امام کا خلافِ ترتیب قرآن پڑھنا تقدیم و تاخیرسے درست ہے یا نہیں؟ اور فرض نمازوں میں کبھی ایک مرتبہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اثناء سورتوں سے متفرق رکوعات کا پڑھنا ثابت ہے یا نہیں ؟ اگرنہیں ہے تو آج کل پوری سورتیں نہ پڑھنا اور صرف درمیان سورۃ سے یا اول آخرسورۃ سے پڑھنا بدعت ہے یا نہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام کا موجودہ ترتیب قرآنی کے خلاف تقدیم و تاخیر سے پڑھنا یا اثناء سورتوں سے متفرق رکوعات کا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ملاحظہ بخاری جلداول صفحہ 107،106
یعنی امام بخاری نے باب باندھا ہے کہ وہ سورتیں ایک رکعت میں یا سورتوں کے اخیر کی آیتیں یا موجودہ ترتیب کے خلاف سورتوں کا پڑھنا یا سورتوں کی پہلی آیتوں کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
اب اس کے دلائل سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جائزہ ملاحظہ ہو:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مسجدقباء میں امامت کرواتا سورۃ فاتحہ کے بعد پہلے قل ہواللہ احد پڑھنا بعد کوئی سورۃ ملاتا۔اس پر اس کی قوم ناراض ہوکر اسے کہنے لگی تم قل ہواللہ احدپر اکتفانہیں کرتے بلکہ ایک اور سورۃ ملاتے ہویہ ٹھیک نہیں۔ یا توصرف قل ہواللہ احدپڑھا کرو یا قل ہواللہ احد پڑھنا چھوڑ دو۔ کوئی دوسری سورۃ پڑھاکرو۔ امام نے جواب دیاکہ یہ ناممکن ہے۔ تمہاری مرضی ہو امامت کراؤں ورنہ چھوڑدوں۔قوم مجبور تھی کیونکہ ان میں افضل یہی تھا۔ جب اس قوم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے تولوگوں نے اپنے امام کی حالت بیان کی۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے مقتدیوں کی بات کیوں نہیں سنتا اور تونے ہررکعت میں اس سورۃ کو اپنے اوپر کیوں لازم کر لیا ہے۔ جواب دیاکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس سورۃ کو دوست رکھتاہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری یہ دوستی تجھ کو جنت میں لیجائے گی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
حدیث بیان کی آدم شعبہ سے۔ اس نے عمروبن مرہ سے کہا۔ عمروبن مرہ نے سنا میں نے اباوائل سے وہ کہتے تھے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں نے آج کی رات ایک رکعت میں مفصل سورتیں پڑھی ہیں۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ پڑھنا تیرا جلدی جلدی مثل شعرگوئی کے ہوگا۔ پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مفصل کی دوسورتیں ایک رکعت میں پڑھتے تھے اور میں ان سورتوں کو جانتا ہوں۔
سورتوں کی تعیین ابوداؤد جلد اول ص414 مجتبائی میں مذکورہے۔ ملاحظہ ہو۔
یعنی علقمہ اور اسودفرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کے پاس ایک آدمی آکر کہنے لگا کہ میں ایک رکعت میں مفصل پڑھتا ہوں۔آپ نے فرمایاکہ یہ مثل شعرگوئی کے ہے۔ اور مثل گرنے ردی سوکھی کھجوروں کے ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسورتیں مقدار میں برابر کی ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ سورۃ النجم ورحمٰن ایک رکعت میں ۔ سورۃ اقتربت والحاقہ ایک رکعت میں۔طور والذاریات ایک رکعت میں۔واقعہ و نون ایک رکعت میں۔سأل سائل والنازعات ایک رکعت میں۔مطففین وعبس ایک رکعت میں۔مدثرومزمل ایک رکعت میں۔وہل اتک و لااقسم بیوم القیامۃ ایک رکعت میں۔وعم یتساءلون ومرسلات ایک رکعت میں۔ دخان اور اذالشمس ایک رکعت میں۔
کہاابوداؤد نے نے یہ عبداللہ بن مسعود کے مصحف کی بناپر ہے۔
