سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(91) خطبہ کے دوران تحیتہ المسجد

  • 7456
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 927

سوال

(91) خطبہ کے دوران تحیتہ المسجد
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بعض نمازی بھائیوں کے ساتھ جمہوریہ سوڈان کی مسجد ریفی مروی میں اس موضو ع پر گفتگو ہوئی کہ جب امام خطبہ دے رہا ہوتوکیا اس وقت مسجدمیں آنے والادورکعتیں پڑھے یانہ پڑھے ،چنانچہ سماحۃ الشیخ سے اس مسئلہ میں فتوی مطلوب ہے یادرہے اس قدیمی مسجد کے نمازی بھائیوں کا تعلق امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب سے ہےیعنی وہ مالکی ہیں!؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے والا ہر شخص تحیتہ المسجدکی دورکعتیں ضرورپڑھے خواہ امام خطبہ دے رہا ہو کیونکہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے کہ:

 ( (اذا دخل احدكم المسجد فلا يجلس حتي يصلي ركعتين) )

‘‘جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دورکعتیں نہ پڑھ لے۔’’

اسے امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہمانے صحیحین میں ذکر کیا ہے نیز امام مسلم

رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:

 ( (اذا جآء احدكم يوم الجمعة والامام يخطب فليصل ركعتين ولكتجوز فيهما) )

‘‘جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اس وقت آئے ،جب امام خطبہ دے رہا ہوتووہ دورکعتیں پڑھ لے اوران میں اختصار سے کام لے۔’’

یہ حدیث اس مسئلہ میں نص صریح ہے لہذا کسی کے لئے اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خطبہ کے وقت ان دورکعتوں سے اس لئے منع کیا ہے کہ شاید آپ کو یہ سنت نہ پہنچی ہو اورجب رسول اللہﷺکی یہ سنت صحیح سند سے ثابت ہے توکسی کے قول کی وجہ سے خواہ وہ کوئی بھی ہو اس کی مخالفت کرناجائز نہیں ہے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۵۹/۴)

‘‘مومنو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماں برداری کرو اورجو تم میں سے صاحب حکومت ہیں،ان کی بھی اوراگرکسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تواگراللہ اورروزآخرت پرایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اوراس کے رسول (ﷺ) (کے حکم) کی طرف رجوع کرو،یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کا مآل (انجام) بھی اچھا ہے۔’’

نیزفرمایا:

﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾ (الشوری۴۲/۱۰)

‘‘اورتم جس بات میں اختلاف کرتے ہواس کا فیصلہ اللہ کی طر ف (سے ہوگا) ’’

اوریہ بات معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺکا حکم ،اللہ عزوجل کے حکم ہی کی بنیا دپر ہوتا ہےکیونکہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾ (النساء۴/۸۰)

‘‘جوشخص رسول (ﷺ) کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی۔’’

 

فتاویٰ ابن باز

تبصرے