پبلک پارکوں میں نماز پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے کیونکہ انہیں ایسے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جس سے بدبواٹھ رہی ہوتی ہے ؟مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی یا تو گٹروں کا صاف شدہ پانی ہوتا ہے یا ایسے کنووں کا جن میں ناپاک سیورج کا پانی مل جاتا ہے ۔کیا محکمہ کی طرف سے لوگوں کو ان پارکوں میں نماز اداکرنے سے منع کیا جاسکتا ہے؟امید ہے آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرما کر شکریہ کا موقع بخشیں گے۔
جب تک ان پارکوں سے بدبوآتی رہے ان میں نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز کے صحیح ہونے کی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جگہ بھی پاک ہو جہاں مسلمان نماز پڑھ رہا ہو،لہذا اگراس جگہ کوئی پاک صا ف کپڑا بچھا کراس پر نمازپڑھ لی جائے تونماز صحیح ہوگی لیکن کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ پارکوں میں نماز پڑھے ،خواہ اس نے پاک صاف کپڑا ہی کیوں نہ بچھالیا ہوکیونکہ کہ اس کے لئے واجب یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کراللہ تعالی کے ان گھروں یعنی مسجدوں میں نماز اداکرے جن کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایاہے:
﴿فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴿٣٦﴾ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ﴿٣٧﴾ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (النور۲۴/۳۶۔۳۸)
‘‘ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے کہ بلند کئے جائیں اوران میں اللہ کا نام ذکر کیا جائے،وہاں صبح شام اللہ تعالی کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں،ایسے لوگ جنہیں تجارت اورخریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اورنمازقائم کرنے اورزکوۃ اداکرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اورآنکھیں الٹ جائیں گی۔تاکہ اللہ ان کو ان کے عملوں کا بہت اچھا (اوبہترین ) بدلہ دے اوراپنے فضل سے زیادہ بھی عطاکرےاوراللہ جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔’’
اورنبی اکرمﷺکا ارشاد ہےکہ ‘‘جوشخص اذان کی آواز سنے اورپھر مسجد میں نماز
کے لئے نہ آئے تواس کی نہیں ہوتی الایہ کہ اس کے پاس کوئی (شرعی) عذرہو۔’’اس حدیث کو ابن ماجہ ،دارقطنی،ابن حبان اورحاکم نے روایت کیااوراس کی سند مسلم شرط کے مطابق ہے۔
نبیﷺسے ایک نابینا شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ‘‘یا رسول اللہ !میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جایا کرے توکیا میرے لئے گھر میں نماز اداکرنے کی رخصت ہے؟’’نبی کریمﷺنے اس سے دریافت کیا‘‘کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟’’اس نے عرض کیا ‘‘جی ہاں’’تو آپﷺنے فرمایا‘‘پھر اس آواز پر لبیک کہو۔’’اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے اوراس مضمون کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں۔
محکمہ امربالمعروف ونہی عن المنکرپر واجب ہےکہ وہ لوگوں کو باغوں اورپارکوں میں نماز پڑھنے سے روکے اورمسجدوں میں نماز اداکرنے کا حکم دے تاکہ اللہ تعالی کے حسب ذیل ارشادگرامی:
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ﴾ (المائدہ۵/۲)
‘‘نیکی اورپرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مددکیا کرو۔’’
اورفرمان باری تعالی:
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ﴾ (التوبۃ۹/۷۱)
‘‘اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کےممد ومعاون اوردوست ہیں ۔وہ اچھے کاموں (بھلائیوں) کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سےمنع کرتے ہیں۔’’
اورنبی کریم ﷺکے حسب ذیل فرمان پر عمل ہوسکے کہ ‘‘تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے،اگراس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے (سمجھادے) اوراگراس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنے دل سے (اسے براسمجھے) اوریہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔’’ (صحیح مسلم)