شریعت الہیہ کانفاذ اورغیرشرعی قوانین کا انکار واجب ہے
الحمدلله رب العالمين’واشهد ان لااله الاالله وحده لاشيك له’اله الاولين والاخرين’ ورب الناس اجمعين’مالك الملك’الواحد الاحد الفردالصمد’الذي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْوَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ’ واشهدان محمد عبده ورسوله’صلوات الله وسلامه عليه’بلغ الرسالة وادي الامانة’وجاهد في الله حق جهاده’وترك امته علي المحجة البيضاء ليلها كنهارها’لايزيغ عنها الاهالك _ امابعد:
ایک مختصر رسالہ اورضروری نصیحت ہے جس کا موضوع ہے‘‘ شریعت الہیہ کانفاذ اورغیرشرعی قوانین کا انکار واجب ہے’’یہ رسالہ میں نے یہ دیکھ کر لکھا ہے کہ اس زمانے میں بعض لوگ اللہ تعالی کی شریعت کے بجائے دیگر احکام وقوانین کو اپنائے ہوئے ہیں اوروہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ (ﷺ)کو چھوڑ کرنجومیوں ،کاہنوں ،بادیہ نشین خاندانوں کے سربراہوں اوروضعی قوانین کے ماہروں سے وابستہ ہیں۔کچھ لوگوں کا یہ طرز عمل جہالت کی وجہ سے ہے جب کہ کچھ لوگوں کایہ طرز عمل اللہ تعالی کے رسول (ﷺ)سے عناداوردشمنی پر مبنی ہے ۔امید ہے کہ میری یہ نصیحت جاہلوں کے لئے باعث علم،غافلوں کے لئے موجب نصیحت اوربندگان الہی کے لئےصراط مستقیم پر استقامت کا سبب قرارپائے گی،ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات۵۱/۵۵)
‘‘اورنصیحت کرتے رہیں یقینا یہ نصیحت مومنوں کو نفع دے گی۔’’
اورفرمایا:
﴿وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ﴾
(آل عمران۳/۱۸۷)
‘‘اورجب اللہ تعالی نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ (اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے)اسے صاف صاف بیان کرتے رہنااوراس(کی کسی بات)کو نہ چھپانا۔’’
اللہ تعالی ہی سے دعا ہے کہ وہ اس سے نفع پہنچائے،مسلمانوں کو توفیق بخشے کہ وہ اس کی شریعت کی پابندی کریں،اس کی کتاب کے احکام وقوانین کو نافذ کریں اورنبی کریم حضرت محمد ﷺکی سنت مطہرہ کی پیروی کریں۔
برداران اسلام!
اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾(الذاریات۵۶/۵۱)
‘‘اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔’’
اور فرمایا:
﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾(الاسراء۱۷/۲۳)
‘‘اور تمہارے پروردگار نے فیصلہ دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔’’
نیز فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾(النساء۳۶/۴)
‘‘اور اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو۔’’
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ میں گدھے پر نبی کریمﷺکے پیچھے سوار تھا،آپﷺنے فرمایا‘‘معاذ!کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟’’میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا‘‘اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں،وہ انہیں عذاب نہ دے۔’’میں نے عرض کیا‘‘یارسول اللہ!کیا میں لوگوں کو یہ بشارت نہ سنادوں؟’’فرمایا‘‘نہیں،انہیں مشارت نہ سناؤ ورنہ وہ اسی پر توکل کرکے بیٹھ جائیں گے؟’’(بخاری ومسلم)
علماءؒ نے عبادت کی تعریف میں کئی اقوال ذکر کئے ہیں،ان میں سب سے جامع تعریف وہ ہے جو شیخالاسلام ابن تیمیہؒ نے ان الفاظ بیان فرمائی ہے کہ‘‘عبادت ان تمام ظاہری وباطنی اقوال واعمال کا ایک جامع نام ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا اور جن سے خوش ہوتا ہے۔’’اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان امر،نہی،اعتقاد،قول اور عمل ہر ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے لئے کاہل اطاعت وفرماں برداری کو اختیار کرے۔اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کی شریعت پر استوار ہو،اللہ تعالیٰ نے جسے حلال قرار دیا ہے،اسے حلال اور جسے حرام قرار دیا ہے،اسے حرام سمجھے۔اپنے سیرت وکردار اور اعمال وافعال میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پابندی کرے اور اس سلسلہ میں نفسیاتی خواہشات سے دور رہے اور یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ فرد ہو یا معاشرہ،مرد ہو یا عورت۔یاد رہے وہ شخص اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار کہلانے کا مستحق نہیں ہے جو زندگی کے بعض پہلوؤں میں تو اپنے رب کے حکم کی اطاعت کرے اور بعض دیگر پہلوؤں میں وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے مخلوق میں سے کسی کے حکم کی پابندی کرے،جیسا کہ اس کی تائید حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے ہوتی ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾(النساء۶۵/۴)
‘‘تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے تنازعات(تمام اختلافات)میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں۔’’
نیز درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
﴿أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ (المائدۃ۵۰/۵)
