مخلوط تعلیم
الحمدلله،والصلوة والسلام علي رسول الله-وبعد:
میں نے وہ بیان دیکھا ہے ،جواخبار‘‘السیاستہ’’کے شمارہ نمبر۵۶۴۴ میں مورخہ۲۴/۷/۱۴۰۴ ہجری کو شائع ہوااورجسے صنعاءیونیورسٹی کے مدیر جناب عبدالعزیزمقالح کی طرف منسوب کیا گیا ہے اورجس میں انہوں نے کہا ہے کہ طالبات کو طلبہ سے الگ کردینے کا مطالبہ شریعت کے مخالف ہے ۔انہوں نے طلبہ وطالبات کے اختلاط کے جواز کے لئے یہ دلیل دی ہے کہ رسول اللہ ﷺکے عہد میں تمام مسلمان خواہ مرد ہوں یا عورتیں ایک ہی مسجد میں نماز اداکیا کرتے تھے لہذاضروری ہے کہ تعلیم بھی ایک ہی جگہ ہو۔مجھے ایک اسلامی ملک کی اسلامی یونیورسٹی کے مدیر کا یہ بیان پڑھ کر بہت تعجب ہوا ہے جس سے یہ مطالبہ کیاگیا تھا کہ وہ مردوں اورعورتوں کے شعبوں کو الگ الگ کردے کہ اس میں دنیا وآخرت کی سعادت اورنجات ہے مگر انہوں نے اس کے جواب میں مذکورہ بات کہی ہے جس پر سوائے اس کے اورکیا کہا جائے کہ
إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ’ولا حول ولا قوة الابالله
بلاشک وشبہ اس بیان میں اسلامی شریعت کی طرف ایک بے حد غلط بات کو منسوب کیا گیا ہے کیونکہ اسلامی شریعت نے قطعا اختلاط کی دعوت نہیں دی حتی کہ اس کی ممانعت کے مطالبہ کو شریعت کی مخالفت قراردیا جائے بلکہ اسلامی شریعت نے مردوزن کے اختلا ط سے منع کیا اورنہایت سختی سے منع کیا ہے،ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ﴾ (الاحزاب۳۳/۳۳)
‘‘اوراپنے گھروں میں ٹھہری رہو اورجس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں ،اس طرح زینت نہ دکھاو۔’’
اورفرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ (الاحزاب۳۳/۵۹)
‘‘اے نبی!اپنی بیویوں اوربیٹیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (چہروں) پر چادرلٹکا (کرگھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ امران کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا توکوئی ان کو ایذا نہ دے گااوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔’’
مزید فرمایا:
﴿وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ﴾ (النور۲۴/۳۱)
‘‘اورمومن عورتوں سےبھی کہہ دوکہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھاکریں اوراپنی شرم گاہوں (عصمتوں) کی حفاظت کیاکریں اوراپنی آرائش (یعنی زیورکےمقامات) کوظاہرنہ ہونےدیں مگرجواس میں سےکھلارہتاہواوراپنےسینےپراپنی اوڑھنیاں اوڑھےرہاکریں اوراپنےخاوند،باپ،خسر،بیٹوں،خاوندکےبیٹوں،بھائیوں،بھتیجوں ،بھانجوں اوراپنی (ہی قسم کی) عورتوں اورلونڈی غلاموں کےسوا۔۔۔۔۔کسی پراپنی زینت (اورسنگھارکےمقامات) کوظاہرنہ ہونےدیں۔’’
سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے آگے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایاکہ :
﴿وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (النور۲۴/۳۱)
‘‘اوراپنےپاؤں (ایسےطورپرزمین) پرنہ ماریں کہ (جھنکارکی آوازکانوں میں پہنچےاور) ان کاپوشیدہ زیورمعلوم ہوجائےاوراےاہل ایمان!سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کروتاکہ تم فلاح پاؤ۔’’
اورفرمایا:
﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ (الاحزاب۵۳/۳۳)
‘‘اورجب پیغمبروں کی بیویوں سےکوئی سامان مانگوتوپردےکےپیچھےسےمانگو،یہ تمہارےاوران کے (دونوں کے) دلوں کےلئےبہت پاکیزگی کی بات ہے۔’’
یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کناں ہیں کہ عورتوں کے لئے حکم شریعت یہ ہے کہ فتنہ کے خوف کی وجہ سے وہ اپنے گھروں ہی میں رہیں ہا ں البتہ بوقت ضرورت وہ اپنے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں ،پھر اللہ تعالی نے انہیں یہ حکم دیا ہے کہ جب بوقت ضرورت وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو اس طرح اظہار تجمل نہ کریں جس طرح دور جاہلیت میں وہ اپنی زینت کا اظہار کیا کرتی تھیں یعنی اپنے حسن وجمال کے مقامات کو مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ ‘‘میرے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کر اورکوئی فتنہ نہیں ہے۔’’ (متفق علیہ) بروایت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ۔نیز صحیح مسلم میں یہ روایت اسامہ اورسعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ دونوں سے مروی ہے ۔صحیح مسلم میں حضرت اابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا‘‘بے شک دنیا شیریں اورسرسبزوشاداب ہے اوراللہ اس میں تمہیں یکے بعد دیگرے بھیجنے والا ہے اوروہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو،دنیا سے بچ جاواورعورتوں سے بچ جاوکیونکہ بنی اسرائیل میں رونماہونے والا پہلا فتنہ بھی عوتوں کا ہی تھا۔’’سچ فرمایا ہے رسول اللہ ﷺنے ،بلاشبہ عورتوں کی وجہ سے خصوصا اس دورمیں بہت بڑا فتنہ رونما ہوچکا ہے ،جب کہ عورتوں نے پردہ کرنا چھوڑ دیا ہے ،زمانہ جاہلیت کی طرح زیب زینت کا اظہار شروع کردیا ہے،جس کی وجہ سے فواحش ومنکرات کی کثرت ہوگئی ہے اوربہت سارے ملکوں میں نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں نے ،اللہ تعالی کے مقررکردہ نظام شادی سے روگردانی کرکے بدکاری کی زندگی بسر کرنا شروع کردی ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمادیا ہے کہ پردہ سے سب کے دلوں کو پاکیزگی حاصل ہوگی تواس سے معلوم ہو ا بے پردگی سے سب کے دل ناپاک بھی ہوجاتے ہیں اورراہ حق سے منحرف بھی!
یاد رہے کلاس روم میں طالبہ کا طالب علم کے ساتھ اکٹھے بیٹھنا فتنے کا بہت بڑا سبب ہے کہ اس کی وجہ سے اس پردے کو ترک کردیا جاتا ہے جس کا اللہ تعالی نے اپنی مومن بندیوں کو حکم دیا ہے اورمنع فرمایا ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار بجزان محرموں کے کسی کے سامنے کریں،جن کا اللہ تعالی نے سورہ نور کی سابقہ آیت میں ذکر فرمایاہے۔جو شخص یہ کہتاہے کہ پردے کا حکم خاص طورپر صرف امہات المومنین رضی اللہ عنہماکے لئے تھا،وہ بہت دورکی کوڑی لاتا اورکتاب وسنت کے ان بے شمار دلائل کی مخالفت کرتا ہے،جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پردے کاحکم عام ہے،یہ حکم امہات المومنین کے لئے بھی ہے اوردیگرتمام مسلمان عورتوں کے لئے بھی نیز یہ شخص درج ذیل ارشادباری تعالی کی بھی مخالفت کرتا ہے کہ :
﴿ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ﴾ (الاحزاب۵۳/۳۳)
‘‘یہ تمہارےاوران کے (دونوں کے) دلوں کےلئےبہت پاکیزگی کی بات ہے۔’’
