جوشخص فرض حج اداکرچکا ہو اوروہ دوسری باربھی کرسکتا ہوتواس کے لئے کیا یہ جائز ہے کہ دوسری بارحج کرنے کے بجائے حج پر خرچ ہونے والی رقم افغانستان کے مسلمان مجاہدین کو دے دے کیونکہ دوسری بارحج کرنا نفل ہے جب کہ جہاد کے لئے خرچ کرنا فرض ہے ،براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔۔
جزاكم الله عن المسلمين خير الجزاءجوشخص فرض حج اداکرچکا ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ حج پر خرچ ہونے والی رقم اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو دےدے۔مثلا افغان مجاہدین یا افغانستان کے وہ مہاجرین جو پاکستان میں پناہ گزیں ہیں کیونکہ نبی کریمﷺسے پوچھا گیا تھا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟توآپؐ نے فرمایا‘‘اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لانا۔’’سائل نے پوچھا کے اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے ؟توآپؐ نے فرمایا‘‘جہاد فی سبیل اللہ ’’سائل نے پوچھا کے پھراس کے بعد؟تو آپؐ نے فرمایا‘‘حج مبرور’’ (متفق علیہ) تواس حدیث میں آپؐ نے حج کو جہاد کے بعد ذکر فرمایااورجہاد یہاں حج سےمراد نفلی حج ہے کیونکہ فرض حج تواسلام کا رکن ہے جب کہ اس کی استطاعت ہو اور صحیحین میں ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ‘‘جس نے کسی غازی کو تیا رکیا اس نے بھی جہاد کیا اورجس نے خیرو بھلائی کے ساتھ اس کے اہل خانہ کا خیال رکھا تواس نے بھی جہاد کیا۔’’بلاشک وشبہ افغان مجاہدین اوران جیسے دیگر مجاہدین فی سبیل اللہ اپنے بھائیوں کی طرف سے مادی امدادکے شدید محتاج ہیں اورمذکورہ بالا دونوں احادیث کے پیش نظر مجاہدین پر خرچ کرنا نفل حج پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔وباللہ التوفیق!