سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) شیخ محمد علی الصابونی کا صفات باری تعالی کے بارے میں موقف

  • 7397
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2952

سوال

(67) شیخ محمد علی الصابونی کا صفات باری تعالی کے بارے میں موقف
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ محمد علی الصابونی کا صفات باری تعالی کے بارے میں موقف اوراس پر تنقید وتبصرہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ محمد علی الصابونی کا صفات باری تعالی کے بارے میں موقف اوراس پر تنقید وتبصرہ

مقدمہ:

الحمدلله وحده ، والصلوة  والسلام علي من لانبي بعده، وعلي آله وصحبه _ امابعد:

میں نے فضیلۃ الشیخ محمدعلی الصابونی کا وہ انٹر ویو دیکھا جو مجلہ ‘‘المجتمع’’شمارہ نمبر۶۱۳میں مورخہ۷/۶/۱۴۰۳ھ،کو شائع ہوانیز ان کے وہ چھ مقالات بھی دیکھے جو ‘‘المجتمع’’شمارہ نمبر۶۲۷ مورخہ۷/۹/۱۴۰۳ھ، شمارہ نمبر۶۲۸ مورخہ۲۴/۹/۱۴۰۳ھ، شمارہ نمبر۶۲۹ مورخہ۹/۱۰/۱۴۰۳ھ،شمارہ نمبر۶۳۰ مورخہ۱۶/۱۰/۱۴۰۳ھ، شمارہ نمبر۶۳۱ مورخہ۲۳/۱۰/۱۴۰۳ھ،شمارہ نمبر۶۴۶ مورخہ۱۷/۲/۱۴۰۴ھ کو شائع ہوئے تھے،یہ انٹرویو اورمقالات بہت سی غلطیوں پر مشتمل ہیں،جن میں بعض کی  جناب ڈاکٹر صالح بن فوزان الفوزان نے اپنے اس مقالہ میں نشاندہی کی ہے،جو مجلہ ‘‘الدعوۃ’’جلد نمبر۱۵شمارہ نمبر۹۰۴مورخہ ۲۹/۱۰/۱۴۰۳ھ میں شائع ہوانیز اس مقام میں یہ بھی‘‘مجلہ المجتمع’’ شمارہ نمبر۶۲۴ مورخہ ۱/۲/۱۴۰۴ھ اورشمارہ نمبر۶۵۰مورخہ ۲۴/۲/۱۴۰۴ھ میں شائع ہوا تھا،ڈاکٹر فوزان نے بہت ہی عمدہ اوراحسن انداز میں یہ مقالے لکھے ہیں،اللہ تعالی انہیں جزائے خیرسے نوازے اوران کے ساتھ حق کی مدد فرمائے ، ڈاکٹر فوزان کی تائیدوحمایت،کارخیرمیں شرکت،حق کی اشاعت اوران غلطیوں کی نشاندہی کے لئے میں بھی اس موضوع پر قلم اٹھا رہاہوں،جن کا جناب ڈاکٹر صالح نے اپنے مذکورہ دونوں مقالوں میں ذکر نہیں کیا ہے ۔واللہ الموفق۔

(۱)۔۔ائمہ اربعہ کی تقلید

شیخ صابونی ائمہ اربعہ کی تقلید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘واجبات میں سے یہ سب سے اہم واجب ہے’’بلاشک وشبہ تقلید کے بارے میں علی الاطلاق یہ موقف اختیار کرنا غلط ہے کیونکہ ائمہ اربعہ  میں سے کسی کی یا ان کے علاوہ کسی اور امام کی تقلید واجب نہیں ہے خواہ علم کے اعتبار سے وہ کیسے ہی اونچے مقام پر فائز کیوں نہ ہو کیونکہ حق تو کتاب وسنت کی اتباع میں مضمر ہے،کسی کی تقلید میں نہیں ۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ بوقت ضرورت اس شخص کی تقلید کی گنجائش ہے جوعلم وفضل اوراستقامت عقیدہ میں معروف ہو جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ‘‘اعلام الموتعین’’میں بیان فرمایا ہے،یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام رحمہم اللہ اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ ان کے کلام کو لیا جائے،سوائے اس کے جو کتاب وسنت کے موافق ہو،چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

((كل يوخذ من قوله ويرد الا صاحب هذا القبر))

‘‘اس قبر میں محواستراحت ہستی کے سوا ہرشخص کے قول کولیا بھی جاسکتا ہے اورردبھی کیا جاسکتا ہے۔’’

آپ یہ بات رسول اللہ ﷺکی قبرشریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے ،اسی طرح دیگرائمہ کرام سے بھی اس کے ہم معنی اقوال منقول ہیں۔

جس شخص کے لئے کتاب وسنت سے اخذ کرنا ممکن ہو،اس پر فرض ہے کہ وہ کسی کی تقلید نہ کرے اوربوقت اختلا ف اس قول کو لےلے جو کتاب وسنت کے زیادہ قریب ہواورجس کے لئے کتاب وسنت سے براہ راست اخذکرنا ممکن نہ ہو تو اس کے لئے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لے جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ (الانبیاء۲۱/۷)

‘‘اگرتم نہیں جانتے تواہل علم سے پوچھ لو۔’’

(۲)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے مجتہد تھے۔

شیخ صابونی لکھتے ہیں کہ ‘‘ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس قدر بلند علمی درجہ کے باوجود مرتبہ اجتہاد تک نہیں پہنچے بلکہ وہ حنبلی مذہب کے پیروکارتھےاوراکثر وبیشترحنبلی مذہب ہی کی پابندی کرتے تھے۔’’

یہ قول محل نظر بلکہ صریحا غلط ہے کیونکہ شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ توبہت بڑے مجتہد تھے،آپ میں شروط اجتہاد بدرجہ اتم موجود تھیں ،مذہب حنبلی کی طرف آپ کاانتساب آپ کودائرہ اجتہاد سے باہر نہیں نکالتاکیونکہ اس انتساب سےمقصودصرف یہ ہے کہ مذہب کے اصول وقواعدمیں آپ امام احمدؒ سے متفق ہیں ،اس سے یہ مقصود نہیں کہ آپ بلادلیل ہربات میں امام احمد کے مقلد ہیں۔ شیخ الاسلامؒ کا طرز عمل تو یہ تھا کہ جو قو ل دلیل کے زیادہ قریب ہوتا ،آپ اسے اختیار فرمالیتےتھے۔

(۳)عقیدہ کی گمراہی بہت ہے،ابوالحسن اشعری نے اپنے مذہب سے رجوع کرلیا تھا

شیخ صابونی نے ذکر کیا ہے کہ عقیدہ کی وجہ سے اختلافات بہت کم ہیں نیزلکھا ہے کہ جو لوگ اشاعرہ کے مذہب کوگمراہ کہتے ہیں،ہم ان سے یہ کہیں گے کہ فتاوی ابن تیمیہ ؒ کی طرف رجوع کرو اورابن تیمیہ ؒ نے ابوالحسن اشعری کے بارے میں جو لکھا ہے اسے پڑھو تاکہ ہمیں بھی یہ معلوم ہوجائے کہ اشعریوں کے مذہب کو گمراہ کہنے والے خود جاہل ہیں۔اس کے جواب میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ بلاشک وشبہ عقیدہ اختلاف کے سبب بہت سے فرقے گمراہ ہوئےمثلا معتزلہ،جہمیہ،رافضیہ اورقدریہ وغیرہ بلکہ اشاعرہ بھی ان عقائد  میں گمراہ ہیں جن میں انہوں نے کتاب وسنت اوراس امت کے بہترین ائمہ ہدایت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین اورائمہ مجتہدین کی مخالفت کی ہے اوراللہ تعالی کے اسماءوصفات کی جو بے جا تاویل کی ہے۔یادرہے ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ اشاعرہ میں سے نہ تھے ،اشعری اگرچہ ان کی طرف منسوب ہیں لیکن انہوں نے ان کے مذہب سے رجوع کرکے اہل سنت کے مذہب کو اختیار کرلیا تھا لہذا ائمہ نے امام ابوالحسن اشعری کی تعریف کی ہے ،اشاعرہ کے مذہب کی تعریف نہیں کی۔جوشخص اشاعرہ کے ان عقائد پر اعتراض کرتا ہے،جن میں انہوں نے اہل سنت کے عقیدہ کی مخالفت کی ہے،اس پرجہالت کا الزام لگانا صیح نہیں ہے کیونکہ جہالت کی حقیقت تویہ ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں علم کے بغیر کوئی بات کہی جائے لیکن جو شخص کتاب وسنت اورشریعت کے معتبر قواعد کی روشنی میں بات کرے،سلف امت کے راستہ پر چلے اوراللہ تعالی کے اسماء وصفات کی غلط تاویل کرنے والوں کا انکار کرے،اسے جہالت کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔

(۴)مردوں کی فوقیت

‘‘مردوں کو  شرعی امورکے مکلف ہونے کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے،یہ فوقیت شرف کی وجہ سے نہیں ہے۔’’

شیخ صابونی کی یہ بات بھی غلط ہے اورصیح بات یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر شرعی امورکے مکلف ہونے اورفضل وشر ف کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿الرِّ‌جَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ ( النساء۴/۲۴)

‘‘مردعوتوں پر حاکم ہیں،اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اوراس لئے بھی کہ مرداپنا مال خرچ کرتے ہیں۔’’

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ واضح فرمادیاہے کہ اس نے مردوں کو دوباتوں کی وجہ سے عورتوں پر فوقیت عطافرمائی ہے (۱)مردوں کی جنس کو عورتوں کی جنس پر فضیلت حاصل ہے۔(۲)مردوں کو یہ فضیلت مال خرچ کرنے کی وجہ سے حاصل ہے کہ مہر اداکرتے اوردیگر اخراجات پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

(۵)عقیدہ اہل سنت والجماعت سے منحرف لوگوں کے غلطی کے اعتبارسےکئی درجے ہیں۔

تفویض ،اہل سنت والجماعت کا عقیدہ نہیں۔شیخ صابونی مقدمہ کے بعد اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں کہ ‘‘یہ جائز نہیں کہ ہم ان ۔۔۔یعنی ‘‘اشاعرہ’’و‘‘ماتریدیہ’’۔۔۔کو ان روافض ،معتزلہ اورخوارج کی صف میں شامل کریں جو اہل سنت والجماعت سے منحرف ہوگئے تھے۔زیادہ سے زیادہ ہم ان کے بارےمیں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسماء وصفات باری کی تاویل کرنے میں ان سے غلطی ہوئی ہے۔کیونکہ زیادہ محتاط بات یہ ہے کہ صفات کے موضوع کوہم اللہ علام الغیوب کے سپرد کردیں،جس سے کوئی بات بھی مخفی نہیں ہے۔’’

اس بات کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اہل سنت کے مخالف فرقوں کے غلطی کے اعتبار سے کئی درجے ہیں،بلاشک وشبہ اشاعرہ غلطی کے اعتبار سے خوارج ،معتزلہ اورجہمیہ کی طرح نہیں ہیں لیکن ا س کےیہ معنی نہیں کہ ان سے جو غلطیاں سرزدہوئیں یا جن مسائل میں انہوں نے اہل سنت سے الگ روش اختیار کی ہے،اسے بھی بیان نہ کیا جائے بلکہ اشاعرہ وغیرہ کی غلطیوں کی نشاندہی بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح دیگر فرقوں کی غلطیوں کو بیان کیا گیا تاکہ حق کوظاہر کیا جائے ،باطل کو واضح کیا جائے،اللہ اوراس کے رسول کے احکام کو پہنچادیا جائے اوراس وعید سے بچاجاسکے جوحسب ذیل ارشادباری تعالی میں مذکور ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ﴾ (البقرۃ۲/۱۵۹/۱۶۰)

‘‘تحقیق جو لوگ ہمار ے حکموں اورہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے)چھپاتے ہیں باوجود یکہ ہم نے لوگوں کے (سمجھانے  کے )لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردیا ہے،ایسے لوگوں پر اللہ اورتمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں ہاں جو توبہ کرتے ہیں اوراپنی حالت درست کرلیتے اور(احکام الہی کو)صاف صاف بیان کردیتے ہیں تومیں ان کے قصور معاف کردیتے ہوں اورمیں بڑا معاف کرنے والا(اور)رحم والا ہوں۔’’

