سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) ممنوع اوقات میں تحیتہ المسجد

  • 7457
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 777

سوال

(92) ممنوع اوقات میں تحیتہ المسجد
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تحیتہ المسجدکے بارے میں ہماری کافی گفتگوہوئی ہے کچھ لوگوں کو کہنا تھا کہ ممنوع اوقات مثلا طلوع وغروب آفتاب کے وقت اسے نہیں پڑھنا چاہئے جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ یہ نماز ان نمازوں میں سے ہے جنہیں مخصوص اسباب کی وجہ سے اداکیا جاتا ہے لہذا اسے ہروقت اداکیا جاسکتا ہے خواہ سورج کا آدھا حصہ غروب ہوگیا ہواورآدھا باقی ہوتواس وقت بھی اداکیا جاسکتا ہے،امید ہے آپ اس مسئلہ کے بارے میں تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں گے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اگرچہ اہل علم کا اختلا ف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ تحیتہ المسجد ہروقت حتی کہ نماز فجر اورنماز عصر کے بعد بھی جائز ہے کیونکہ نبی کریمﷺکے اس ارشادگرامی کے عموم کا یہی تقاضا ہے کہ‘‘تم میں سے کوئی جب بھی مسجد میں آئےتووہ دورکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔’’ (متفق علیہ)

علاوہ ازیں یہ نماز ان مخصوص اسباب والی نمازوں میں سے ہے جنہیں ہر وقت اداکیا جاسکتا ہےمثلا نماز طواف اورنماز کسوف وغیرہ جنہیں فوت شدہ فرض نمازوں کی طرح ہر وقت اداکیا جاسکتا ہے ۔نماز طواف کے بارے میں نبی کریمﷺکا ارشاد ہے‘‘اے بنی عبدمناف!کسی کو بھی منع نہ کرو کہ وہ رات یا دن کی جس گھڑی میں بھی چاہے اس گھر (بیت اللہ) کا طواف کرے اورنماز پڑھے۔’’

اس حدیث کو امام احمد اوراصحاب سنن نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔اسی طرح نماز کسوف کے بارے میں نبی کریم ﷺکا ارشادگرامی ہے کہ‘‘سورج اورچاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں کسی کی موت وحیات کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا لہذا جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھو اوردعا کرو حتی کہ گرہن ختم ہوجائے۔’’

 (متفق علیہ)

اسی طرح نبی کریم ﷺکا ارشادگرامی ہے کہ‘‘جو شخص نماز سے سوجائے یا اسے بھول جائے تو اسے چاہئے کہ اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے،بس اس کا یہی کفارہ ہے۔’’ ان احادیث کے عموم کا تقاضا ہے کہ ان نمازوں کو ممانعت وغیرہ کے تمام اوقات میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اوران کے شاگرد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو پسند فرمایا ہے۔واللہ ولی التوفیق!

 

فتاویٰ ابن باز

تبصرے