سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(180) رمضان کے صیام وقیام کی فضیلت

  • 7545
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1895

سوال

(180) رمضان کے صیام وقیام کی فضیلت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان کے صیام وقیام کی فضیلت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمضان کے صیام وقیام کی فضیلت

عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازکی طرف سےہراس مسلمان کےنام جومیری اس تحریرکودیکھے!اللہ تعالیٰ مجھےاورتمام مسلمانوں کواہل ایمان کےراستےپرچانےکی توفیق عطافرمائےاورمجھےاورانہیں قرآن وسنت کےاحکام کوسمجھنےکی توفیق سےنوازے۔آمین!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

امابعد:یہ ایک مختصر سی نصیحت ہےجس کاتعلق رمضان کےصیام وقیام اوراس مہینہ میں اعمال صالحہ میں سبقت کی فضیلت سےہےاس کےساتھ ساتھ کچھ ضروری احکام ومسائل بھی بیان کئےجائیں گےجن سےبعض لوگ ناواقف ہوتےہیں۔حدیث سےثابت ہےکہ رسول اللہﷺصحابہ کرامؓ کورمضان کی آمدکی خوشخبری سنایاکرتےاورفرمایاکرتےتھےکہ یہ ایک ایسامبارک مہینہ ہےجس میں رحمت کےدروازےاورجنت کےدروازےکھول دیئےجاتےہیں،جہنم کےدروازےبندکردیئےجاتےہیں اورشیطانوں کوبیڑیاں پہنادی جاتی ہیں،نبیﷺیہ بھی ارشادفرمایاکرتےتھےکہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہےتوجنت کے (سارے) دروازےکھول دیئےجاتےہیں اوران میں سےکسی دروازہ کوبھی بندنہیں رہنےدیاجاتااورجہنم کے (سارے) دروازےبندکردیئےجاتےہیں اوران میں سےکسی دروازہ کوبھی کھلانہیں رہنےدیاجاتا۔شیطانوں کوپابندزنجیر وسلاسل کردیاجاتاہےاورایک منادی کرنےوالایہ اعلان کرتاہےکہ اےنیکی کےطالب!آگےبڑھ اوراےبرائی کےطالب! (اب تو) رک جا۔اللہ تعالیٰ جہنم سےلوگوں کورہائی عطافرماتاہےاوریہ سلسلہ ہررات جاری رہتاہے۔

نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام ارشادفرماتےہیں:‘‘تمہارےپاس رمضان کامہینہ آیاہےجوبرکت کامہینہ ہے،اس مہینےمیں اللہ تعالیٰ تمہیں (اپنی رحمت سے) ڈھانپ لیتاہے،وہ اپنی رحمت نازل فرماتاہے،گناہوں کومٹادیتاہےاوردعاکوشرف قبولیت سےنوازتاہے،اللہ تعالیٰ دیکھناچاہتاہےکہ تم میں نیکی کاکس قدرجذبہ اورشوق ہے،وہ تمہاری وجہ سےفرشتوں کےسامنےفخرکرتاہےلہٰذاتم بھی اپنی طرف سےاللہ تعالیٰ کودکھادوکہ تم نیکی کےعلمبردارہواوریادرکھووہ شخص انتہائی بدبخت ہےجواس ماہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سےمحروم رہا۔’’

آپﷺکایہ بھی ارشادگرامی ہےکہ‘‘جوشخص ایمان اورحصول ثواب کی نیت سےرمضان کےروزےرکھےگاتواللہ تعالیٰ اسکےسابقہ تمام گناہ معاف فرمادےگااورجوایمان اورحصول ثواب کی نیت سےرمضان میں قیام کرےگاتواللہ تعالیٰ اس کےبھی سابقہ تمام گناہ معاف فرمادےگااورجولیلۃ القدرکاقیام ایمان اورحصل ثواب کی نیت سےکرےگااللہ تعالیٰ اس کےبھی تمام گناہ معاف فرمادےگا۔’’

