سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) رمی جمرات کا وقت

  • 7401
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2971

سوال

(71) رمی جمرات کا وقت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمرات كی رمی كا وقت كيا ہے۔؟ دن يا رات يا پهر۲۴گهنٹے۔؟ آجکل رش کی وجہ سے ۲۴گهنٹے کنکریاں ماری جاتی ہیں، کیا یہ سنت کے خلاف ہے،یا ایساکرنا جائزہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت عید کا دن ہے۔ اہل قدرت ونشاط کے لیے یہ وقت عید کے دن کے طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے جب کہ کمزوروں اور بھیڑ کا مقابلہ نہ کر سکنے والے بچوں اور عورتوں کے لیے یہ وقت عید کی رات کے آخری حصے سے شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ عید کی رات چاند کے غروب ہونے کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ جب چاند غروب ہو جاتا تو وہ مزدلفہ سے منیٰ آجاتیں اور جمرہ کو رمی کرتیں، اس کا آخری وقت عید کے دن غروب آفتاب تک ہے اگر ہجوم بہت زیادہ ہو یا انسان جمرات سے دور ہو اور وہ رمی کو رات تک مؤخر کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں، البتہ وہ گیارہویں تاریخ کی طلوع فجر تک اسے مؤخر نہ کرے۔ ایام تشریق یعنی گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کو رمی جمار کا وقت زوال آفتاب یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے سے لے کر نصف رات تک ہے۔ اگر مشقت یا ہجوم ہو تو پھر رات کو طلوع فجر تک رمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کو زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی اور آپ نے لوگوں سے فرمایا تھا:

«ٔخُذُوا عنی مَنَاسِکَکُمْ» صحيح البخاری، العلم، باب الفتيا وهو واقف علی الدابة وغيرها، ح: ۸۳، وصحيح مسلم، الحج، باب استحباب رمی جمرة العقبة يوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ له۔

’’تم اپنے مناسک حج مجھ سیکھو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال آفتاب تک رمی کو مؤخر کرنا حالانکہ وہ سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور دن کے ابتدائی حصے میں رمی نہ کرنا حالانکہ اس وقت گرمی بھی نہیں ہوتی اور آسانی بھی ہوتی ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت سے پہلے رمی کرنا حلال نہیں اور اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے وقت نماز ظہر پڑھنے سے پہلے رمی فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زوال سے پہلے رمی کرنا حلال نہیں ہے ورنہ زوال سے پہلے رمی افضل ہوتی تاکہ نماز ظہر کو اول وقت میں ادا کیا جا سکے کیونکہ نماز اپنے ا ول وقت میں ادا کرنا افضل ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ۔

ایام تشریق میں رمی کرنے کا وقت اگرچہ زوال کے بعد شروع ہوتا ہے اور رات گءے تک رہتا ہے،اور اگر رش ہو تو صبح تک رمی کی جاسکتی ہے۔لیکن موجودہ رش ، مشقت اور سابقہ سالوں میں ہونے والی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے غالبا سعودی علماء نے ۲۴ گھنٹے رمی کرنے کے جواز کا فتوی دیا ہے۔ اور یہ مقاصد شریعت کے بالکل عین موافق ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی مکیہ

تبصرے