سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(132) جوشخص پیاز،لہسن یا گندناکھائےوہ تین دن تک ہماری مساجد کے قریب نہ آئے

  • 7497
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1660

سوال

(132) جوشخص پیاز،لہسن یا گندناکھائےوہ تین دن تک ہماری مساجد کے قریب نہ آئے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺنےیہ فرمایا ہےکہ‘‘جوشخص پیاز،لہسن یا گندناکھائےوہ تین دن تک ہماری مساجد کے قریب نہ آئےکیونکہ فرشتے بھی اس چیز سےتکلیف محسوس کرتے ہیں،جس سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔’’ 

اوكماقال عليه الصلوة والسلام۔کیااس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ جس نے ان مذکورہ اشیاء میں سے کوئی چیز کھائی ہو تو وہ مذکورہ مدت تک کسی مسجد میں نہ آئےیا اس کے معنی یہ ہیں کہ جس کے لئے نماز باجماعت لازم ہو اس کے لئے ان چیزوں کا کھانا جائز نہیں ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث اوراس کےہم معنی دیگر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسلمان کےلئے یہ مکروہ ہے کہ وہ ایسی حالت میں نماز باجماعت کے لئے آئے کہ اس سے ایسی بوآرہی ہو جواس کے گرد پیش کے نمازیوں کے لئے تکلیف دہ ہو خواہ یہ بو پیاز،لہسن اورگندنا وغیرہ کھانے کی وجہ سے ہو یا کسی اوربدبودارچیز کے استعمال کی وجہ سے مثلا سگریٹ وغیرہ کی وجہ سے حتی کہ یہ بدبوزائل ہوجائے ۔یادرہے حقہ سگریٹ نوشی (اوربیڑی ونسوار) وغیرہ بدبوکے علاوہ بہت سے دیگر نقصانات اورمعلوم ومعروف خباثت کی وجہ سے حرام ہے اوراللہ تعالی کے اس ارشادپاک میں داخل ہے،جواس نے سورہ اعراف میں اپنے نبی کریمﷺکے بارے میں ذکر فرمایا ہے کہ:

﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾ (الاعراف۷/۱۵۷)

‘‘اورپاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتے ہیں اورناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں۔’’

نیز اس پر سورہ المائدہ کی حسب ذیل آیت کریمہ بھی دلالت کرتی ہے:

﴿يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ﴾ (المائدہ۵/۴)

‘‘ (اے پیغمبر!) آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دیجئے کہ سب پاکیزہ چیزیں تمہارے لئے حلال ہیں۔’’

اوریہ سبھی جانتے ہیں کہ حقہ وسگریٹ نوشی پاک چیزوں میں سے نہیں ،تومعلوم ہو اکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے،جنہیں امت کے لئے حرام قراردیاگیا ہے۔۔۔۔۔تین دن کی مدت کی تعیین کے لئے کوئی دلیل مجھے معلوم نہیں۔ ( ( واللہ ولی التوفیق) )

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 243

محدث فتویٰ

تبصرے