نبیﷺمزیدارشادفرماتےہیں کہ اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے: ‘‘ابن آدم کاہرعمل اس کےلئےہےسوائےروزےکےاورروزہ میرےلئےہےاورمیں ہی اس کی جزاعطاکروں گا۔اس نےاپنےجنسی جذبہ اورکھانےپینےکومیری وجہ سےترک کیا،روزےدارکےلئےدوخوشیاں ہیں ایک خوشی اکطاری کےوقت اوردوسری اپنےرب کےدیدارکےوقت!روزےدارکےمنہ کی بواللہ تعالیٰ کےہاں کستوری کی مہک سےبھی زیادہ پاکیزہ ہے۔’’

روزےکی فضیلت خصوصارمضان کےروزےاورقیام کی فضیلت کےبارےمیں بہت سی احادیث ہیں لہٰذاہرمومن کوچاہئےکہ وہ اس فرصت کوغنیمت جانےکہ اللہ تعالیٰ نےاسےزندگی میں ایک بارپھررمضان سےمستفیدہونےکاموقعہ عطافرمایاہے:لہٰذااسےچاہئےکہ نیکیوں میں سرگرم عمل ہو،برائیوں سےاجتناب کرےاورفرائض خصوصانمازپنجگانہ کےاداکرنےمیں خوب محنت اورکوشش سےکام لےکہ نمازتواسلام کی عمارت کاستون اورشہادتیں کےبعدسب سےبڑافرض ہےلہٰذاہرمسلمان مردوعورت پرواجب ہےکہ وہ نمازکی حفاظت کرےاورنمازکواس کےوقت پرنہایت خشوع وخضوع اوراطمینان وسکون کےساتھ اداکرے۔

مَردون کےلئےنمازکےوجوب کےاعتبارسےاہم بات یہ ہےکہ وہ مسجدمیں باجماعت نمازاداکریں جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ﴾ (البقرۃ۴۳/۲)

‘‘اورنمازقائم کرواورزکوٰۃدیاکرواور (اللہ کےسامنے) جھکنےوالوں کےساتھ جھکاکرو۔’’

اورفرمایا:

﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴾ (البقرۃ۲۳۸/۲)

‘‘ (مسلمانو!) سب نمازیں خصوصادرمیانی نماز (یعنی نمازعصر) پورےالتزام کےساتھ اداکرتےرہواوراللہ کےسامنےادب سےکھڑےرہاکرو۔’’

نیزفرمایا:

﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِ‌ضُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ﴿٤﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُ‌وجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ‌ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَ‌اءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ﴿٧﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَ‌اعُونَ ﴿٨﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ﴿٩﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِ‌ثُونَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يَرِ‌ثُونَ الْفِرْ‌دَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (المؤمنون۲۳/۱۔۱۱)

‘‘تحقیق ایمان والےکامیاب ہوگئے،جونمازمیں عجزونیازکرتےہیں۔۔۔اورجونمازوں کی پابندی کرتےہیں،یہی لوگ میراث حاصل کرنےوالےہیں (یعنی) جوبہشت کی میراث حاصل کریں گے (اور) اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔’’

اورنبی کریمﷺنرفرمایاہےکہ ہمارےاوران کے (کفارکے) مابین جوعہدہے،وہ نمازہے،جواسےترک کردےوہ کافرہے۔

نمازکےبعداہم فرض زکوٰۃاداکرناہےجیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کوحکم تویہی ہواتھاکہ اخلاص عمل کےساتھ اللہ کی عبادت کریں، (یکسوہوکر) نمازپڑھیں زکوٰۃدیں اوریہی سچا (ٹھیک اوردرست) دین ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ﴾ (النور۵۶/۲۴)

‘‘اورنمازکی پابندی کرواورزکوٰۃاداکرواور (اللہ کے) پیغمبرﷺکےفرمان پرچلتےرہوتاکہ تم پررحمت کی جائے۔’’

اللہ عظیم کی کتاب سے اوررسول کریمﷺکی سنت سے یہ ثابت ہے کہ جوشخص اپنے مال کی زکوۃ ادانہ کرے،اسےقیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔

نمازاورزکوۃ کے بعد اہم فرض رمضان کے روزے ہیں۔رمضان کاروزہ بھی السلام کے ان ارکان خمسہ میں سے ایک رکن ہے جن کا نبی اکرمﷺکی اس حدیث میں ذکرہے کہ ‘‘اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پرقائم کی گئی ہے ۔ (۱) اس کی گواہی دینا کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمدﷺاللہ کےرسول ہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃاداکرنا (۴) رمضان کےروزےرکھنااور (۵) بیت اللہ کا حج کرنا۔’’