پھر ہم یہ بھی کہیں گے کہ زیادہ محتاط یہ بات نہیں کہ صفات کے مسئلہ کو اللہ علام الغیوب کے سپرد کردیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے صفات کو اپنے بندوں کے سامنے کھول کھول کربیان فرمادیا ہے،اپنی کتاب کریم میں اوراپنے رسول امینﷺ کی زبانی ان کی وضاحت فرمادی ہے ہاں البتہ ان کی کیفیت کو بیان نہیں فرمایا،لہذا واجب یہ ہے کہ ان کی کیفیت کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کیا  جائے نہ کہ ان کے معانی کے علم کو ۔اوریہ تفویض (اللہ کے سپرد کرنا)مذہب سلف نہیں ہےبلکہ یہ ایک نیا مذہب ہے ،جو سلف صالحین کے مذہب کے خلاف ہے ،چنانچہ امام احمد اوردیگر ائمہ سلف نے اہل تفویض کی اس بدعت کا انکار کیا ہے ،کیونکہ ان (اشاعرہ وغیرہ )کے مذہب کا تو تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے اس انداز سے خطاب کیا ہے کہ اس کے معنی کو وہ سمجھتے ہی نہیں اوراس کی  مراد کو وہ جانتے ہی نہیں ،حالانکہ اللہ تعالی کی ذات گرامی اس سے پاک ہے کہ وہ  ایسا انداز اختیار فرمائے۔اہل سنت اللہ تعالی کے کلام کی مراد کو جانتے ہیں،اس کے اسماء وصفات کے تقاضے کے مطابق اس کی صفت بیان کرتے ہیں اوروہ اسے ہر اس چیز سے پاک سمجھے ہیں جو اس کی ذاات گرامی کے شایان شان نہ ہو۔اہل سنت نے اللہ تعالی کے کلام اوراس کے رسول ﷺ کے کلام کی روشنی میں یہ جان لیا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام امور میں کمال مطلق کے ساتھ موصوف ہے ،جن کے بارے میں اپنی ذات گرامی کے حوالے سے اس نے خود خبر دی یا اس کے رسول ﷺ نے خبر دی ہے۔اب اس سلسلہ میں ائمہ سلف کے چند اہم اقوال ذکر کرتا ہوں تا کہ قارئین کرام کے سامنے یہ واضح ہوجائے کہ ہمارا موقف صیح ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ‘‘الفتوی المحویہ’’میں ذکر فرمایا ہے  کہ امام ابوبکر بیہقی نے اپنی کتاب ‘‘الاسماء والصفات’’میں صیح سند کے ساتھ امام اوزاعی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم ۔۔۔جب بہت سے تابعین موجود تھے ۔۔۔یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر ہے ،اسی طرح ہمار ا ان صفات پر بھی ایمان ہے ،جن کا ذکر سنت میں آیا ہے۔اوزاعی۔۔۔۔جو کہ عہد تبع تابعین کےائمہ اربعہ (مالک ،اوزاعی،لیث اورثوری)میں سے ایک ہیں۔۔۔۔نے اللہ تعالی کے عرش پر ہونے اوراس کی دیگر تمام صفات پر ایمان لانے کے متعلق کہا ہے کہ یہ قول تو تابعین سے منقول ہے۔امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نےیہ اس وقت فرمایا جب کہ جہم کا مذہب ظاہر ہوچکا تھا،جو اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کا منکر تھا نیز وہ صفات الہی کا بھی منکر تھا ،امام اوزاعی نے یہ اس لئے فرمایا تھاتاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ سلف کا مذہب جہم کے مذہب کے خلاف ہے۔

ابوبکر خلال نے ‘‘کتاب السنہ’’امام امام اوزاعی سے روایت کیا ہے کہ مکحول اورزہری احادیث کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ،ان کواسی طرح مانو جس طرح یہ آئی ہیں۔ولید بن مسلم سے بھی روایت ہے کہ میں نے مالک بن انس،

سفیان ثوری،لیث بن سعد اور اوزاعی سے ان روایات کے بارے میں پوچا جو کہ صفات باری سے متعلق ہیں تو انہوں نے فرمایا ‘‘ان پراسی طرح ایمان لاو جس طرح یہ آئی ہیں۔’’ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ‘‘ان کواسی طرح مانو جس طرح بلاکیفیت یہ آئی ہیں۔’’ان ائمہ نے درحقیقت یہ فرماکر کہ جس طرح یہ آئی ہیں،معطلہ کا رد کیا ہےاوربلاکیفیت کہہ کر ممثلہ کاردکیا ہے۔

امام زہری ؒ اورمکحولؒ اپنے زمانہ کے تابعین میں سب سے بڑے عالم تھے جب کہ باقی چارامام تبع تابعین کے دور میں دنیا کے سب سے بڑے امام تھے ،حماد بن زید اورحماد بن سلمہ جیسے ائمہ کا شمار بھی انہی کے طبقہ میں ہے۔ابوالقاسم ازجی نے اپنی سند کے ساتھ مطرف بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے امام مالک بن انس سے سنا ۔۔۔۔۔۔۔جب کہ آپ کے پاس ایک ایسے شخص کا ذکر ہوا جواحادیث صفات کا منکر ہے کہ وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کاقول نقل کررہے تھے کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ اورآپؐ کے بعدکے حکمرانوں (خلفاء راشدین)نے کچھ سنتیں مقررفرمائی ہیں کہ انہیں اخذ کرنا کتاب اللہ کی تصدیق ،اطاعت الہی کی تکمیل اوراللہ کے دین کے لئے باعث قوت ہے ،اللہ تعالی کی مخلوق میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کو بدلے اورنہ کسی ایسی چیز کو دیکھنا جائز ہے جو ان کے مخالف ہو،جو ان کے ساتھ ہدایت طلب کرے ہوی ہدایت یافتہ ہے ،جو ان کے ساتھ نصرت طلب کرے وہ منصور ہےاورجو ان کی مخالفت کرے اورمومنوں کی راہ کے علاوہ کوئی اورراہ تلاش کرے تواللہ تعالی اسے اسی طرف پھیر دے گا جس طرف اس نے منہ کیا ہےاوراسے جہنم رسید کرے گا جوبدترین ٹھکانا ہے۔’’

خلال نے ایسی سند کے ساتھ جس کے سب روای ائمہ ثقات ہیں،امام سفیان بن عیینہ سے روایت کیا  ہے کہ ربیعہ بن بی عبدالرحمن سے ،ارشادباری تعالی :

﴿الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ﴾ (طہ۲۰/۵)

‘‘ رحمن، جو عرش پر مستوی ہے۔’’

کے بارےمیں پوچھا کہ وہ کیسے مستوی ہوا؟توانہوں نے فرمایا‘‘استواء غیر مجہول ہے،کیفیت غیر معقول (عقل میں نہ آنےوالی)ہے۔اللہ تعالی نے پیغام بھیجا،رسول اللہ ﷺنے اسے واضح طورپر پہنچادیااورہم پر فرض ہے کہ اس کی تصدیق کریں یہ کلام ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کے تلمیذ رشید امام مالک بن انس سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے۔مثلا ابوالشیخ اسبہانی اورابوبکر بیہقی نے یحیی بن یحیی سے روایت کیا ہے کہ ہم امام مالک بن انس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،ایک آدمی آیا اوراس نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! ۔’’الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ کےحوالہ سے سوال ہے کہ استواء کی کیا کیفیت ہے ؟یہ  سوال سن کر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سرجھکالیاحتی کہ آپ پسینے میں شرابورہوگئے اورپھر فرمایا‘‘استواء غیر مجہول ہے، کیفیت غیر معقول ہے اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے اوراس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔’’پھر فرمایا کہ‘‘میں تمہیں بدعتی سمجھتا ہوں ۔’’اورپھر آپ نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دیا جائے۔

امام  ربیعہ اورامام مالک کا جو یہ قول ہے کہ استواء غیر مجہول ، کیفیت غیر معقول ہے اوراس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے تویہ باقی ائمہ کے اس قول کے موافق ہے کہ صفات کو اسی طرح مانو جس طرح یہ بلاکیف آئی ہیں تو اس طرح انہوں نے کیفیت کے علم کی نفی کی ہے ،صفت کی حقیقت کی نفی نہیں کی ،اگریہ لوگ معنی سمجھے بغیر محض الفاظ پر ایمان لائے ہوتے تویہ نہ کہتے‘‘استواء غیر مجہول ، کیفیت غیر معقول ہے۔’’اورنہ یہ کہتے کہ ‘‘ان کو اسی طرح بلاکیف مانو جس طرح یہ آئی ہیں۔’’ورنہ اس طرح استواء معلوم نہ ہوتا بلکہ حروف معجم کی طرح مجہول ہوتا اوراگر لفظ سے معنی سمجھ میں نہ آتے توپھرنفس کیفیت کے جاننے کی بھی ضرورت نہ تھی بلکہ ضرورت اسی بات کی تھی  کہ صفات کے اثبات کے بعد ان کی کیفیت جاننے کی نفی کی جاتی۔

جوشخص جزئی صفات یا مطلقاصفات کی نفی کرے اسے بلاکیف کہنے کی ضرورت نہیں ہے مثلا اگرکوئی شخص یہ کہے کہ اللہ عرش پر نہیں ہے تواسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ عرش پر بلاکیف مستوی ہے،اگر سلف کا مذہب حقیقت میں نفی صفات ہوتا تووہ بلاکیف کے الفاظ استعمال نہ کرتے ،علاوہ ازیں ان کا یہ کہنا کہ ‘‘ان کو اسی طرح بلا کیف مانو جس طرح یہ وارد ہیں’’اس بات کا تقاضا کرتا ہےکہ ان کی دلالت کو ان کے الفاظ کے اعتبار سے اسی طرح باقی رکھا جائے ،یہ  آیات ایسےالفاظ پر مشتمل ہیں جو اپنے معانی پر دلالت کرتی ہیں اگر ان  الفاظ کی اپنے معانی پر دلالت نہ ہوتی تو پھر واجب یہ تھا کہ یہ نہ کہا جاتا کہ ان کے الفاظ کو تو مانو لیکن عقیدہ یہ رکھو کہ ان کا مفہوم مراد نہیں ہے یا یہ کہ ان  الفاظ کو تو مانو اورعقیدہ یہ رکھو کہ اللہ تعالی کو ان صفات کے ساتھ موصوف قرارنہیں دیا جاسکتا ،جن پر الفاظ کی حقیقت دلالت کناں ہے اورپھراس وقت ان کو اس طرح مانا تو جاتا جس طرح یہ آئی ہیں اوریہ کہا جاتا کہ ان کو بلاکیف مانو کیونکہ جو چیز ثابت ہی نہ ہو اس کی کیفیت کی نفی کرنا ایک لغو بات ہے۔

(۶)جو حق کی مخالفت کرے، اس کا انکار کرنا واجب ہے،علم چھپانے کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے

شیخ صابونی نے اپنے مذکورہ مقالہ میں شیخ حسن البناؒکے حوالہ سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ‘‘ہم متفق علیہ باتوں پر جمع ہوجائیں گے اور مختلف امور میں ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے۔’’

اس کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ ہاں جن امور میں ہم متفق ہیں مثلا یہ کہ حق کی نصرت وحمایت کی جائے،اس کی دعوت دی جائے،ان امور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا واجب ہے باقی رہا مختلف امور میں ایک دوسرے کو معذور سمجھنا تو یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے بلکہ اس میں قدرے تفصیل ہے۔وہ مسائل جو اجتہادی ہیں اور جن کی دلیل مخفی ہے تو ان میں یہ واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کا انکار نہ کریں لیکن وہ مسائل جو نصوص کتاب وسنت کے خلاف ہوں،ان میں حکمت،موعظت حسنہ اور احسن انداز میں جدال کے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے انکار کرنا واجب ہے تاکہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق عمل ہوسکے:

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۲/۵)

‘‘نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔’’

اور فرمایا:

﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌﴾(التوبۃ۹/۷۱)

‘‘اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے(ممد ومعاون اور)دوست ہیں وہ بھلائیوں(نیکی)کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔’’

اور فرمایا:

﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَ‌بِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (النحل۱۲۵/۱۶)

‘‘)اے پیغمبر!)لوگوں کو دانش اورنیک نصیحت سے اپنے پروردگارکے راستے کی طرف بلاو اوربہت ہی اچھے طریق سے ان سے بحث (مناظرہ )کیجئے۔’’

اورنبی کریمﷺنے فرمایاہے کہ ‘‘تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تواسے ہاتھ سے مٹا دے ،اگراس کی طاقت نہ ہو توزبان سے اوراگراس کی بھی طاقت نہ ہو تودل سے(براسمجھے،اوریہ ایمان کاکمزورترین درجہ ہے ۔’’اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشادبھی فرمایا ہے کہ‘‘جو شخص نیکی کے کام کی رہنمائی کرے اسے بھی عمل کرنے والے کے برابر ثواب ہوگا۔’’ان دونوں حدیثوں کو امام مسلم نے اپنی ‘‘صیح’’میں بیان فرمایا ہے اوراس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات واحادیث ہیں۔

(۷)مسلمانوں کا دینی اختلاف اگرچہ بہت عظیم حکمتوں پر مبنی ہے تاہم واجب ہے کہ حق کا اتباع اورخواہش نفس سے اجتناب کیا جائے