لہذایہ کہنا جائز نہیں ہے کہ پردہ امہات المومنین اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کے لئے توپاکیزگی کا سبب تھادوسروں کے لئے نہیں اوراس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ امہات المومنین اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت دوسرے لوگوں کو پردے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسرے لوگوں میں قوت ایمان اوربصیرت حق کے اعتبارسےبہت زیادہ فرق ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،صحابیات۔۔۔جن میں امہات المومنین بھی شامل ہیں۔۔۔رضی اللہ عنہم۔جو حضرت انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ہیں اوررسول اللہ ﷺکے اس ارشادکے مطابق جوصحیحین میں ہے ،افضل القرون ہیں،اگر پردہ ان کے دلوں کے لئے پاکیزگی کا باعث ہے تو بعد کے لوگ اس پاکیزگی وطہارت کے ،پہلے لوگوں کی نسبت زیادہ ضرورت مند اورمحتاج ہیں اورپھر یہ بھی جائز نہیں کہ کتاب وسنت میں واردنصوص کو کسی صحیح دلیل کے بغیر امت میں سے کسی کے ساتھ مخصوص کردیا جائے لہذا معلوم ہواکہ پردہ سے متعلق آیات واحادیث عام ہیں ،ان کا حکم آنحضرتﷺکے عہد سے لے کر قیامت تک کے لئے ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول ﷺکو اپنے عہد سے لے کرقیامت تک آنے والے تمام جنوں اورانسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:
﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الاعراف۱۵۸/۷)
‘‘ (اے محمد ﷺ!) کہہ دو کہ لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) ’’
اورفرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا﴾ (سبا۳۴/۲۸)
‘‘ (اوراے محمد ﷺ!) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے اورڈرانے والابناکربھیجاہے۔’’
قرآن کریم صرت نبیﷺکے عہد مبارک کے لوگوں ہی کے لئے تونازل نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ان کے لئے بھی اورقیامت تک آنے والے ان تمام انسانوں کے لئے بھی نازل ہوا ہے،جن کے پاس اللہ تعالی کی یہ کتاب مقدس پہنچ جائے۔
جیسا کہ اشادباری تعالی ہے:
﴿هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ (ابراھیم۱۴/۵۲)
‘‘یہ (قرآن ) لوگوں کے نام (اللہ کا پیغام) ہےتاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے اورتاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اوراہل عقل نصیحت پکڑیں۔’’
اورفرمایا:
﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ (الانعام۶/۱۹)
‘‘اور یہ قرآن مجید مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے تم کو اور جس جس شخص تک یہ پہنچ سکے ( سب کو) ڈراؤں’’
نبی کریمﷺکے عہد میں عورتوں اورمردوں کا وہ اختلاط نہیں ہوتا تھا نہ مسجدوں میں اورنہ بازاروں میں جس سےآج مصلحین منع کرتے اورقرآن ،سنت اورعلماء امت جس کے فتنہ سے بچنے کی تلقین کرت ہیں۔عورتیں مسجد نبوی میں نماز اس طرح اداکرتی تھیں کہ وہ مردوں سے پیچھے ہوتیں اوران کی صفیں مردوں کی صفوں سے بہت دورہوتی تھیں اورنبی ﷺارشادفرماتے تھے کہ ‘‘مردوں کی بہترین صف پہلی اوربری صف آخری ہے اورعورتوں کی بہترین صف آخری اوربری صف پہلی ہے ۔’’یہ آپؐ اس لئے فرماتے تاکہ مردوں کی آخری صف کو عورتوں کی پہلی صف کے ساتھ ملنے کی وجہ سے ان کے فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچاسکیں۔نبی کریمﷺکے عہد میں مردوں کو یہ حکم بھی دیا جاتاتھا کہ وہ جلدی نہ کریں اورکچھ دیر کے لئے رک جائیں تاکہ عورتیں مسجد سے چلی جائیں اوریہ بھی آپؐ اس لئے فرماتےتاکہ مردوں اورعورتوں کا مسجد کے دروازوں پر اختلاط نہ ہواوریہ احکام ان مردوں اورعورتوں کے لئے تھے جوایمان اورتقوی کے اعتبارسےبہت بلند مقام پر فائز تھے ۔