مسلمانوں پرواجب ہے کہ وہ اپنے صیام وقیام کو ان اقوال واعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالی نے اس کے لئے حرام قراردےرکھا ہے کیونکہ روزہ سے اصل مقصود اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت وبندگی ،اس کی ‘‘حرمات’’کی تعظیم اورنفس کے خلاف جہاد کرکے اسے اپنی خواہش کی راہ سے ہٹا کر اپنے آقاومولی کی اطاعت وبندگی کی راہ پر لگانا اوراس کے حرام کردہ امور سےبچاکرصبر کا عادی بنانا ہے ،روزہ سے صرف یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانے ،پینے اوردیگر نفسانی تقاضوں پر پابندی عائد کردی جائے اسی وجہ سے صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘روزہ ایک ڈھال ہے لہذا جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تووہ بے ہودہ گفتگونہ کرے ۔۔۔۔اگر اسے کوئی گالی گلوچ دے یا لڑائی جھگڑے پر اتر آئے تواس سے کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔’’اسی طرح ایک اورصحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ‘‘جوشخص جھوٹی بات اورجھوٹ کے مطابق عمل کوترک نہ کرے تواللہ تعالی کو اس بات کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے کھانے اورپینے کوترک کرے ۔’’

ان مذکورہ بالا اوردیگر نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے ہ روزے دارپر یہ واجب ہے کہ وہ ہراس چیز سے اجتناب کرے ،جسے اللہ تعالی نے اس کے لئے حرام قراردیا ہے اورہر اس چیز کو بجالائے جسے اس کے رب نے اس پر واجب قراردیا ہے ،اسی صورت میں مغفرت ،جہنم سےآزادی اورروزہ وقیام کے قبولیت کی امید کی جاسکتی ہے۔

روزہ کے حوالہ سے بعض مسائل ہیں جو کچھ لوگوں کو معلوم نہیں لہذا انہیں یہاں بیان کیا جاتا ہے ،ان میں سے ایک مسئلہ تویہ ہے کہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزے ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے رکھے ،ریا کاری ،دکھاوے اورلوگوں کی تقلید کی وجہ سے نہ رکھے اورنہ اس لئے رکھے کہ چونکہ اس کے گھر والے اوراس کے شہر والے روزےرکھ رہے ہیں لہذا وہ بھی رکھ رہا ہے بلکہ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ روزہ اس عقیدہ اوریقین کے ساتھ رکھے کہ اللہ تعالی نے اس پر روزہ فرض قراردیا ہے اوروہ اس فرض کو اداکرکے اپنے رب سے اس کا اجر حاصل کرنا چاہتا ہے ،اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ وہ رمضان کی راتوں کا قیام بھی ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے کرے،قیام رمضان بھی کسی اورسبب سے نہ کرے ،یہی وجہ ہے کہ

نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایاکہ ‘‘جس نے ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے ،اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اورجس نے ایمان اورحصول ثواب کی نیت سے رمضان کاقیام کیا اس کے بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اورجس نے لیلۃ القدرکا قیام ایمان اورحصول ثواب کی نیت سےکیا اس کے بھی سابقہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں’’

جن امور کا حکم بعض لوگوں سے مخفی ہوتا ہے ،ان میں سے کچھ اس طرح کے امور بھی ہیں کہ اگرروزے دارکو کوئی زخم لگ جائے یا نکسیر پھوت پڑے یا قے آجائے یا پانی یا تھوک غیر اختیاری اورغیر ارادی طورپر اس کے گلے تک پہنچ جائے توکیا ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟یا رہے ان میں سے کسی امر سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتاہاں البتہ اگرکوئی شخص جان بوجھ کر قے کرے تواس سے روزہ فاسد ہوجائے گاکیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایاہے کہ‘‘جسے غیر اختیاری طورپر قے آجائے اس پر قضا نہیں لیکن جو شخص قصد وارادہ سے قے کرے تو اس پر قضا لازم ہے۔’’