پھر اپنے دوسرے مقالہ میں شیخ محمد علی صابونی نے مسلمانوں کے سلفی ،اشعری ،صوفی ،ماتریدی۔۔۔اوردیگر مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے پر بہت تنقید کی ہے ،بلاشک وشبہ مسلمانوں کی تفرقہ بازی ہر مسلمان کے لئے تکلیف دہ ہے اوروہ چاہتا ہے کہ مسلمان بھائی حق پر اکھٹے ہوں اورنیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں لیکن مسلمانوں  میں  یہ جو اختلاف ہے اس میں بھی اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے کئی عظیم حکمتیں اورقابل ستائش مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالی کی تعریف  ہی کی جائے گی،اس کے سوا ان تمام حکمتوں اورمصلحتوں کو تفصیل کے ساتھ کوئی اورجانتابھی نہیں ہے،ہمیں اتنا معلوم ہے کہ اس سے یہ تمیز ہوجاتی ہے  کہ اللہ کے دوست کون ہیں اوراس کے دشمن کون،طلب حق میں سرگرم عمل کو  ن ہیں اورحق سے منہ پھیر کراپنی خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے کو ن ہیں،ا س میں نبی کریمﷺ کی تصدیق بھی ہےاوراس بات کی دلیل بھی ہے کہ وہ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں کیونکہ آپ ؐنے تو وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی اس اختلاف کی خبر دے دی تھی اورفرمایا تھا کہ ‘‘میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی اوران میں سے ایک فرقہ کے سواباقی سب جہنم رسید ہوں گے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’ ‘‘یارسول اللہ !وہ فرقہ کون ساہے ؟فرمایا‘‘وہ جماعت ہے اورایک دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ وہ فرقہ جس کا عمل اس کے مطابق ہوگا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ حق پر جمع ہوں اوراپنے متنازعہ امورکو اللہ اوراس کے رسول کے ﷺ کی طرف لوٹا دیں کہ ارشادباری تعالی ہے:

(فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا) (النساء۴/۵۹)

‘‘اوراگرکسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تواگراللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھتے ہوتواس میں اللہ اوراس کے رسول (کے حکم)کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہے اوراس کاانجام بھی اچھا ہے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾ (الشوری۴۲/۱۰)

‘‘اورتم جس بات میں اختلاف کرتے ہواس کا فیصلہ اللہ  کی طر ف سے ہوگا۔’’

یہ دونوں آیات کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ  مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ جب بھی ان میں عقیدہ یا کسی دوسرے مسئلہ میں نزاع ہوتو اسے اللہ سبحانہ وتعالی اوراس کے رسول ﷺ کی طرف لوٹا دیں،اس سے ان کے سامنے حق واضح ہوجائے گا،ان میں اختلاف اوردشمنوں کے خلاف ان کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوجائے گا،ہرگروہ کا اپنے باطل موقف پر ڈٹے رہنا اورحق پر قائم دوسرے گروہ کی با ت کو تسلیم نہ کرنا ،اس طرز عمل کی شریعت میں ممانعت ہے اوریہی دشمنوں کے مسلمانو  ں پر غلبہ اورتسلط کا سبب ہے،وہ شخص حد درجہ قابل ملامت ہے جو باطل پر جما رہتا ہے اورحق قبول کرنے سے انکار کرتا ہے لیکن جو شخص حق کو اختیار کرے اس کی دعوت دے ،اس کی مخالفت کرنے والے کے باطل موقف کوواضح کردے تویہ شخص قابل ملامت نہیں بلکہ اس قابل ہے کہ اس کا شکریہ اداکیا جائے،ایسے ہی شخص کے لئے دواجرہیں ایک اجتہاد کا اجراوردوسراحق کو پالینے کا اجر۔

(۸)رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد سے لے کر آج تک اہل سنت والجماعت کا مذہب ایک ہی ہے

شیخ صابونی نے اپنے دوسرے مقالہ میں ذکرکیا ہے کہ اہل سنت کے دومذہب مشہور ہیں(۱)مذہب سلف اور(۲)مذہب خلف۔۔۔۔۔الخ

یہ بات بالکل غلط ہے اورہمارے علم کے مطابق صابونی سے پہلے کسی نے آج تک یہ  بات نہیں کی کیونکہ اہل سنت کا صرف ایک ہی مذہب ہےاوریہ وہی مذہب ہے جس پر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے تابعین عمل پیراتھے اوروہ یہ کہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اسی طرح ایمان لایا جائے،جس طرح یہ وارد ہیں اوران پر ایمان لایا جائے کہ یہ حق ہیں اوراللہ تعالی کی ذات گرامی ان اسماء وصفات سے اسی طرح موصوف ہے جس طرح اس کے شایان شان ہے،ان میں تحریف ،تعطیل ،تکییف،تمثیل ،ظاہر معنی کے بجائے تاویل اورتفویض کے اہل سنت قائل نہیں بلکہ اہل سنت کا ایمان ہے کہ ان کے  معنی معلوم ہیں اوروہ حق اوراللہ تعالی کی ذات گرامی کے لائق ہیں کہ وہ ان میں سے کسی بھی چیز میں اپنی مخلوق سے مشابہت نہیں رکھتا اورخلف کا مذہب اس کے خلاف ہے جیسا کہ ہروہ شخص اسے جانتا ہے جس نے دونوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو،اس کے بعد صابونی نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ اہل سنت صفات کے معانی کے علم کو اللہ تعالی کے سپردکرتے ہیں اور اسے انہوں نے بار بار کئی مقامات پر ذکر کیا ہے توان کی یہ بات غلط ہے اوراہل سنت کی طرف انہوں نے ایک ایسی بات کو منسوب کیا ہے ،جس سے وہ بری ہیں جیسا کہ قبل ازیں ہم تمام اہل سنت کی طرف سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کے حوالہ سے اس کا جواب دے آئے ہیں کہ اہل سنت اللہ تعالی کی طرف صفات کے معانی کو نہیں بلکہ ان کی کیفیت کے علم کو سپرد کرتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔

(۹)اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ اثبات ونفی نص کی بنیادپر ہوگی

پھر صابونی نے ذکر کیا ہے ۔اللہ اسے ہدایت بخشے ۔۔۔کہ اللہ سبحانہ وتعالی جسم ،آنکھ ،کان،زبان اورحلق سے پاک ہے۔۔۔یہ اہل سنت کا مذہب نہیں بلکہ یہ تواہل کلام مذموم کا مبنی برتکلف قول ہے۔ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ذات گرامی سے صرف اسی چیز کی نفی کرتے  ہیں ،جس کی نفی اس  نے خود یا اس کے رسول ﷺنے فرمائی ہے اوراثبات بھی صرف اسی چیز کا کرتے ہیں جس کا اثبات اس نے خود یا اس کےرسول ﷺنے فرمایا ہے،ان مذکورہ بالاامور کا نصوص میں چونکہ اثبات ہے نہ نفی ،لہذا واجب ہے کہ ان کے بارے میں بحث نہ کی جائے اورنفی واثبات کے اعتبار سے ان کے بارے میں تعرض نہ کیا جائے،اس سلسلہ میں یہی قول کافی ہے کہ اہل سنت اللہ تعالی کے صفات واسماء کے اثبات کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ان میں اپنی مخلو ق سے مشابہت نہیں رکھتا کہ اس ذات گرامی کاکوئی شریک نہیں اوراس کا کوئی ہم سر نہیں۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا  ہے کہ ‘‘اللہ تعالی کی صرف وہی صفت بیان کی جائے گی جو اس نے خود بیان فرمائی یا اس کے رسول ﷺنے بیان فرمائی،اس سلسلہ میں قرآن وحدیث سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا’’بہت سے دیگر ائمہ سنت نے بھی یہی بات بیان فرمائی ہے،ہاں البتہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی‘‘ کتاب الاعتقاد’’میں اس طرح کی جو باتیں آگئی ہیں توان کا تعلق متکلمین کے کلام اورتکلف سے ہے،جن کو انہوں نے اچھا اسمجھ کر ان کے صیح ہونے کا عقیدہ اختیار کرلیا حالانکہ حق بات یہ ہے کہ یہ اہل سنت کا کلام نہیں بلکہ اہل بدعت کا کلام ہے۔

(۱۰)اہل سنت والجماعت اثبات ونفی میں اللہ تعالی کے ارشادات کے پابند ہیں

صابونی نے اپنے دوسرے مقالہ میں لکھا ہے کہ ‘‘آج کل کے بعض جاہل مدعیان اللہ تعالی کی عجیب وغریب صور ت پیش کرتے ہیں اوراللہ تعالی کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا وہ اعضاء وحواس سے مرکب ایک جسم ہے جس کاایک چہر ہ ،دوہاتھ،دوآنکھیں،پنڈلی  اور انگلیاں ،وہ چلتا ،نازل ہوتا اوردوڑتا ہے،ان صفات کو بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی اسی طرح بیٹھتا ہے جس طرح کوئی چارپائی پر بیٹھتا ہےاوروہ اسی طرح اترتا ہے جس طرح ہم میں کوئی سیڑھی پر سے ا ترتا ہے۔۔۔یہ شخص بزعم خود یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو سلف صالح کا مذہب سمجھارہا اوران کے سامنے استواء ونزول کے معنی کی حقیقت کو ثابت کررہا ہے حالانکہ یہ ایک حسی جلوس ہے اوراس طرح نہیں ہےجس طرح تاویل کرنے والے اس کی تاویل کرتے ہیں ،اس سے اللہ تعالی کی پناہ ،یہ تو عین ضلالت ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالی کو تشبیہ بھی دی ہے اوراس کا جسم بھی ثابت کیا۔اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے جوئی چھوٹے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے بھاگ کرکسی بڑے گڑھے میں جاگرے اورپھر کسی بہت ہی دورجگہ جاگرے۔’’

اللہ تعالی ہمارے بھائی صابونی کو ہدایت بخشے ،اس مذکورہ کلام میں اس نے حق اورباطل کو ا س طرح جمع کردیا ہےکہ اسے ہر صاحب سنت جانتا ہے،چنانچہ مومن قارئین کرام کے لئے اس کی کچھ حسب ذیل تفصیل پیش خدمت ہے۔

جہاں تک اللہ ر ب ذوالجلال کی ذات گرامی کے چہرہ ،دونوں ہاتھوں ،دونوں آنکھوں،پنڈلی اورانگلیوں کا تعلق ہے،تویہ کتاب وسنت صیحہ کے نصوص سے ثابت ہیں،لہذا مانتے ہیں لیکن اس طریقے سے جو اس کی ذات گرامی  کے شایان شان ہے۔نزول اورتیز چلنے کا ذکر بھی صیح احادیث میں موجود ہے،یہ الفاظ رسول اللہ ﷺنے ادافرمائے اوران اوصاف کا آپ نے اللہ تعالی کے لئے اثبات فرمایا لیکن اس طریقے کے مطابق جو اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی کے شایان شان ہےاوران کی کیفیت کو بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے سوااورکوئی نہیں جانتا،لہذا صابونی کا ان صفات کا انکار کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کا انکار کرنا ہے بلکہ اللہ تعالی کا انکار کرنا ہے کیونکہ اس میں سے بعض صفات کا تو اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں ذکر فرمایا ہے اوربعض دیگر کا اپنے نبی ﷺ کو بذریعہ وحی بتایا ہے کیونکہ نبی کریمﷺاپنی خواہش نفس سے بات نہیں کرتے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں آپؐ جوبھی بتاتے ہیں وہ وحی الہی کی روشنی میں بتاتے تھے ،باقی رہا صابونی کا یہ کہنا کہ‘‘ان صفات کو بیان کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ’’اللہ تعالی اسی طرح بیٹھتا ہےاوروہ اسی طرح اترتا ہےجس طرح ہم میں کوئی سیڑھی پر سے ا ترتا ہے’’تواہل سنت اس سے بری ہیں کیونکہ یہ اہل سنت کا نہیں بلکہ ان مشبہین کا کلام ہے ،جن کو سلف صالح نے کافر قراردیا ہےاوران کی اس بات کا انکار کیا ہےکیونکہ یہ حسب ذیل ارشادباری تعالی سے متصادم ہے:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ (الشوری۴۲/۱۱)

‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے۔’’

اسی طرح اس کے ہم معنی اوربھی بہت سی آیات ہیں ،لہذا کسی کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اہل حق یعنی اہل سنت اورمشبہ اہل باطل کے کلام کو آپس میں خلط ملط کردے اوران میں کوئی تمیز نہ  کرے بلکہ واجب یہ ہے کہ دونوں کے کلام میں فرق کرتے  ہوئے تمیز کی جائے۔

(۱۱)ابوحنیفہ،ابن ماجشون،مالک اوراحمد بن حنبل نے سب سے پہلے اصول دین پر لکھا اورگمراہوں کی تردید کی ۔