اس سے اندازالگایئے کہ ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کو ان احکام کی پابندی کس قدر شدت سے کرنی چاہئے اس دورمیں عورتوں کو اس بات سے بھی منع کیا جاتا تھا کہ وہ راستہ کے درمیان میں چلیں اورانہیں یہ حکم تھا کہ وہ راستہ کے کناروں پرچلیں ،اس میں بھی یہی حکمت تھی کہ وہ مردوں کے ساتھ نہ ٹکرائیں اورراستہ میں چلتے ہوئے ایک دوسر ے کے ساتھ نہ لگیں۔اللہ سبحانہ وتعالی نے مومن عورتوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ اپنے اوپر چادراوڑھ کر اپنی زینت کو چھپائیں تاکہ فتنہ سے بچاجاسکے،اللہ تعالی نے انہیں اس بات سب بھی منع فرمایا کہ وہ اپنی زینت کو ان لوگوں کے سوا کسی اورکے سامنے ظاہر کریں،جن کا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے تاکہ اسباب فتنہ کی بیخ کنی،اسباب عفت کی ترغیب نیزفتنہ وفساداوراختلاط کی خرابیوں سے دوررہا جاسکے۔
جامعہ صنعاء کے مدیر۔۔۔۔اللہ تعالی انہیں ہدایت اوررشدوبھلائی سے نوازے۔۔۔۔کویہ بات کیسے زیب دیتی ہےکہ وہ اختلاط کی دعوت دیں اورپھر یہ دعوی بھی کریں کہ اسلام نے اس کی دعوت دی ہے،جامعہ کے ماحول مسجد کے ماحول کی طرح اورتعلیمی اوقات ،نماز کے اوقات کی طرح ہیں حالانکہ ان دونوں باتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ،ہر اس شخص کو یہ فرق بہت نمایاں نظر آئے گاجس کی اللہ تعالی کے اوامرونواہی پر نظر ہوگی اوروہ اس حکمت کو سامنے رکھے گاجس کے پیش نظر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو احکام سکھائے اورمردوں اورعورتوں سے متعلق اپنے ان احکام کو اپنی کتاب عظیم میں بیان فرمادیا ہے۔کسی مومن کے لئے یہ بات کہنا کس طرح جائز ہوسکتا ہےکہ ایک طالبہ کا کلاس روم میں ایک ہی ڈیسک پر ایک طالب علم کے ساتھ بیٹھنا اسی طرح ہے جس طرح ایک عورت مسجد میں مردوں کی صفوں کے پیچھے عورتوں کی صفوں میں ان کے ساتھ بیٹھتی ہے؟یہ بات کوئی ایسا شخص نہیں کہ سکتا جس میں ذرہ برابر بھی ایمان وبصیرت ہو اورجس میں اس قدرعقل ہوکہ وہ جو کچھ اپنے منہ سے کہہ رہا ہو،اسے سمجھتا بھی ہو۔یادرہےکہ اگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ طالبات شرعی پردہ کی پابندی کرتی ہیں۔ (توپھربھی ان کےلئےطلبہ کےساتھ اختلاط جائزنہیں) لیکن اگروہ طلبہ کےساتھ کلاس روم میں ایک ہی کرسی (سیٹ) پراس طرح بیٹھیں کہ انہوں نےبناؤسنگھارکررکھاہو،اپنےمحاسن کوظاہرکررکھاہواورفتنہ انگیزنگاہوں اورباتوں پربھی کوئی قدغن نہ ہوتوپھراس کےسواہم کیاکہہ سکتےہیں کہ فالله المستعان ولاحول والاقوةالابالله اورارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ﴾ (الحج۴۶/۲۲)
‘‘بات یہ ہےکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جوسینوں میں ہیں (وہ) اندھےہوجاتےہیں۔’’
مدیرجامعہ صنعاءنےجویہ کہاہےکہ‘‘امرواقعہ یہ ہےکہ رسول اللہﷺکےعہدسےمسلمان مرداورعورتیں ایک ہی مسجدمیں نمازاداکرتےرہےہیں لہٰذاتعلیم بھی سب کی ایک ہی جگہ ہونی چاہئے۔’’