روزے دار اگر طلوع فجر تک غسل جنابت نہ کرسکے یا عورت طلوع فجر سے قبل حیض ونفاس سے پاک توہوجائے مگرطلوع فجر تک غسل نہ کرسکے توان صورتوں میں روزہ لازم ہوگا ،طلوع فجر کے بعد غسل کرنا روزے سے مانع نہیں ہوگالیکن غسل کو اس قدر مئوخر نہیں کرنا چاہئے کہ سورج طلوع ہوجائے بلکہ عورت کے لئے واجب یہ ہے کہ وہ طلوع آفتاب سے پہلے غسل کرکے نماز فجر اداکرے ،اسی طرح جنبی کو بھی چاہئے کہ وہ غسل کو اس قدر مئوخر نہ کرے کہ سورج طلوع ہوجائے بلکہ واجب ہے کہ غسل کر کے طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر اداکرے اوراگر جنبی مردہوتواسے غسل جنابت میں اوربھی زیادہ جلدی کرنی چاہئے تاکہ وہ نماز فجر باجماعت اداکرسکے۔

جن امور سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ،ان میں سے کیمیائی تجزیہ کے لئے خون کا قطرہ نکالنا اورایسا انجکشن لینا بھی ہے ،جو غذائی مقصد کے لئے نہ ہو لیکن افضل اورمحتاط بات یہ ہے کہ اگر ممکن ہوتو اس طرح کے کاموں کو رات تک موخر کردیاجائے کیونکہ نبی کریمﷺکا فرمان ہے کہ ‘‘اس کام کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اوراس کو اختیار کرلو جس میں شک نہ ہو۔’’نیز نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی فرمان ہے کہ ‘‘جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین وعزت کو محفوظ کرلیا۔’’

وہ امورجن کاحکم بعض لوگوں کو واضح طور پر معلوم نہیں ان میں سے ایک نماز میں عدم اطمینان بھی ہے ،نماز خواہ فرض ہو یا نفل،رسول اللہﷺکی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اطمینان وسکون سے نما ز پڑھنا ،نماز کے ان ارکان میں سے ہے ،جن کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی ،اطمینان وسکون کے معنی یہ ہیں کہ نماز اس طرح خشوع وخضوع اورجلد بازی کا مظاہر ہ کئے بغیر اداکی جائے کہ ہرہر جوڑ اپنی جگہ واپس آجائے ،رمضان میں بہت سے لوگ نماز تراویح اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نہ تو نماز میں پڑھے جانے والے قرآن کو سمجھتے ہیں اورنہ نماز ہی کو اطمینان سے اداکرتے ہیں بلکہ نماز میں ٹھونگےمارتے ہیں حالانکہ ا س طرح پڑھی جانے والی نماز باطل ہے اورپڑھنے والا گناہگاراوراجروثواب سے محروم ہے!

وہ امورجن کاحکم بعض لوگوں سے مخفی ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائز نہیں نماز تراویح کی بیس سے کم رکعتیں پڑھی جائیں جب کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ نماز تراویح کی گیارہ یا تیرہ سے زیادہ رکعات پڑھی جائیں ،یہ دونوں باتیں ہی درست نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ موقف غلط اوردلائل کے مخالف ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺکی صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رات کی نماز میں بڑی وسعت ہے ،اس میں کوئی حد بندی نہیں ہے کہ اس کی خلاف ورزی جائز ہی نہ ہو ،چنانچہ رسول اللہﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپ ؐ رات کی نماز کی گیارہ رکعتیں اورکبھی تیرہ اورکبھی رمضان و غیر رمضان میں آپؐ نے اس سے کم بھی پڑھی ہیں اورجب آپؐ سے رات کی نماز کے بارے میں سوال گیا گیا توآپؐ نے فرمایا‘‘رات کی دودورکعت ہے اورجب کسی کو یہ ڈر ہوکہ صبح ہونے والی ہے ،تووہ ایک رکعت پڑھ لے ،اس سے اس کی ساری پڑھی ہوئی نماز وتر ہوجائے گی۔’’ (متفق علیہ)

نبی کریمﷺنے رمضان و غیر رمضان میں رات کی نماز کی رکعات کو معین نہیں فرمایا یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں کبھی تیئس اورکبھی گیارہ رکعات پڑھیں اوریہ سب کچھ حضرت عمررضی اللہ عنہ اورآپ کے عہد میں حضرات صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہے۔