صابونی نے اپنے تیسرے مقالہ میں لکھا ہے کہ ‘‘جس نے سب سے پہلے اصول دین پر لکھا اوراہل زیغ وضلالت کے شبہات کی تردید کی وہ ابولحسن اشعری اورابومنصورماتریدی ہیں۔’’

یہ بات صیح نہیں ہے کیونکہ ان دونوں سے پہلے اس موضوع پر لکھنے والوں میں

امام ابوحنیفہ،امام عبدالعزیزبن عبداللہ بن ابی سلمہ ماجشون،امام مالک رحمہم اللہ تعالی  امام احمد بن حنبل،امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ ،امام عثمان بن سعید دارمی۔۔۔جنہوں نے مریسی کی تردید میں لکھا ۔۔۔امام عبدالعزیز کنانی صاحب الحیدۃ اوردیگر بے شمار ائمہ کرام ہیں،رحمہم اللہ تعالی۔

(۱۲)سلف کا ایک ہی مذہب ہے اوروہی مذہب اہل سنت والجماعت کا ہے۔تفویض سلف کا مذہب نہیں ہے

اللہ تعالی ہدایت فرمائے صابونی نے اپنے تیسرے مقالہ میں دوبارہ پھر یہ لکھا ہے کہ‘‘سلف کے دو مذہب ہیں،ایک مذہب اہل تفویض کا ہے اوردوسرااہل تاویل کا۔۔۔۔آگے مزید لکھتے ہیں کہ بعض مذہب سلف کو فضیلت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں سلامتی کا پہلو زیادہ ہے جب کہ بعض دوسرے لوگ مذہب خلف کو افضل قراردیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس میں صحت ودرستی کا پہلو غالب ہے۔’’

اس کا جواب یہ ہے کہ صابونی صاحب کی یہ تقسیم بالکل باطل ہے کیونکہ سفل کا صرف ایک  ہی مذہب ہے ،یہی مذہب اہل سنت والجماعت کا ہے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین کا مذہب ہے اوریہی مذہب سلامتی والا بھی ہے ،زیادہ علم اورزیادہ صحت ودرستی کا حامل بھی اوردوسرا مذہب جو خلف کا مذہب ہے وہ مذموم ہے کیونکہ یہ اہل تاویل وتحریف وتکلف کامذہب ہے۔لیکن خلف کے مذہب کی مذمت اوراس سے بچنے کی تلقین کے یہ معنی نہیں کہ خلف کافر ہیں کیونکہ تکفیر کے لئے ایک دوسرا حکم ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ اس شخص کا قول کیا ہے ،اس میں باطل کا عنصر کتنا ہے اوراس میں حق کی مخالفت کا پہلو  کس قدرہے ؟لہذا یہ  کہنا جائز نہیں کہ مذہب خلف کی مذمت اوراشاعرہ کی چند صفات کے سوادیگر تمام صفات کی تاویل وتحریف کرنے کی وجہ سے ان کے نظریات کے انکار سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم انہیں کافر قراردے رہے ہیں بلکہ اس سے ہمارا مقصود صرف یہ بیان کرنا ہے کہ انہوں نے اہل سنت کی مخالفت کی ہے اورصفات باری تعالی کی تاویل کی جو روش اختیار کی ہے ،یہ باطل ہے اورصیح مذہب سلف صالح یعنی اہل سنت والجماعت ہی کا ہے کہ صفات سے متعلق آیات واحادیث کو مانا جائے اوریہ اسماء وصفات جن امور پر دلالت کرتی  ہیں،ان کو کسی قسم کی تحریف ،تعطیل ،تاویل،تکییف اورتمثیل وغیرہ کے بغیر اسی طرح مانا جائے جس طرح اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی کے شایان شان ہے جیسا کہ پہلے بھی اسے کئی بار بیا ن کیا جاچکا ہے ۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو!

صابونی نے یہاں امام بیہقی کے قول کاحوالہ دیا ہے اوراس کے بارےمیں قبل ازیں ہم یہ بیان کرآئے ہیں کہ غلطی کی وجہ سے اہل بدعت کے کچھ الفاظ کو انہوں نے صیح سمجھتے ہوئے اپنی کتاب میں داخل کردیا اورپھر امام بیہقی  کا تعلق بھی علم کلام میں دلچسپی رکھنے والوں میں تھا ،اس لئے علم کلام کی بعض خرابیاں ان کے اعتقاد میں شامل ہوگئی تھیں،اللہ تعالی ان سے درگزر کرے اورانہیں معاف فرمائے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس فروگزاشت پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی،ج۶،ص:۵۳پر فرمایا ہے۔

(۱۳)اہل سنت والجماعت صفات باری کی تاویل کے قائل نہیں،بعض لوگوں نے ان کے کلام کو جو تاویل کہا ہے تووہ درحقیقت عربی زبان کے مطابق کلام اللہ کی تفسیر ہے۔

پھرصابونی نے اپنے تیسرے مقالہ میں یہ بھی کہاہے،کوشخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم  مذہب خلف کو مذہب سلف پر ترجیح دے رہے ہیں،ہم علماء کلام کی اس رائے کو بھی صیح نہیں سمجھتے کہ‘‘مذہب سلف میں سلامتی کا پہلو زیادہ ہے جب کہ مذہب خلف میں صحت ودرستی کا پہلو غالب ہے۔’’بلکہ ہم ایمان ویقین کی بنیاد پر کہ کہتے ہیں کہ مذہب سلف ہی سلامتی اورصحت ودرستی کا حامل ہےلہذا ہم صفات خالق جل علا کی تاویل کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ ہم ان پر اسی طرح ایمان لائیں گے جس طرح یہ وارد ہیں تشبیہ وتجسیم کی نفی کرتے ہوئے ،جس طرح یہ وارد ہیں،ہم اسی طرح ان کا اقرار کریں گے پھر انہوں نے کسی شاعرکے اس مصرعہ سے بھی استشہادکیا ہے کہ ع

((ان المفوض سالم مما تكلفه الموول))

‘‘سپرد کرنے والا اس تکلف سے بچ جاتا ہے جس کا تاویل کرنے والا ارتکاب کرتا ہے۔’’

لیکن آگے چل کرصابونی لکھتے ہیں کہ اگرصفات کی تاویل کرنے والا گمراہ ہے توپھر ہمیں ان تمام سلف صالح کو گمراہ قراردے دینے چاہئے جنہوں نے حسب ذیل

ارشادباری تعالی :

﴿مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَ‌ابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ﴾ (المجادلۃ۵۸/۷)

‘‘(کسی جگہ)تین(آدمیوں)کا کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اورنہ کہیں پانچ کا مگروہ ان میں چھٹا ہوتا ہے۔’’

کی تاویل کی ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے علم کے ساتھ ہوتا ہےاورارشادباری تعالی :

﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحدید۵۷/۴)

‘‘تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔’’

کی تاویل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معیت سے مراد معیت علم ہے تاکہ تعددذات لازم نہ آئے ،اسی طرح ہم حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کو بھی گمراہ قراردیں گے کہ انہوں نے ارشادباری تعالی:

﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ﴾ (الواقعۃ۵۶/۸۵)

‘‘اورہم اس(مرنے والے)سے تمہار ی نسبت قریب ترہوتے ہیں  لیکن تم کو نظر نہیں آتے۔’’

کے بارے میں لکھا  ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے فرشتے مرنے والے سے تم سے بھی قریب ہوتے ہیں لیکن تم اس کو دیکھ نہیں سکتے،اسی طرح انہوں نے حسب ذیل ارشادباری تعالی:

﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ﴾ (ق۵۰/۱۶)

‘‘اورہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔’’

کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی اس  سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ حلول واتحاد سےاللہ سبحانہ وتعالی کی ذات پاک ہے اوراس کی نفی پر اجماع ہے۔۔۔۔۔صابونی آگے لکھتے ہیں کہ بات یہ ہے کہ تاویل کبھی وجب ہوجاتی ہے جیسا کہ حدیث صیح میں ہے کہ‘‘حجر اسود زمین میں اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے۔’’یا جیسا کہ اس نے کشتی نوح کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

﴿وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ‌ ﴿١٣﴾ تَجْرِ‌ي بِأَعْيُنِنَا جَزَاءً لِّمَن كَانَ كُفِرَ‌﴾ (القمر۵۴/۱۳۔۲۱۴)

‘‘اورہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اورمیخوں سے تیار کی گئی تھی ،سوارکرلیا ،وہ  ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی (یہ سب کچھ)اس شخص کے انتقام کے لئے کیا گیا جس کو کافر مانتے نہ تھے۔’’

اس کے جواب میں ہم صابونی سے یہ کہیں گےکہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ سلف صالح کے مذہب اوراعتقادکو اختیارکرلیا کہ وہی اسلم واحکم ہے لیکن آپ اس پر ثابت قدم نہیں رہے کہ کبھی توآپ مذہب تاویل کو اختیار کرتے ہیں اورکبھی مذہب تفویض کی طرف مائل ہوجاتے ہیں جب کہ ایک مرد مومن کے لئے واجب یہ ہے کہ وہ حق پر ثابت قدم رہے اوراس کے پایہ استقامت میں لغزش نہ آئے ۔آپ نے جو سلف کے حوالہ سے  ذکر کیا ہے کہ وہ وَهُوَ مَعَكُمْ کی علم سے تاویل کرتے ہیں تودرحقیقت یہ تاویل نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک آیات معیت کے معنی ہی یہ ہیں جیساکہ امام ابوعمربن عبدالبراورابوعمرطلمنکی نے کہا کہ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے کیونکہ کتاب وسنت کے ان نصوص کایہی تقاضا ہے جو اللہ تعالی کے علو،فوقیت اور حلول واتحاد سے پاک ہونے پر دلالت کناں ہیں،جو شخص بھی ان آیات پر غورکرے گا تو اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ معیت سے مراد ہی یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے حالات اوران کے امورومعاملات کا علم ہے جب کہ معیت خاصہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی اپنے انبیاء کو اپنی تائیدوحمایت سے نوازتا ہے جب کہ اسے ان کے حالات کا علم بھی ہوتا ہے اورفتح ونصرت سے نوازتا ہے جب کہ وہ ان کے تمام امورو معاملات سے مطلع بھی ہوتا ہے۔عرب جن کی زبانوں میں کتاب وسنت کا نزول ہوا ،وہ ان معنوں کو جانتے ہیں اور اس سلسلہ میں انہیں کوئی شک وشبہ نہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے معنی اس قدر واضح تھے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ان آیات کے معنی پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ،اسی طرح ہمیں دیگر نصو ص کی تاویل کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے معنی بے حدروشن اورظاہر ہیں مثلا ارشادباری تعالی

﴿تَجْرِ‌ي بِأَعْيُنِنَا، وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي﴾ اور ﴿وَاصْبِرْ‌ لِحُكْمِ رَ‌بِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا﴾ کےبارے میں کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ کشتی

اللہ سبحانہ وتعالی  کی آنکھ کے ساتھ چلتی تھی اورنہ یہ کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کی  آنکھوں میں تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کشتی اللہ تعالی کی نگہداشت ،عنایت ،تسخیر اورحفاظت میں چلتی تھی اور حضرت محمد ﷺ اپنے مولا کی عنایت ،حفاظت اور نگہداشت میں تھے،اسی طرح اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے بارے میں جویہ فرمایا کہ وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِيتواس کے معنی بھی یہی ہیں کہ تاکہ تم میری نگہداشت و حفاظت میں پرورش پاو،اسی طرح حدیث میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ‘‘میں اپنے بندے  کا کان بن جاتا ہوں ،جس سے وہ سنتا ہے، آنکھ بن  جاتا ہوں ،جس سے وہ دیکھتا ہے۔’’تو ان کی تفسیر ایک دوسری روایت کے ان الفاظ سے ہوجاتی ہے کہ ‘‘وہ میرے لئے سنتا ، میرے لئےدیکھتا، میرے لئےپکڑتااور میرے لئےچلتا ہے۔’’جس شخص کو عربی زبان میں ادنی سی بصیرت بھی حاصل ہو وہ یہ گمان نہیں کرسکتا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی انسان کا کان،آنکھ ،ہاتھ اورپاوں ہے ۔اللہ تعالی کی ذات اس سے پاک ،بلند وبالااورارفع واعلی ہے لہذا اس سے اللہ تعالی کی مرادیہ بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالی اپنے اولیاءکو،اس کی اطاعت اور اس کے حق کے لئے قیام کے باعث یہ توفیق عطافرمادیتا ہےکہ ان  کے افعال وحرکات صیح ہوتے ہیں،اسی طرح دیگر احادیث کے بھی یہی معنی ہیں۔باقی رہی یہ حدیث کہ‘‘حجر اسود اللہ تعالی کا داہاں ہاتھ ہے۔’’تویہ حدیث ضعیف ہے اور صیح بات یہ ہے کہ یہ مرفوع نہیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت ہے لیکن مرفوع ہو یا موقوف اس کے معنی ظاہر ہیں جیسا کہ خود اس حدیث ہی میں یہ وضاحت ہے کہ جس نے حجر اسود کو بوسہ دیا اس نے گویا اللہ تعالی سے مصافحہ کیا اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا۔اس سے معلوم ہو اکہ حجر اسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ نہیں ہے بلکہ اسے ہاتھ لگانے اوربوسہ دینے کی ترغیب کے پیش نظر تشبیہ یوں دی گئی ہے کہ اسے ہاتھ لگانے اوربوسہ دینے والا اس شخص کی مانند ہے جو اللہ کے ہاتھ سے مصافحہ کرکے گویا اسے بوسہ دے رہا ہو۔