اس کاجواب یہ ہےکہ یہ توصحیح ہےکہ مرداورعورتیں ایک ہی مسجدمیں نمازاداکرتےتھےلیکن عورتیں مسجدکےپچھلےحصےمیں ہوتی تھیں،انہوں نےپردےکاپوراپورااہتمام کیا ہوتاتھااوروہ ان تمام امورسےمحفوظ تھیں جوباعث فتنہ ہیں اورمردمسجدکےاگلےحصےمیں ہوتےتھے۔عورتیں وعظ ونصیحت اورخطبہ سنتیں،نمازاداکرتیں اورسن کراوردیکھ کردین کےاحکام سیکھتی تھیں۔عیدکےدن نبی کریمﷺمردوں کووعظ ونصیھت کرنےکےبعدعورتوں کی صفوں کےپاس تشریف لےآتےکیونکہ دورہونےکی وجہ سےانہوں نےخطبہ نہیں سناہوتاتھااس لئےآپانہیں بھی وعظ ونصیحت فرماتے۔اگرمردوں اورعورتوں کےایک ہی مسجدمیں نمازاداکرنےکی یہ صورت ہوتواس میں کوئی اشکال یاحرج نہیں ہے۔
اشکال،مدیرجامعہ صنعاء۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت،اصلاح قلب اورفقاہت دین سےنوازے۔۔۔کی اس بات میں ہے (کہتےہیں) کہ‘‘اس سےمعلوم ہواکہ ضروری ہےکہ تعلیم بھی ایک ہی جگہ ہو۔’’تعجب ہےکہ یہ کیسےجائزہےکہ وہ ہمارےاس دورکےطریق تعلیم کوایک ہی مسجدمیں مردوں کےپیچھےنمازکےساتھ تشبیہہ دیں حالانکہ آج کےطریق تعلیم میں اورنبی کریمﷺکےدورمیں مردوں کےپیچھے،مسجدکےپچھلےحصہ میں عورتوں کےنمازاداکرنےمیں زمین وآسمان کافرق ہے۔یہی وجہ ہےکہ آج مصلحین اس بات پرزوردےرہےہیں کہ مردوں اورعورتوں کےتعلیمی ادارےالگ الگ ہونےچاہئیں تاکہ طالبات الگ تعلیم حاصل کریں اورطلبہ الگ،اسی صورت میں ہی طالبات اپنی استانیوں سےحجاب اورمشقت کےبغیرآسانی سےتعلیم حاصل کرسکتی ہیں اورپھرتعلیم حاصل کرنےکاوقت کافی طویل ہوتاہےجب کہ نمازاداکرنےکاوقت بہت مختصرہوتاہےاورپھرطالبات کےلئےخواتیں کےمخصوص تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرناطلبہ وطالبات سب کےلئےعفت وپاک دامنی کےحصول اوراسباب فتنہ سےدوررہنےکاسبب ہے۔نوجوان جب اپنےمخصوص تعلیمی اداروں میں علم حاصل کریں گےتوایک طرف وہ اسباب فتنہ سےمحفوظ رہیں گےتودوسری طرف توجہ وانہماک سےتعلیم حاصل کریں گے،اساتذہ کرام کےلیکچروں کوغورسےسنیں گےاورزہریلی نظروں،فسق قفجورکی داعی باتوں،طالبات کےساتھ دلچسپی اورمشغولیت جیسےقبیح کاموں سےبھی محفوظ رہ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ اس مدیرکی اصلاح فرمائے،انہوں نےجویہ کہاہےکہ طالبات کوطلبہ سےالگ کردینےکامطالبہ رجعت پسندی بھی ہےاورمخالف شریعت بھی،لہٰذایہ مطالبہ ناقابل قبول ہے،حالانکہ یہ مطالبہ تواللہ تعالیٰ اوراس کےبندوں کی خیرخواہی ہے،اس کےدین پرعمل ہےاوران آیات کریمہ اوردواحادیث پرعمل ہےجن کوقبل ازیں بیان کیاگیاہے۔میری مدیرکےلئےیہ نصیحت ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ سےڈرے،جوکچھ اس نےکہاہےاس سےاللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے،راہ حق وصواب کی طرف رجوع کرےکیونکہ حق وصواب کی طرف رجوع ہی فضیلت اورایک طالب علم کےحق وانصاف کےلئےجستجوکی دلیل ہے۔اللہ تعالیٰ ہی سےدعاہےکہ وہ ہم سب کوراہ راست کی ہدایت فرمائے،ہمیں اورتمام مسلمانوں کوبغیرعلم کےکئی بات کہنے،گمراہ کن فتنوں اورشیطان کےوسوسوں سےبچائے۔اللہ تعالیٰ سےیہ بھی دعاہےکہ وہ ہرجگہ کےمسلمان علماءوقائدین کواس بات کی توفیق عطافرمائےجس میں دنیاوآخرت کےاعتبارسےبندگان الہٰی اوراس کےملکوں کی بھی بھلائی ہواورہم سب کوصراط مستقیم پرچلنےکی توفیق سےسرفرازفرمائے۔
( (انه جوادكريم’وصلي الله علي نبينامحمدوآله وصحبه والتابعين اللهم باحسان الي يوم الدين_
عبدالعزیزبن عبداللہ بن باز
چیئرمین
ادارات بحوث علمیہ وافتاءودعوۃوارشاد،
سعودی عرب وچیئرمین
تاسیسی کونسل رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