بعض سلف کا رمضان میں معمول یہ تھا کہ وہ چھتیس رکعتیں پڑھتے اورپھر تین وتر پڑھتے اور بعض سے اکتالیس رکعتیں پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دیگر اہل علم نے ذکر فرمایا ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں بہت گنجائش ہے نیز انہوں نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ افضل یہ ہے کہ جوشخص لمبی قرات کرے اور لمبے لمبے رکوع اورسجدے کرے تو وہ رکعات کی تعدادکم کرے اور جس شخص کی قرات اوررکوع وسجود چھوٹے ہوں ،وہ رکعتا کی تعداد میں اضافہ کرے۔جو شخص اس مسئلہ میں نبی کریمﷺکی سنت پر غور کرے گا تواسے معلوم ہوگا کہ افضل یہ ہے کہ رمضان و غیر رمضان میں رات کی نمازگیارہ یا تیرہ رکعتیں پڑھی جائیں کیونکہ نبی کریمﷺکا اکثروبیشتر حالات میں یہی معمول ہواکرتا تھا ،نمازیوں کے لئے بھی اسی میں سہولت ہے ،اس طرح خشوع وخضوع اور

اطمینا ن وسکون بھی زیادہ ہوسکتا ہے ہاں البتہ اگر کوئی شخص اس سے زیادہ پڑھ لے توپھر بھی کوئی حرج اورکراہت نہیں ہے جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے۔

جو شخص امام کے ساتھ قیام رمضان کررہا ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ امام کے ساتھ قیا م میں مکمل شرکت کرے کیونکہ نبی کریمﷺکا ارشادہے کہ ‘‘آدمی جب امام کے ساتھ آخر تک قیام کرتا ہے ،تواللہ تعالی اس کے لئے ایک رات کے قیام کا ثواب لکھ دیتا ہے۔’’

تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس مبارک مہینے میں تمام عبادتوں کے جالانے میں خوب محنت اورشوق سے حصہ لیں،زیادہ سے زیادہ نفل نماز اداکریں،غوروتدبر کے ساتھ قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں،زیادہ سے زیادہ تسبیح وتہلیل ،تحمید وتکبیر اوراستغفارپڑھیں ،خوب خوب دعائیں کریں،نیکی کا حکم دیں،برائی سے منع کریں،دعوت الی اللہ کا زیادہ سے زیادہ کام کریں،فقیروں اورمسکینوں کی مددکریں،والدین کے ساتھ حسن سلوک ،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی،پڑوسیوں کی عزت افزائی ،بیماروں کی بیماپرسی اوراسی طرح نیکی کے دیگر کاموں میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ نبی ﷺکی یہ حدیث ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں‘‘اللہ تعالی دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں نیکی کا کس قدر جزبہ اورشوق ہے،وہ تمہاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے لہذا یاد رکھو کہ وہ شخص انتہائی بدبخت ہے جو اس ماہ میں بھی اللہ تعالی کی رحمت سے محروم رہا۔’’

نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ بھی روایت ہے کہ ‘‘جو شخص ا س ماہ کی (نفلی) نیکی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے،وہ اس طرح ہے جیسے دوسرے مہینوں میں اس نے فرض اداکیا اورجس نے اس مہینے میں فرض اداکیا وہ ایسے ہے جیسے اس نے دوسرے مہینوں میں فرائض اداکئے ہوں۔’’نبی علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرمان بھی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے ۔یا آپ ؐ نے یہ فرمایا کہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

بہت سی احادیث وآثار ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ا س مبارک مہینے میں تمام انواع اقسام کے نیک کاموں میں رغبت اورشوق کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اورسب مسلمانوں کو ہر وہ کام کرنے کی توفیق عطافرمائے جو اس کی رضا کے مطابق ہو،ہمارے صیام وقیام کو شرف قبولیت سے نوازے ،ہمارےحالات کو درست فرمادے،ہم سب کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ رکھے ،ہم اللہ سبحانہ وتعالی سے یہ بھی دعاکرتے ہیں کہ وہ مسلمان قائدین کو اصلاح کی توفیق عطافرمائے،انہیں حق ہونے کی توفیق بخشے کہ وہی قادروکارساز ہے۔

والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته ۔

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 277

محدث فتویٰ

تبصرے