اسی  طرح صیح حدیث میں اللہ تعالی کا جو یہ ارشاد ہے کہ وہ اپنے بندے سے یہ فرمائے گا کہ‘‘میں بیمار ہوا مگر تونے میری عیادت نہ کی۔’’تو اس حدیث ہی میں اس کے معنی کی اس طرح وضاحت موجود ہے کہ‘‘کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تومیرے فلاں بیمار بندے کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتااوراگرتواس بھوکے کو کھانا کھلاتا تومجھے بھی اس کےپاس پاتا ۔’’تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ وتعالی بیمار ہوتا ہے نہ بھوکا،لہذا اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مریض کی بیمار پرسی اوربھوکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب دے رہا ہے۔

ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ﴾ (ق۵۰/۱۶)

‘‘اورہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں۔’’

نیزفرمایا:

﴿وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ﴾ (الواقعۃ۵۶/۸۵)

‘‘اورہم اس(مرنے والے)سے تمہار ی نسبت قریب ترہوتے ہیں۔’’

کی ایک جماعت نے یہی تفسیر کی ہے کہ اس سے فرشتوں کا قرب مراد ہے کیونکہ بوقت موت فرشتوں کا بندے کے قریب آنا اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم،اس کی تقدیر اوراپنے بندوں  کی نگہداشت کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ کچھ دیگر لوگوں نےاس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اس سے سبحانہ وتعالی کا قرب مراد ہے جو اس کے علم ،اس کی قدرت اوراس کے اپنے بندوں کے احاطہ کی صورت میں ہے یعنی یہاں قرب کے معنی وہی ہیں جو معیت کے ہیں کہ وہ اپنے عابدوسائل بندوں کے قریب ہے حالانکہ وہ ذات گرامی علو وفوقیت کی صفات سے متصف ہے۔اس قرب سے مراد حلول اوراتحاد نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی ذات گرامی اس سے پاک ہے کیونکہ کتاب وسنت کے قطعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی سبحانہ وتعالی عر ش پر ہے،اپنی مخلوق سے جدا ہے،مخلوق سے بلند ہے لیکن اس کا علم ہر جگہ ہے ،جوشخص نصوص کتاب وسنت پر غورکرےاوربعض کی بعض سے تفسیر کرے تواس کے سامنے معنی واضح ہوجائیں گے اوراسے کسی تاویل کی ضرورت نہ ہوگی

ابوجعفربن جریر طبری نےسورہ ق کی آیات کی تفسیر میں دوسراقول اورسورہ واقعہ کی آیت میں پہلا قول پسند کیا ہے ،اہل سنت نے نصوص صفات کی تاویل کرنے والے کا انکار کیا اوراسے بدعتی قراردیا ہے کیونکہ ان کی تاویل کرنے سے کئی قسم کی باطل باتیں لازم آتی ہیں ۔کلمات الہی کی تحریف لازم آتی ہے ،اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات کمال کی نفی لازم آتی ہےاوراس کے بارے میں یہ سوء ظن پیدا ہوتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ایسے کلام سے مخاطب کیا ہے جوبظاہر تشبیہ وتمثیل پر مبنی ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد کچھ اورہے ،یہی وہ تاویل مذموم ہے جسے اہل کلام نے اختیار کیا مگر اہل سنت نے ان کا انکار کرتے ہوئے اس مسئلہ میں انہیں گمراہ قراردیا کیونکہ انہوں نے ظاہری معنی کے خلاف نصوص کی تاویل کی اوراس حق سے جس پر یہ دلالت کناں تھیں ،انہیں پھیردیا اورپھر اس سلسلہ میں ان کے پاس کتاب و سنت سے کوئی دلیل وبرہان بھی نہیں،یہ انہوں نے محض اپنی عقلوں اوران آراءکی بنیاد پر کیا جن کے بارے میں

اللہ تعالی  نے کوئی دلیل وبرہان نازل نہیں فرمائی اورپھر اہلسنت نے ان کے افکاروآراءسے ان کے سامنے یہ بھی ثابت کیا کہ جس چیز سے یہ تاویل کرتے ہوئے راہ فراراختیارکررہے تھے،اسی چیز کو انہوں نے اختیار بھی کیا۔بات یہ ہے کہ بلاشک وشبہ تناقض وتضاد سے صرف وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جو نفی واثبات کے سلسلہ میں صرف اورصرف اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺ کے ارشادات پر اکتفا کرے اوروہ اہلسنت والجماعت ہیں۔واللہ المستعان۔

(۱۴)مسلمانوں کے اتفاق واتحاد کے وجوب سے یہ لازم نہیں آتا کہ فعل وعقیدہ کا بھی انکار نہ کریں

اپنے چوتھے مقالہ میں شیخ صابونی نے یہ دعوت دی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں اتفاق واتحاد ہونا چاہئے،دشمنان اسلام کے خلاف سب کی متفقہ کوششیں ہونی چاہئیں اورپھر یہ ذکر کیا ہے کہ یہ وقت مختلف مذاہب کے پیروکاروں،اشعریوں،اخوانیوں حتی کہ صوفیوں کی مخالفت کا وقت نہیں ہے۔

اس کے جواب میں گزارش ہے کہ لاریب!سلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں،حق پرسب اکٹھے ہوجائیں اور دشمنان اسلام کے خلاف نیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں ۔جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا حکم  دیا ہے کہ:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّ‌قُوا﴾ (آل عمران۳/۱۰۳)

‘‘اورسب مل کراللہ کی رسی کو مضبوط تھام لواورباہمی اختلاف سے بچو۔’’

اورتفرقہ سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّ‌قُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ

(آل عمران۳/۱۰۵)

‘‘اوران لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اورواضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے  لگے۔’’

لیکن  مسلمانوں کے اتحاد ،حق پر اتفاق اوراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے وجوب سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ صوفیہ اوردیگر لوگوں کے منکر فعل اورعقیدہ کا بھی انکار نہ کریں بلکہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیں ،برائی سے منع کریں اوراس شخص کے سامنے حق کو واضح کریں،جو حق کو ظن یا اس کے خلاف کو صیح گمان کرے اور اسے شرعی دلائل کی روشنی میں واضح کریں تاکہ سب لو گ حق پر متفق ہوجائیں اورخلاف حق کو چھوڑ دیں اوریہی تقاضا ہے حسب ذیل

ارشادباری تعالی کا :

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۲/۵)

‘‘اورنیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔’’

نیز ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ‌ وَيَأْمُرُ‌ونَ بِالْمَعْرُ‌وفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران۳/۱۰۴)

‘‘اورتم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اوراچھے کام کرنے کا حکم دے اوربرے کام سے منع کرے،یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔’’

اہل حق اگر غلطی کرنے والوں کی غلطیوں خطاکاروں کی خطاوں کو بیان کرنے سے سکوت اختیار کرلیں تو اللہ تعالی نے انہیں جو نیکی کی طرف بلانے ،اچھے کام کرنے کا حکم دینے اوربرے کاموں سے منع کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی اطاعت نہ کرسکیں گے اوریہ بھی معلوم ہےکہ اگر انسان انکار سے منکر سے سکوت اختیار کرلے ،غلطی کرنے والے کو نہ سمجھائے اورحق کی مخالفت کرنے والے کو نہ بتائے تو اس کے کس قدر خوفناک نتائج مرتب ہوتے ہیں نیز یہ خاموشی اللہ  تعالی کے اس حکم  کے بھی خلاف ہوگی جو اس نے ہمدردی وخیر خواہی کرنے ،امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے دیا ہے۔

اللہ تعالی  ہمیں توفیق سے نوازے!

(۱۵)صفات میں تفویض وتاویل مذہب سلف نہیں

صابونی نے اپنے پانچویں مقالہ میں لکھا ہے کہ‘‘سلف صالح جن کے بارے میں صفات باری کے موضوع کے حوالہ سے ہم نے اپنے سابقہ مقالات میں گفتگوکی ہے،ان کا مذہب تفویض مطلق نہیں ہے جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ہے بلکہ ان کاایک دوسرا مذہب ہے جو نظر ثاقب اورنصوص کتاب وسنت کے فہم سلیم ومستقیم پر دلالت کرتا  ہے۔اس مسلک ومنہج کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

اولا: جن آیات اوراحادیث صفات کی تاویل کے بغیر چارہ کارنہ ہوان کی تاویل کرلی جائے بشرطیکہ لغوی ،شرعی یا اعتقادی اسبا ب کی وجہ سے اس تاویل میں کوئی کاوٹ نہ ہو

ثانیا: قرآن کریم اورسنت مطہرہ نے اللہ جل وعلاءکی جن صفات مثلا سمع،بصر ،کلام،محبت،رضا،استواء،نزول،اتیان ومجیئی(آنا)وغیرہ کو ثابت کیا ہے ان پر تشبیہ یا تعطیل یا تجسیم یا تمثیل کے بغیر بطریق تسلیم وتفویض ،اللہ تعالی کی مرادکے مطابق ایمان لایا جائے۔’’

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دعوی کہ یہ سلف کا مذہب ہے یہ ایک ایسا دعوی ہے جو بے بنیاد اورغلط ہے کیونکہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے بارے میں سلف صالح کا مذہب تفویض نہیں ہے ،نہ تفویض عام اورنہ تفویض خاص بلکہ وہ صرف کیفیت کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کرتے ہیں جیسا کہ قبل ازیں بیان کیاگیا اورجیسا کہ امام مالک اوراحمد اورکئی دیگر ائمہ نے بیان فرمایااورجیسا کہ ان سے پہلے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اورربیعہ بن ابی عبدالرحمن شیخ امام مالک نے بیان فرمایا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین!اس طرح صفات کی تاویل کرنا بھی سلف کا مذہب نہیں ہے بلکہ وہ تو ان کو اسی طرح مانتے ہیں جس طرح یہ وارد ہیں اوران کے معانی کے ساتھ اسی طرح ایمان لاتے ہیں کہ جس طرح تحریف ،تعطیل،تکییف اور تمثیل کے بغیراللہ تعالی کی ذات گرامی کے

شایان شان  ہوجیسا کہ اسے پہلے کئی مرتبہ بیان کیا جاچکا ہے۔اس طرح تجسیم کی نفی یا اثبات بھی سلف کا مذہب نہیں ہے کیونکہ اس کا کتابو سنت میں ذکر ہے نہ سلف امت کے کلام میں جیسا کہ کئی ایک ائمہ نے اسے بیان فرمایا ہے،چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘التدمریہ’’میں چھٹےقاعدہ کے تحت رقم طراز ہیں کہ ‘‘جوشخص اللہ تعالی کی نقائص کے ساتھ وصف بیان کرتا ہے تواس کی تردید کے  لئے یہ طریقہ ایک فاسد طریقہ ہے ،سلف یا ائمہ میں سے کسی نے اس طریقہ کو اختیار نہیں کیا اورنہ ان میں سے کسی نے اللہ تعالی کے لئے جسم یا جوہر یا تحیز(کسی ایک  ہی جگہ میں منحصر ہونا)کا لفظ نفیایااثباتااستعمال کیا ہے کیونکہ یہ مجمل الفاظ ہیں،ان سے حق ثابت ہوتا ہے نہ باطل کی نفی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہود اوردیگر کفار کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے ،کلا م کا یہ ایک بدعی انداز ہے سلف اور ائمہ نے اس اسلوب کلام کو اختیار کرنے سے انکارفرمایا ہے۔’’

حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب‘‘فضل علم السلف علی علم الخلف ’’میں لکھا ہے کہ ‘‘صیح موقف وہ ہے جس پر ائمہ تھے کہ آیات واحادیث صفات کو اسی طرح ماناجائے جس طرح یہ وارد ہیں کہ ان کی تفسیر کی جائے نہ کیفیت بیان کی جائے اورنہ تمثیل ،چنانچہ اس مسئلہ میں ائمہ سے خصوصا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ان آیات واحادیث صفات کے معانی میں غوروخوض کرنا اوران کےلئے کسی مثال کو بیان کرنا بھی صیح نہیں ہے ،’’اگرچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ کے قریب بعض لوگوں نے مقاتل کے طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے ان میں غوروخوض کیا بھی ہے تو وہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی پیروی کی جائے کیونکہ اس سلسلہ میں مقتداءائمہ اسلام مثلا ابن مبارک ،مالک ،ثوری،اوزاعی،شافعی ،احمد ،اسحاق اورابوعبید رحمۃ اللہ علیہم جیسے ائمہ کرام ہیں۔ان ائمہ کے ہاں فلاسفہ تو کجا متکلمین کا سا انداز کلام بھی نہیں ہےاورہر ا س شخص کے کلام کا یہ اسلوب نہیں ہے جو قدح وجرح سے محفوظ رہا ہے۔امام ابوزرعہ رازی کا  قول ہے کہ ‘‘ہر وہ شخص جس کے پاس علم ہو ،وہ اپنے علم کی حفاظت نہ کرسکے اوراس کی نشرواشاعت کے لئے وہ علم کلام کا محتاج ہو تو تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔’’

کتاب وسنت سے اللہ تعالی کے جس قدر بھی اسماء وصفات ثابت ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی تاویل کرنا واجب ہو بلکہ نصوص سے تو وہ اسماء صفات ثابت ہیں جو اس معنی مراد پر دلالت کناں ہیں جس کا اثبات اللہ تعالی کی ذات گرامی کے لئے اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے لائق ہے اوراس بات کی قطعا کو ئی ضرورت نہیں ہےکہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکے کلام کی کوئی ایسی تاویل کی جائے جو ظاہر کلام کے خلاف ہو،البتہ ان صفات کی کیفیت کے علم کو اللہ تعالی کے سپرد کردیا جائے گا جیسا کہ ائمہ سنت کے ا رشادات کے حوالہ سے قبل ازیں بھی اسے بیان کیا جاچکا ہے۔

(۱۶)سلفی اہل علم ائمہ اسلام میں سے کسی ایک کو بھی کافر قرارنہیں دیتے ہاں البتہ خلاف حق تاویل کرنے والوں کی غلطی کو ضرور واضح کردیتے ہیں

صابونی کو اللہ تعالی ہدایت وتوفیق بخشے ،انہوں نے اپنے پانچویں مقالہ میں لکھا ہے‘‘میں اپنے سلفی بھائیوں کے لئے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ اپنی گردنوں پر امت کو گمراہ قراردینے اوران اہل فقہ وحدیث وتفسیر ائمہ اسلام کی تکفیر کا بوجھ اٹھائیں جو اشاعرہ کے مذہب پر تھے ،اگرہم مسلمانوں کی صفوں میں انتشارپیدا کردیں اورشیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی شارح بخاری جیسی شخصیتوں کو بھی گمراہ قراردیں تو ہمیں اس سے کیا حاصل۔۔۔۔شیخ صابونی نے یہاں کچھ اورحضرات کے نام بھی لئے اورلکھا ہے کہ یہ جلیل القدر ائمہ امام اشعری کے مذہب پر تھے ۔۔۔۔۔الخ۔’’

اس کا جواب یہ ہے کہ سلفی اہل علم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ان ائمہ کرام کو جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ،کافر قراردیتا ہو ہاں البتہ سلفی اہل علم ،بہت سی صفات کے بارے میں تاویل کی جو غلطی یہ کرتے ہیں،اسے ضرور واضح کرتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ یہ تاویل کرنا سلف امت کے مذہب کے خلاف ہے او ر یہ ان ائمہ کی تکفیر ہے نہ امت کی صفوں میں انتشار پید اکرنا ہے ،بلکہ یہ تو اللہ کے دین اوراس کے بندوں کی ہمدردی وخیر خواہی ہے ،حق کا بیان ہے ،دلائل عقلیہ ونقلیہ کے ساتھ مخالفین حق کی تردید ہے ،اس فریضہ کی ادائیگی ہے جسے اللہ تعالی نے حق کے بیان کرنے اوراسے نہ چھپانے کے بارے میں علماء پر فرض قراردیا ہے اوریہ تو دعوت الی اللہ اوراس کی راہ کی طر فرہنمائی ہے اگر اہل حق ،حق کو بیان کرنے میں خاموشی اختیار کرلیں تواس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خطاکاراپنی خطاوں ہی کو اختیار کئے رکھیں گے،دوسر ےلوگ ان  کی تقلید کریں گے اوراس بوجھ کو اٹھانے کے ذمہ دار قرارپائیں گے،جس کا اللہ تعالی نے اپنے حسب ذیل ارشاد میں ذکر فرمایا ہے:

﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ﴾ (البقرۃ۲/۱۵۹/۱۶۰)

‘‘جو لوگ ہمار ے حکموں اورہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرض فاسد سے)چھپاتے ہیں باوجود یکہ ہم نے لوگوں کے (سمجھانے  کے )لئے اپنی کتاب میں کھول کھول کربیان کردیا ہے،ایسے لوگوں پر اللہ تعالی اورتمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں ہاں! جو توبہ کرتے ہیں اوراپنی حالت درست کرلیتے ہیں اور(احکام الہی کو)صاف صاف بیان کردیتے ہیں ان کے قصور معاف کردیتے ہوں اورمیں بڑا معاف کرنے والا(اور)رحم والا ہوں۔’’

اللہ تعالی نے علماء اہل کتاب سے یہ عہدوپیمان لیا تھاکہ وہ دین کو لوگوں کے سامنے ضرورکھول کھول کربیان کریں گےاوراسے چھپائیں گے نہیں مگر اس عہدوپیمان کو توڑ دینے کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کی مذمت کی اورہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے سے  منع فرمایا ہے۔

اگر اہل سنت بھی ان لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی نہ کریں جو کتاب وسنت کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر تویہ بھی مغضوب اورگمراہ اہل کتاب کی طرح ہوجائیں گے پھر ہم برادر صابونی کی خدمت میں یہ بھی گزارش کریں گے کہ علماء اشاعرہ ابوالحسن اشعری کے متبع نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے صفات کی تاویل سے رجوع کرکے اہل سنت والجماعت کے اس مذہب کو اختیار کرلیا تھا کہ اسماء وصفات کو تحریف،تعطیل،تکییف اور تمثیل کے بغیراسی طرح ثابت مانا جائے جس طرح یہ وارد ہیں جیسا کہ  انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ‘‘الابانۃ’’اور‘‘المقلات’’میں اسے واضح فرمایا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ امام اشعری کی طرف اپنے آ پ کو منسوب کرنے والا جو شخص صفات کی تاویل کرے ،وہ ان کے جدید مذہب پر نہیں بلکہ قدیم مذہب پر ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ ایک عالم کا مذہب وہ ہوتا ہے،جس کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کا انتقال ہوا ہو،جو اس نے پہلے کہا ہو اورجس سے اس نے رجوع کرلیا ہو ،وہ اس کا مذہب نہیں ہوتا ،اس سے خبرداررہئے اورہر اس بات سے اجتناب کیجئے جس سے امورومعاملات میں اختلاط رونما ہویا وہ اپنی مناسب جگہ پر  نہ رہیں۔(اللہ ہمارا حامی وناصرہو۔)

(۱۷)صابونی جسے سلف کی تاویل سمجھتے ہیں اس کی حقیقت۔

صابونی نے اپنے اس چھٹے مقالہ میں یہ کہا ہے کہ جس کا آغاز انہوں نے

هذا بيان للناس‘‘یہ لوگوں کے لئے بیان ہے۔’’کے الفاظ سے کیا ہےکہ بعض آیات واحادیث صفات کی تاویل کرنے سے ایک مسلمان جماعت اہل سنت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ ان میں سے کسی کی تاویل کرنا غلط ہے اورکسی کی تاویل کرنا صیح ہے۔کئی ایسی آیات ہیں جن کی صحابہ وتابعین اورعلماء سلف نے تاویل کی لیکن کوئی شخص یہ جرات نہیں کرسکتا کہ انہیں گمراہ یا ایل سنت والجماعت سے خارف قراردے،پھر صابونی نے اس سلسلہ میں کئی مثالیں دیں،جن میں سے ایک مثال حسب ذیل ارشادباری تعالی بھی ہےکہ:

﴿نَسُوا اللَّـهَ فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۶۷/۹)

‘‘انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا۔’’

اسی طرح اس کی مثال کے طور پر صابونی نے ان آیات کا حوالہ دیا ہے جن میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالی استہزاءکرنے والوں کے ساتھ ہنسی کرتا ہے،مومنوں کا مذاق اڑانے والوں کا مذاق اڑاتا ہےاورمکر کرنے والوں کے ساتھ مکر کرتا ہے،اسی طرح انہوں نے بطور مثال یہ حدیث بھی پیش کی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالی فرمائے گا ‘‘میں بیمار ہوالیکن تونے میری عیادت نہ کی،میں بھوکا تھا لیکن تونے مجھے کھانا نہ کھلایا۔’’صابونی لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ معاملہ اس طرح نہیں جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ مذہب سلف میں تاویل کی مطلقا گنجائش نہیں ہے بلکہ مذہب سلف بھی یہ ہے کہ جہاں تاویل کے بغیر اورکوئی چارہ کار ہی نہ ہو ،وہاں تاویل کرلی جائے۔’’

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کلام کچھ تفصیل کا متقاضی ہے کیونکہ اس میں کچھ باتیں حق ہیں اورکچھ باطل ،چنانچہ صابونی کا یہ کہنا کہ بعض صفات کی تاویل سے ایک مسلمان جماعت اہل سنت سے خارج نہیں ہوجاتا،فی الجملہ صیح ہے کیونکہ اشاعرہ کی طرح بعض صفات کی تاویل کرنے والا مسلمانوں کی جماعت سے خارج نہیں اورنہ غیر صفات میں وہ جماعت اہلسنت سے خارج ہے لیکن اثبا ت صفات اورانکا ر تاویل کے وقت ایسا شخص اہل سنت میں داخل نہیں ہوگا مثلا اشاعرہ اوران جیسے دیگر لوگوں نے اثبات صفات کے مسئلہ میں اہل سنت کی مخالفت کی ہے اوران کے راستے کوانہوں نے اختیار نہیں کیا لہذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ تاویل صفات کے  باب میں ان کے موقف کو صیح ماننے سے انکار کردیا جائے اوران کی غلطی کو واضح کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ یہ موقف اہل سنت کے موقف کے خلاف ہے جیسا کہ اس مقالہ  کے شروع میں بھی اس کا بیان گزر چکا ہے لہذا اس بات میں کوئی  امر مانع نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ اشاعرہ باب اسماء وصفات میں اہل سنت میں سے نہیں ہیں اگرچہ دیگر ابواب میں یہ اہل سنت میں سے ہیں تاکہ ان کے مذہب کا مطالعہ کرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ بعض صفات کی تاویل میں انہوں نے غلطی کی ہے اوراس مسئلہ میں انہوں نے حضرات صحابہ و تابعین کی مخالفت کی ہے ،ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ حق کا اثبات اورباطل کی نفی ہواوراہل سنت واشاعرہ میں سے ہر ایک کو وہ مقام ومرتبہ دیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔

یہ مطلقا جائز نہیں ہے  کہ  تاویل کو اہل سنت کی طرف منسوب کیا جائے کیونکہ تاویل تو ان کے مذہب کے خلاف ہےلہذا تاویل کو اشاعرہ اور دیگر تمام اہل سنت کی طرف منسوب کیا جائے گا جنہوں نے نصوص کی نا جائز طور پر تاویل کی ہے ۔

اہل سنت کی تاویل کے سلسلہ میں برادرصابونی نے جو مثالیں پیش کی ہیں،یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتیں کیونکہ اہل سنت کا یہ کلام باب تاویل میں سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تو معنی کی وضاحت اورمعنی کے بارے میں لوگوں کے شکوک وشبہات کے ازالہ سے ہے،چنانچہ ان کی پیش کردہ مثالوں کا مفصل جواب حسب ذیل ہے ،

چنانچہ ارشاد باری تعالی :

﴿نَسُوا اللَّـهَ فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۶۷/۹)

‘‘انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا۔’’

میں نسیان سے مراد وہ نسیان نہیں ہے جو حسب ذیل ارشادباری میں مراد ہے:

﴿وَمَا كَانَ رَ‌بُّكَ نَسِيًّا﴾ (مریم۱۹/۶۴)

‘‘اورتمہارا پروردگاربھولنے والانہیں۔’’

اورجو حسب ذیل میں مراد ہے:

﴿فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَ‌بِّي وَلَا يَنسَى﴾ (طہ۲۰/۵۲)

‘‘جو کتاب میں(لکھا ہوا ہے)میراپروردگار چوکتا ہےنہ بھولتاہے۔’’

