ایک آدمی فوت ہوااوراس نےیہ وصیت کی کہ اس کےایک گھرکی آمدنی سےاس کی طرف سےہرسال قربانی اورحج کیا جائے اوراگرہرسال ممکن نہ ہوتودوسرےسال کرلیا جائےاوراگرآمدنی قربانی اورحج کے خراجات سے زیادہ ہوتواسے نیکی کے دوسرے کاموں پر خرچ کردیا جائے۔سوال یہ ہے کہ کیا صیت کےمطابق حج کرنا لازم ہے؟حج کرنے والے توبہت لیکن دل مطمئن نہیں ہوتا کہ اس نے صحیح حج کیا ہے یا مادی منفعت کے حصول کے لے ،لہذا کیا یہ افضل نہیں ہے کہ اس مال کو حج کی بجائے دیگر نیک کاموں مثلا مسجدوں کے بنانے وغیرہ کے لئے صرف کردیا جائے؟
واجب یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کی وصیت کے مطابق ہی عمل کیا جائےاورپھر حج بھی تقرب الہی کے حصول کا ایک ذریعہ ہے لہذا وکیل کو چاہئے کہ وہ کوشش کرکے ایسے آدمی کو حج پر بھیجے جوبظاہر نیک اورمتقی معلوم ہوتا ہواوراس کا مقصد حصول مال نہ ہو بلکہ وہ تقرب الہی کے حصول کے لئے حج کرنا چاہتا ہو،دلوں کے بھید اللہ تعالی ہی جانتا ہے اوروہ انہی کے مطابق بدلہ دے گا۔