اس حدیث سے دو مسئلے ثابت ہوتےہیں۔ایک یہ کہ دوسورتوں کا جمع کرناایک رکعت میں دوسرا یہ کہ موجودترتیب قرآنی کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنا ثابت ہوا کیونکہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اسی طرح اپنے مصحف میں جمع کردیا۔
نمبر2 کی دلیل یعنی نماز میں سورتوں کے اخیر پڑھنے کا ثبوت
یعنی قتادہ نے کہا کہ جوشخص ایک سورۃ دورکعتوں میں پڑھےیا ہر رکعت میں وہی سورت پڑھے(جائز ہے) کیونکہ ہرایک سورۃ میں کتاب اللہ ہی کاپڑھنا ہے۔وجہ استدلال یوں ہے کہ جب ایک سورۃ کو دو رکعتوں میں آدھا آدھا کرکے پڑھے گا تو لامحالہ اخیر کی رکعت میں سورۃ کا اخیر ہوگا۔ جب ایک رکعت میں ایک سورۃ کا اخیرجائز ہوگا تو دونوں رکعتوں میں دوسورتوں کے اخیر کی آیتیں یعنی قرأت باالخواتیم کے عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے۔کیونکہ اس سورۃ میں بھی کتاب اللہ کا ہی پڑھنا ہوتاہے جوعین مقصود شارع ہے۔ یعنی نماز میں قرآن کا پڑھنا۔نیز مسلم جلداول ص271 میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جوشخص اخیربقرہ کی دوآیتیں رات کو پڑھے گا۔ اس کو رات کی عبادت کے لیے کافی ہیں۔ یہ حدیث عام ہے۔ غیرنماز دونوں کو شامل ہے۔
نمبر3 کی دلیل یعنی موجودہ ترتیب کے خلاف تقدیم و تاخیرکرنا سورتوں کا نماز میں جائز ہے۔
یعنی احنف بن قیس نے پہلی رکعتوں میں سورۃ کہف اور دوسری میں سورۃ یوسف یا یونس (شک راوی) پڑھی۔ اور ذکرکیا کہ میں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پیچھے صبح کی نماز پڑھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح یعنی پہلی رکعت میں سورۃ کہف اور دوسری میں یوسف یا یونس پڑھی لہذا موجودہ ترتیب کے خلاف پڑھنا جائز ہوگیا۔
اس پراگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ترتیب نہ تھی اس لیے جائز تھی ۔ اب جائز نہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عدم جواز کی کیا دلیل ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ عدم جواز کی دلیل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔ اگر قرآن وحدیث میں ترتیب عثمانی کے وجوب کی دلیل اللہ کی طرف سے ہوتو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد..................یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلاف نہ کرتے۔ جیساکہ مصحف ابن مسعود میں ہے ۔ نہ اجماع سے عدم جواز ثابت ہوسکتاہے کیونکہ ترتیب عثمانی پراجماع نہیں ہے۔اگر ہوتاتو عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا مصحف نہ ہوتا۔ حالانکہ اب تک ان کا مصحف موجود ہے ۔ علاوہ اس کے تقدیم و تاخیر کی وجہ سے کتاب اللہ سے خارج نہیں ہوسکتا۔ جب کتاب اللہ ہے تو جائز ہے ۔ یہی مقصود شارع ہے یعنی نماز میں قرآن کا پڑھنا۔
نمبر4 کی دلیل یعنی رکعتوں میں سورتوں کی پہلی آیتوں کا پڑھنا:
یعنی عبداللہ بن السائب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں سورۃ مومنون پڑھی جب آپ آیت ﴿ثم ارسلنا موسیٰ اخاه هارون﴾ یا آیت ﴿وجعلنا ابن مريم وامه﴾ پرپہنچے تو آپ کو کھانسی شروع ہوگئی پس رکوع کیا۔ اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں انفال کی چالیس آیتیں اور دوسری میں مفصل کی ایک سورۃ پڑھی۔ ان دونوں حدیثوں سے نماز میں اوائل سورتوں کا پڑھنا ثابت ہوگیا۔ وجہ استدلال یوں ہے کہ جب پہلی رکعت میں اوائل سورتوں کا پڑھنا ثابت ہوگیا تو دوسری میں اختیار ہے خواہ بقیہ کو پڑھے یاکسی اور سورت کا پہلاحصہ پڑھے یا اخیر کا حصہ پڑھے۔ بہر صورت مقصودکتاب اللہ کا پڑھناہےجو مقصود شارع کا ہے۔
وباللہ التوفیق