بلکہ یہ نسیان جس کی نفی کی جارہی ہے ،اس کے اورمعنی ہیں اوروہ نسیان جس کا ارشادباری تعالی:

﴿نَسُوا اللَّـهَ فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۶۷/۹)

‘‘انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا۔’’

میں اثبات ہے ،اس کے اورمعنی ہیں اوروہ یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں ان کی ضلالت میں چھوڑ رکھا ہےاوران سے اعراض فرمارکھا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے اوامرکو ترک کررکھا ہے اوراپنے نفاق اورتکذیب کی وجہ سے اس کے دین سے اعراض کررکھا ہے اورجس نسیان کی اللہ تعالی نے اپنی ذات گرامی کے حوالہ سے نفی کی ہے ،یہ ذہول وغفلت کے معنی میں ہے اوراس سے اللہ تعالی اپنے کمال علم ،اپنے بندوں کے حالات کے بارے میں کمال بصیرت اوران کے تمام امور ومعاملات کے احا طہ کی وجہ سے پاک ہے ،وہ زندہ ہے ،ہمیشہ رہنے والا کہ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند ،وہ بھولتا ہے نہ غافل ہوتا ہے ،ان عیوب ونقائص سے اللہ تعالی بلندو بالا اورارفع واعلی ہے ،اس سے معلوم  ہوا کہ ارشاد باری تعالی :

﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُ‌ونَ بِالْمُنكَرِ‌ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُ‌وفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّـهَ فَنَسِيَهُمْ﴾ (التوبۃ۶۷/۹)

‘‘منافق مرد اورمنافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس (یعنی ایک ہی طرح کے)ہیں،برے کام کرنے کو کہتے اورنیک کاموں سےمنع کرتے اور(خرچ کرنے سے)ہاتھ بند کئے رہتے ہیں،انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تواللہ نے ان کو بھلا دیا۔’’

میں نسیان کی تفسیر میں یہ کہنا کہ اللہ تعالی نے انہیں ان کی ضلالت میں چھوڑ دیا ،تاویل نہیں بلکہ یہ تو لغوی معنی کے اعتبار سے اس مقام کی تفسیر ہے کیونکہ لفظ نسیان کے اس استعما ل کے اعتبار سے معنی مختلف ہیں جیسا کہ علماء تفسیر نے بیان فرمایا ہے،چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نَسُوا اللَّـهَ یعنی‘‘وہ اللہ کے ذکر کو بھول گئے۔’’فَنَسِيَهُمْتواللہ تعالی نے ان سے اس طرح معاملہ کیا جیسے وہ ان کو بھو ل گیا ہو،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا﴾ (الجاثیۃ۴۵/۳۴)

‘‘اور کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے اس دن کے آنے کو بلا رکھا تھا،اسی طرح آج ہم تمہیں تمہیں بلادیں گے۔’’

اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جو یہ ذکر فرمایا ہے کہ وہ استہزاء کرنےوالوں کے ساتھ استہزاء کرتا ہے،مذاق کرنے والوں کے ساتھ مذاق کرتا ہے،مکر کرنے والوں کے ساتھ مکر کرتا ہے،فریب کرنے والوں کو فریب دیتا ہے،تو اس کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے عمل کے مطابق معاملہ کرتا ہے،جب اللہ تعالیٰ کا مذاق کرنے والوں سے مذاق حق ہے نیز مکر کرنے والوں سے فریب حق ہے تو اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ان الفاظ کا جواستعمال ہوا ہے،تو یہ اس طریقہ سے ہے جو اس کی عظمت وجلالت کے لائق ہو اور مخلوق سے جس کی مشابہت نہ ہو،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے تو ان افعال کو حق کے خلاف عناد،کفراور انکار کی خاطر کیا،تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ان کے افعال کے مطابق معاملہ کیا لیکن اس طرح نہیں کہ ان کے افعال سے اس کی مشابہت ہو بلکہ اس طرح کہ اس کی کیفیت کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوااور کوئی جانتا ہی نہیں ہے اور پھر اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے ان ہر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ان سے فریب،مکر،مذاق اور استہزاء کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس نے ان کو مہلت دے رکھی ہے اور انہیں وہ فورا سزا نہیں دے رہا،اسی طرح اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ قیامت کے دن منافقوں کے لئے کچھ نور کو ظاہر کرے گا لیکن پھر ان سے اس نور کو سلب کرلے گا جیسا کہ اس نے سورہ حدید میں اس کا اس طرح ذکر فرمایا ہے:

﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ قِيلَ ارْ‌جِعُوا وَرَ‌اءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورً‌ا فَضُرِ‌بَ بَيْنَهُم بِسُورٍ‌ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّ‌حْمَةُ وَظَاهِرُ‌هُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَـٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَ‌بَّصْتُمْ وَارْ‌تَبْتُمْ وَغَرَّ‌تْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ‌ اللَّـهِ وَغَرَّ‌كُم بِاللَّـهِ الْغَرُ‌ورُ‌ ﴿١٤﴾ فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ‌ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌﴾ (الحدید۵۷/۱۳۔۱۵)

‘‘اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر(شفقت)کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جائے اور(وہان)نور تلاش کرو،پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب،تو منافق لوگ مومنوں سے کہیں گے کہ کیا ہم(دنیا میں)تمہارے ساتھ نہ تھے!وہ کہیں گے کیوں نہیں تھے،لیکن تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور(ہمارے حق میں)حوادث کے منتظر رہے اور(اسلام میں)شک کیا اور(الاطائل)آرزوؤں نے تم کو دھوکا دیا،یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور اللہ کے بارے میں دغاباز تم کو دغا دیتا رہا۔تو آج تم سے معاوضہ نہیں لیا جائے گا اور(وہ)کافروں ہی سے(قبول کیا جائے گا)تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے(کہ)وہی تمہارے لائق ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے’’

اہل سنت کے علماءتفسیر نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں،چنانچہ امام ابن جریرؒنے ارشاد باری تعالیٰ:

﴿اللَّـهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ﴾(البقرۃ۱۵/۲)

‘‘ان(منافقوں)سے اللہ ہنسی کرتا ہے۔’’

کی تفسیر کے بارے میں علماءکے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں ہمارے نزدیک صحیح قول اور صحیح تفسیر یہ ہے کہ عربی زبان میں استہزاء کے معنی یہ ہیں کہ استہزاء کرنے والا اس کے سامنے جس سے استہزاءکیا جارہاہوایسے قول وفعل کو ظاہر کرے جو ظاہری طور پر اسے خوش کردے لیکن باطنی طورپر اپنی طرف اوراپنے فعل سے وہ اسے درحقیقت غم پہنچارہا ہواسی طرح خداع(دھوکا)سخریہ (مذاق)اورمکر(فریب)کے معنی بھی یہی ہیں کہ جب ان لوگوں نے یہ طرز عمل توان کے ساتھ معاملہ بھی اسی طرح کا کیا گیا یعنی جب منافقوں نے اپنی زبانوں سے بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ اللہ ،اس کے رسول اورجو دین وہ (رسول)لائے ہیں اسے تسلیم کرتے ہیں تواللہ تعالی نے بھی انہیں بظاہر مسلمانوں میں شمار کیا اگرچہ باطنی طورپر وہ ان سچے مسلمانوں میں شمار نہ تھے جنہوں نے اپنی زبانوں ،ضمیروں ،دلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے اورصیح ارادوں کے ساتھ اقرار کیا اوران کے قابل ستائش اعمال نے ان کے ایمان کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کی  لیکن منا فقین کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔اللہ تعالی کو اگرچہ ان کے کذب کا علم اوران کے خبیث اعتقاد کی اطلاع تھی اورمعلوم تھا کہ اپنی زبانوں سے جس کے یہ دعویدار ہیں،اس کے بارے میں یہ خود شک میں  مبتلا ہیں اگرچہ بظاہر یہ اس کی تصدیق کرتے تھے ،حتی کہ جب آخرت میں انہیں انہی لوگوں میں اٹھایا جائے گاجن میں یہ دنیا میں شمار ہوتے تھے تو یہ گمان کرنے لگیں گے کہ جہاں وہ (یعنی اہل ایمان )جائیں گے وہاں یہ بھی جائیں گے،جہاں وہ داخل ہوں گے،وہاں یہ بھی داخل ہوں گے،اللہ تعالی نے بھی اگرچہ ان کے لئے احکام کو ظاہر فرمایا جنہوں نے انہیں دنیا میں بھی ان کے ساتھ ملائے رکھا اورآخرت میں بھی اس وقت تک انہی کے ساتھ رکھے گا،جب وہ ان میں اور اپنے دوستوں میں فرق کرتے ہوئے ان کو دردناک سزااورخوفناک جہنم سے دوچارکردے گااورانہیں جہنم کے اس سب سے نیچے کے طبقے میں پہنچائے گا جسے اس نے اپنے سب سے بڑے دشمنوں اوربدترین انسانوں کے لئے تیار کیا ہے۔اللہ تعالی کا ان کے ساتھ اس طرح کرنا ان کے افعال کی سزا ہے اور اللہ تعالی کا ان کے ساتھ یہ معاملہ مبنی برعدل وانصاف ہے ،اللہ تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے وہ اسی بات کے مستحق تھے کہ ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے دنیا میں اللہ تعالی نے ان کےلئے بھی وہ احکام رکھے جو اس کے دوستوں کے لئے تھے حالانکہ یہ منافق اس کے دشمن تھے ،آخرت میں انہیں مومنوں کے ساتھ ہی اٹھائے گا حالانکہ دنیا میں یہ اللہ تعالی کی تکذیب کرنے والے تھے تاآنکہ وہ لمحہ آجائے گا جس میں اللہ تعالی اپنے سچے مومن بندوں اورمنافقوں میں فرق کردے گا کہ وہ منافقوں کے ساتھ استہزاء،مذاق ،خداع اورمکر کرے گا۔جب کہ ان الفاظ کہ وہ معنی ہوں جو ہم نے ابھی بیان کئے ہیں۔

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ،ارشادباری تعالی:

﴿يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ﴾ (الحدید۵۷/۱۳)

‘‘اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر(شفقت)کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔۔۔۔۔۔۔’’

کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ ہم سے ہمارے والد ابوحاتم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدہ سلیمان نے بیان کیا ،انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن مبارک نے اورانہوں نے کہا ہم سے صفوان بن عمرونے بیا ن کیا اور انہوں نے کہا کہ  مجھ سے سلیم  بن عامر نے بیان کہ ہم ایک جنازہ کے ساتھ باب دمشق کی طرف گئے اورابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ تھے ،جب نماز جنازہ پڑھی گئی اورلوگوں نے میت کو دفن کرنا شروع کردیا توابوامامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘‘لوگو!اب تو تم ایک ایسی جگہ صبحیں اورشامیں بسرکررہے ہو،جس میں تم نیکیوں اوربرائیوں کو حاصل کررہے ہو اورممکن ہے کہ عنقریب تم ایک دوسری جگہ چلے جاو اوروہ یہ ہے ۔۔۔قبر کی طرف اشارہ کرتےہوئے ۔۔۔اوریہ تنہائی،تاریکی اورکیڑوں کا گھر ہے اوربہت تنگ ہے الایہ کہ اللہ تعالی اسے کشادہ فرمادے اورپھر یہاں سے تم

رو زقیامت کے مقامات کی طر ف منتقل کئے جاوگے۔تم انہی مقامات میں ہوگے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایسی چیز لوگوں کو ڈھانپ لے گی۔جس سے کچھ چہرے سفید اورکچھ سیاہ پڑ جائیں گے ،پھر تمہیں ایک او ر منزل کی طر ف منتقل کردیا جائے گا جہاں لوگوں کو شدید ظلمت اورتاریکی نے ڈھانپ رکھا ہوگا پھر وہاں نور تقسیم ہوگا مومن کو نوردیا جائے گا لیکن کافر اورمنافق کو کچھ بھی نہ دیا جائے گا اوریہی وہ مثال ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:

﴿أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ‌ لُّجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَ‌جَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَ‌اهَا ۗ وَمَن لَّمْ يَجْعَلِ اللَّـهُ لَهُ نُورً‌ا فَمَا لَهُ مِن نُّورٍ‌﴾ (النور۲۴/۴۰)

‘‘یا(ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے )جیسے دریائے عمیق میں اندھیرے ،جس پر لہر چڑھی چلی آتی ہے(اور)اس کے اوپر اورلہر(آرہی ہواور)اس کے اوپر بادل ہو غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک (چھایا ہوا)،جب اپنا ہاتھ نکالے تو کچھ نہ دیکھ سکے اورجس کو اللہ روشنی نہ دے اس کیلئے (کہیں بھی )روشنی نہیں(مل سکتی)’’

