کیا کروں میں پھر پاپ کمانے لگتا ہوں۔میرے محلے کے دوست واحباب بھی ایسے نوجوان ہیں،جن کے اخلا ق اچھے نہیں ہیں،اسی طرح میرے بھائیوں کے دوست جو اکثر ہمارے گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں وہ بھی نیک نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا،بہت گناہ کئے ہیں اوربہت برے عملوں کا ارتکاب کیا ہے لیکن جب بھی توبہ کرتا ہوں تواسے توڑ دیتا ہوں۔امید ہے مجھے آپ ایسا راستہ بتائیں گےجورب سے قریب کردے اوران برے اعمال سے مجھے دورہٹا دے؟
ارشادباری تعالی ہے:
﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ (الزمر۳۹/۵۳)
‘‘ (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو ) کہہ دوکہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سےناامید نہ ہونا،اللہ توسب گناہوں کو بخش دیتا ہے یقینا وہی بہت زیادہ بخشنے والانہایت مہربان ہے۔’’
علماءاجماع ہے کہ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو توبہ کرنے والے ہوں ۔جو شخص اپنے گناہوں سے سچی اورپکی توبہ کرے تواللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے جیسا کہ مذکورہ بلاآیت سے ثابت ہے ۔نیز فرمان باری تعالی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَار﴾ (التحریم۸/۶۶)
‘‘مومنو! اللہ کےخالص سچی (صاف دل سے) توبہ کروامید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سےدورکردےگااورتمہیں باغ ہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا۔’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے گناہوں کی دوری اوربہشتوں کے داخلہ کو توبۃ النصوح کے ساتھ مشروط کیا ہے اوریہ وہ توبہ ہوتی ہے جس میں گناہوں کے ترک کرنے کا عہد کیاجائے،گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کیاجائے ،ماضی میں جو کچھ ہو اس پر ندامت کا اظہار کیا جائےاوراللہ سبحانہ وتعالی کی تعظیم،اس کے ثواب کی رغبت اوراس کے عذاب کے ڈر کے باعث یہ عزم صمیم کیا جائے کہ آئندہ ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔اسی طرح توبۃ النصوح کی شرطوں میں میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگرگناہ کا تعلق کسی خون یا مال یا عزت وآبروسے ہے تو حق داروں کو ان کا حق دیا جائے یا اسے معاف کرلیا جائے اوراگرحق کی ادائیگی یا معافی ممکن نہ ہو توپھر صاحب حق کے لئے کثرت سے دعاکی جائے اورجہاں اس نے اس کی غیبت کی تھی،وہاں اس کے اعمال صالحہ کا بھی تذکرہ کرے کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (النور۳۱/۲۴)
‘‘اے اہل ایمان!تم سب کے سب اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کروتاکہ فلاح پاؤ۔’’
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے فلاح کو توبہ کے ساتھ مشروط قراردیا ہے،تواس سے معلوم ہواکہ توبہ کرنے والاکامیاب وکامران ہے اوراگر توبہ کرنے والا توبہ کے بعد ایمان وعمل صالح کا مظاہر ہ کرے تواللہ تعالی اس کی برائیوں کو مٹادیتا ہے اورگناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سورہ الفرقان میں شرک ،قتل ناحق اورزناکا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے:
﴿ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ (الفرقان۲۵/۶۸۔۷۰)
‘‘اورجویہ کام کرےگاسخت گناہ میں مبتلاہوگا،قیامت کےدن اس کودوگناعذاب ہوگااورذلت وخواری سےہمیشہ اس میں رہےگامگرجس نےتوبہ کی اورایمان لایااوراچھےکام کئے توایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گااوراللہ توبخشنے والا مہربان ہے۔’’
توبہ کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اس سے ہدایت وتوفیق کی دعا مانگی جائے نیز یہ بھی دعا کریں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے تمہیں توبہ کی توفیق عطافرمائے،اسی کا یہ فرمان ہے:
﴿ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (الغافر۴۰/۶۰)
‘‘تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔’’
نیزفرمایا:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾
(البقرۃ۲/۱۸۶)
‘‘ (اے پیغمبر!) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو
(کہہ دیں کہ ) میں (تمہارے) قریب ہوں۔جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے۔ میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔’’
توبہ کے اسباب میں سے یہ بھی ہے،اوراس سے توبہ پر استقامت بھی نصیب ہوتی ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے،اعمال صالحہ میں ان کی پیروی کی جائے اوربرے لوگوں کی صحبت سےاجتناب کیا جائے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے کہ ‘‘آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہئے کہ ا س کی دوستی کس سے ہے؟’’
نبی علیہ السلام نے یہ بھی ارشادفرمایاہے کہ‘‘نیک ساتھی کی مثال کستوری والے کی طرح ہے کہ وہ یا تو تمہیں کستوری کاتحفہ دےدےگایاتم اس سے خرید لوگےیا اس سے اچھی خوشبو ہی پاو گے اوربرے ساتھی کی مثال بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہے کہ وہ تمہارے کپڑے جلادے گایا تم اس سے بدبوپاوگے۔’’