کافرومنافق ،مومن کے نور سے روشنی حاصل نہ کرسکیں گے جس طرح اندھا بینا کی بصارت سے روشنی حاصل نہیں کر سکتا،منافق مرد اورمنافق عورتیں مومنوں  سے کہیں گے:

﴿انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ قِيلَ ارْ‌جِعُوا وَرَ‌اءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورً‌ا﴾ (الحدید۵۷/۱۳)

‘‘ہماری طرف نظر(شفقت)کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاو اوروہاں نور تلاش کرو’’

یہ اللہ تعالی کی طر ف سے وہ دھوکا ہوگا جو وہ منافقوں کو دے گا۔

جیسا کہ اس نےفرمایاہے:

﴿يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ﴾ (النساء۱۴۲/۴۔۱۴۳)

‘‘یہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں(یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے)وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔’’

یہ اس جگہ واپس آئیں گے جہاں نور تقسیم ہوا تھا مگر وہاں اب یہ کچھ بھی تو نہ پائیں گے لہذا یہ مومنوں کے پا س جائیں گے توان کے درمیا ن ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا کہ :

﴿بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّ‌حْمَةُ وَظَاهِرُ‌هُ مِن قِبَلِهِ﴾ (الحدید۵۷/۱۳)

‘‘اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب’’

سلیم بن عامر بیان کرتے ہیں کہ نورتقسیم ہونے اورمنافق ومومن میں تمیز ہونے تک منافق مبتلائے فریب ہی رہے گاپھر انہوں نے اپنے والد گرامی ،یحیی بن عثمان ،

ابن حیوۃ،ارطاۃبن منذر،یوسف بن حجاج کی سند کے ساتھ ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے راویت کیا ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن اس قدر شدید ظلمت وتاریکی طاری کردے گا کہ کوئی مومن یا کافر اپنے ہاتھ تک کو بھی نہ دیکھ سکے گا پھر اللہ تعالی مومنوں پر ان کے اعمال کے بقدر نور پھیلا دے گا تو منافقین ،مومنوں کے پیچھے لگ جا ئیں گے اورکہیں گے:

﴿انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ﴾ (الحدید۵۷/۱۳)

‘‘ہماری طرف نظر(شفقت)کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔’’

عوفی ،اورضحاک وغیرہ ھمانے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ لوگ جب ظلمت اور تاریکی میں مبتلا ہوں گے تو اللہ تعالی نور پھیلا دے گا،مومن جب اس نور کو دیکھیں گے تواس کی طر ف متوجہ ہوں گے اوریہ نور گویا اللہ تعالی کی طرف سے مومنوں کے لئے جنت کی رہنمائی کرے گا ،منافق جب دیکھیں گے کہ مومن چل پڑے ہیں تو وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑیں گے تو اللہ تعالی منافقوں پر اندھیرا طاری کردے گاتو اس وقت وہ مومنوں سے کہیں گے کہ 

﴿انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ﴾ہم دنیا میں تمہارے ساتھ تھے تومومن کہیں گے کہ جاو واپس اس مقام پر تاریکی میں لوٹ جاو،جہاں سے تم آئے ہو اوروہاں نور تلاش کرو۔’’ (تفسیر ابن کثیر)

یہ جو ہم نے ابن جریر اورابن کثیررحمۃ اللہ علیھما کے حوالہ ذکر کیا ہے اس سے قاری کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ،کافروں کے ساتھ مکرومذاق،منافقوں کے ساتھ دھوکاواستہزاءاوراپنے دشمنوں کے ساتھ فریب مبنی برحقیقت  ہے اوریہ کسی تاویل کا محتاج نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے یہ حق وعدل پر مبنی ہے اوراس کی طرف سے کافروں اورمنافقوں کے عمل کی اس طرح سزا ہے جس طرح اس کی ذات گرامی کے لائق ہے اوریہ اس طرح نہیں ہے جس طرح اس کے دشمنوں سے اس کا ظہورہوا کیونکہ اللہ تعالی کی صفات اورافعال مخلوق میں سے کسی کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتے بلکہ یہ اس طرح ہیں جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہیں، اوراللہ تعالی کی یہ تمام صفات اورافعال حق اورعدل ہیں اوراللہ تعالی کے سوا ان کی کیفیت کو بھی اورکوئی نہیں جانتا،بندگان الہی صرف اس قدرجانتے ہیں جو اس نے اپنی کتا ب کریم میں بیان فرمادیا جسے اس نے اپنے رسول امین ﷺ کی زبانی فرمادیا ہے۔

(۱۸)صابونی نے ابن تیمیہ ؒ کا حوالہ غلط دیا ہے۔ صابونی نے اپنے چھٹے مقالہ اوربعض سابقہ مقالوں میں بھی لکھا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ‘‘علماءفروع دین کے مددگارہیں جب کہ اشاعرہ اصول دین کے مددگارہیں۔’’

صابونی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اس قول کو منسوب کرتے ہوئے فتاوی جلد ۴ کا حوالہ دیا ہے۔ج ۴،ص،۱۶کی طرف مراجعت کرنے سے معلوم ہواکہ یہ قول فقیہ ابومحمد کا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا نہیں،اس سے معلوم ہوا کہ برادرصابونی سے یہ قول نقل کرتے ہوئے غلطی ہوگئی ہے اوراگر الفرض اس قول کو صیح مان بھی لیا جائے تواس کے یہ معنی تو نہیں کہ اشاعرہ کی غلط بات کی بھی تردید نہ کی جائے کیونکہ شرعی قاعدہ یہ ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ‘‘عالم کی جو بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی اس پر اس کی تعریف کی جائے گی اورجو کتاب وسنت کے مخالف ہوگی اس کی تردید کی جائے گی’’امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کاقول مبنی برحق ہے،اہل سنت والجماعت کابھی یہی موقف ہے اشاعرہ اوردیگر لوگوں نے اصول دین اوردیگر موضوعات پر حق کی حمایت میں جو کہا یا لکھا وہ قابل ستائش ہے اوران سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ،ان کی تردید کی جائے گی تاکہ حق ثابت ہوجائے اورباطل کی تردید ہوجائے تاکہ کم علم لوگوں کے لئے کوئی بات مشتبہ نہ رہے۔’’واللہ المستعان۔

(۱۹)ضعیف حدیث سے استدلال جائز نہیں ۔۔۔کلمہ گومسلمان سے زبان روکنے کے یہ معنی نہیں کہ اس کی غلطیوں کو بھی واضح نہ کیا جائے۔

صابونی نے اپنے چھٹے مقالہ میں ذکر کیا  ہے کہ‘‘صیح حدیث میں ہے کہ تین چیزیں اصول ایمان میں سے ہیں (۱)اس سے رک جانا جس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔(۲)گناہ کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر قراردینا۔(۳)تقدیر کے ساتھ ایمان لانا

جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

لیکن حدیث کی معتبر کتابوں کی طرف جب ہم نے مراجعت کی تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث بہت ضعیف ہے ،علامہ سیوطیؒ نے ‘‘جامع’’میں اس کے ضعف کی نشاندہی کی ہے ۔امام ابوداود نے اسے بطریق یزید بن ابی نشبہ ،حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن یہ راوی یزید مجہول ہے جیسا کہ ‘‘تہذیب’’اور‘‘تقریب’’میں ہے ،مناوی نے ‘‘فیض القدیر’’میں لکھا ہے کہ یزید بن ابی نشبہ (نون کے ضمہ کے ساتھ)کی  روایت امام ابوداود کے سوا مولفین کتب ستہ میں سے اورکسی نے بیان نہیں کی اوریہ راوی مجہول ہے ،جیسا کہ مزی اور دیگر ائمہ نے بیان کیا ہے۔

اس سےمعلوم ہو ا کہ بردارصابونی نے اس حدیث کو جو صیغہ جزم کے ساتھ صیح لکھا ہے،تویہ درست نہیں ہے،اس حدیث کو صیغہ تمریض روی (روایت کیا گیا ہے)کے ساتھ بیان کرنا چاہئے جیسا کہ اہل علم نے ضعیف احادیث بیان کرنے کے لئے یہ اسلوب اختیار کیا ہے اورپھربردارصابونی نے وہ الفاظ بھی صیح طور پر نہیں لکھے جو اس حدیث میں آئے ہیں ۔لہذا ہم اتمام فائدہ کے لئے ابوداودسے اس کے الفاظ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔امام ابوداود نے اسے سعید بن منصور ،ابومعاویہ ،جعفربن برقان ازیزید بن ابی نشبہ کی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘‘تین چیزیں اصل ایمان ہیں (۱)اس سے رک جانا جس نے لا الہ الا اللہ پڑھ لیااسے کسی گناہ کی وجہ سے کافر قرارنہ دواورنہ کسی عمل کی وجہ سے اسلام سے خارج قراردو(۲)جب سے اللہ تعالی نے مجھے مبعوث فرمایا ہےاس وقت سے لے کر اس وقت تک جہاد باقی رہے گا جب میری امت کا آخری شخص دجال سے لڑےگا،اسےکسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل ختم نہ کرسکے گااور(۳)تقدیر پر ایمان لانا’’ اس حدیث کے ہم معنی کچھ دیگر صیح احادیث بھی ہیں لہذا اہل سنت والجماعت کا قول ان کے مطابق ہے ،چنانچہ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورحضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اورپھراس گواہی کے معنی کی پابندی کرے اورکوئی ایسا کام  نہ کرے جو اسلام کے منافی ہو تواس سے رک جانا واجب ہے اوراس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے جیسا کہ بخاری ومسلم کی اس حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی  کریم ﷺ نے فرمایا ‘‘مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اورمحمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اورنماز پڑھیں اورزکوۃ اداکریں،جب وہ یہ کام کریں گے تو مجھ سے اپنے خونوں اورمالوں کو بچالیں گے مگر بجز اسلام کے حق کے اوران کا حساب اللہ عزوجل کے سپرد ہوگا۔’’خوارج کے برعکس اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ شرک کے سوا کسی اورگناہ کی وجہ سے مسلمان کو کافر قرارنہیں دیا جاسکتا اورکسی ایسے عمل کی  وجہ سے جو اسے مشرکوں کے ساتھ نہ ملائے،اسلام سے خارج نہیں قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ

ارشادباری تعالی ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء۴/۴۸) 

‘‘اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوااور گناہ  جس کو چاہےگامعاف کر دے گا۔’’

برادر صابونی نے اس حدیث کو اسی لئے ذکر کیا تھا کہ وہ یہ استدلال کریں کہ یہ واجب ہے کہ اشاعرہ کے بارے میں یہ بات نہ کی جائے ،ان کی غلطیوں کو واضح نہ کیا جائے،اسی طرح دیگر اسلامی فرقوں نے جو غلطیاں کی ہیں ،انہیں بھی واضح نہ کیا جائے لیکن ان کا یہ خیا ل بھی صیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ حدیث صیح بھی ہو تواس کے یہ معنی نہیں کہ جو حق کی  مخا لفت کرے اس سے رک جانا بھی واجب ہے،نہ اس کے یہ معنی ہیں کہ امربالمعروف اورنہی عن المنکر کوترک کردیا جائے اورنہ اس کا یہ مفہوم ہے کہ اشاعرہ اوردیگر لوگوں کی خطاوں اورغلطیوں کو بھی بیان نہ کیا جائے بلکہ کتا ب  اللہ اورصیح سنت کے تمام دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ واجب ہے کہ نیکی کا حکم دیا جائے ،برائی سے منع کیا جائے اورمخالف حق کی تردید کی جائے اورراہ راست کی طرف اس کی ر اہنمائی کی جائے تاکہ جو مرنا چاہے وہ بھی دلیل سے مرے اورجو جینا چاہے وہ بھی دلیل کی بنیاد پر جیئے ،جیسا کہ قبل ازیں بھی بیان کیا ہے۔اگرمذکورہ حدیث صیح بھی ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اسلام کا  اظہار کرے وہ کلمہ توحید کا اقرارکرے تو اس سے لڑنے سے رک جانا ہوگا اورپھر اس کا جائزہ لے کر،ادلہ شرعیہ کے مطابق اس سے وہ معاملہ ہوگا جس کا وہ مستحق ہے ،جیسا کہ اس پر وہ صیح احادیث دلالت کناں ہیں جن کی طرف ہم نے ابھی ابھی اشارہ کیا ہے۔

والله سبحانه ولي التوفيق’وهو حسبنا وهو نعم الوكيل’ولا حول ولا قوة الابالله

شیخ صابونی کے افکاروخیالات پر  ہمارا تبصرہ اختتام پذیر ہوا۔

والحمدلله رب العالمين’ وصلي الله وسلم علي عبده ورسوله وامينه علي وحيه وصفوته في خلقه’امام المجاهدين’ورسول رب العالمين’نبينا محمد’ وعلي آله وآصحابه’ومن سلك سبيله’واهتدي بهداه الي يوم الدين


فتاوی مکیہ

تبصرے