‘‘کیا یہ لوگ پھر سے زمانۂ جاہلیت کے حکم اور فیصلہ کے خواش مند ہیں اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں،ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے اچھا حکم اورفیصلہ کس کا ہے؟’’
اسی طرح رسول اللہﷺنے جو یہ فرمایا ہے تو اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہیں ہوجاتی،جسے میں لے کر آیا ہوں۔’’آدمی کا ایمان صرف اس صورت مین مکمل ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے،چھوٹے بڑے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ پر راضی ہو اور زندگی کے ہر معاملہ میں خواہ اس کا تعلق جان سے ہو یا مال سے یا عزت وآبرو سے،فیصلہ کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت کی طرف رجوع کرے،ورنہ وہ اللہ کا نہیں غیراللہ کا پجاری ہوگا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ﴾(النحل۳۶/۱۶)
‘‘اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو!اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں(کی پرستش)سے اجتناب کرو۔’’
جو شخص اللہ سبحانہ وتعالی کے سامنے سراطاعت جھکادے (یعنی سرتسلیم خم کردے)اوراس کی وحی سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرائے تووہ اللہ تعالی کا عبادت گزار ہے اورجوشخص غیر اللہ کے سامنے سراطاعت جھکادے اورغیر شریعت سے فیصلے کرائے تو اس بے بتوں کی عبادت کی اوران کی اطاعت وبندگی اختیار کی ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:
﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾ ( النساء۴/۶۰)
‘‘کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب)تم پر نازل ہوئی اورجو (کتابیں)تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اورچاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ غیراللہ کے پاس لے جاکرفیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ شیطان کا انکار کریں اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر (سیدھے )راستے سے دورڈال دے۔’’
عبودیت صرف اللہ وحدہ ہی کے لئے ہےلہذا طاغوت کی عبادت سے اور اس سے مقدمات کا فیصلہ کرانے سے اظہاربرات کرنا کلمہ شہادت کا تقاضا ہے،جس میں آدمی یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے سوا کوئی معبود (برحق )نہیں اورحضرت محمد ﷺاس کے بندے اوررسول ہیں ۔اللہ سبحانہ وتعالی تمام لوگوں کا رب اورمعبود ہے،وہی ان کا خالق ہے،وہی انہیں حکم دیتا اورمنع کرتا ہے،وہی موت وحیات کا مالک ہے ،وہی ان سے حساب لے گا اورجزاوسزادے گالہذاصر ف اورصرف وہی مستحق عبادت ہے،اس کے سوا کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں ،ارشادباری تعالی ہے:
﴿أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ﴾ (الاعراف۷/۵۴)
‘‘یاد رکھو! اللہ ہی کے لئے خاص ہےخالق ہونا اورفرماں روائی کرنا(یعنی حاکم ہونا) ’’
جس طرح خالق صرف اللہ وحدہ ہے ،اس طرح آمر بھی صرف وہی ہے اوراس کے امرکی اطاعت واجب ہے۔اللہ تعالی نے یہودیوں کے حالات ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالی کو چھوڑ کراپنے علماء ومشائخ کواپنارب بنالیا تھا کیونکہ وہ جب اللہ تعالی کے حرام کردہ کو حلال اورحلال کردہ کو حرام قراردےدیتے تویہودی ان کی اطاعت کرتے تھے ،ارشاد باری تعالی ہے:
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (التوبۃ۳۱/۹)
‘‘انہوں نے اپنے علماء اورمشائخ اورمسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوران لوگوں کے شریک مقررکرنے سے پا ک ہے۔’’
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نےیہ گمان کیاکہ علماء ومشائخ کی عبادت شاید یہ ہے کہ ان کے نام پر ذبح کیا جائے یا ان کے نام کی نذر مانی جائے یا انہیں رکوع وسجود کیا جائے ،اس لئے جب وہ مسلمان ہونے کے لئے نبی کریمﷺکی خدمت میں حاظر ہوئے اورانہوں نے آپ کو اس آیت کریمہ کی تلاوت کرتے ہوئے سناتوعرض کیا ‘‘یا رسول اللہ!ہم۔۔۔یعنی عیسائی کیونکہ اسلام سے قبل حضرت عدی کا تعلق عیسائیت سے تھا۔۔۔ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔’’تورسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘ کیا یہ بات نہ تھی کہ اللہ تعالی نے جن اشیاء کو حلال قراردیا تھا ،علماء ومشائخ انہیں حرام قراردےدیتے تھے توتم لوگ بھی انہیں حرام سمجھنے لگ جاتے تھے اوروہ جب اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قراردیتے تھے توتم لوگ بھی انہیں حلال سمجھنے لگ جاتے تھے؟’’حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا‘‘جی ہاں،یہ بات توتھی۔’’توآپ نے فرمایا‘‘بس یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔’’(احمد۔۔۔امام ترمذی نےاس حدیث کوحسن قراردیا ہے)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس لئے تو اللہ تعالی نے فرمایاہے: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا﴾ (التوبۃ۳۱/۹)
‘‘ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں،’’
یعنی اللہ تعالی جب کسی چیز کو حرام قراردے دے تووہ حرام ہے اورجس چیز کو حلال قراردے دے بس وہی حلال ہے۔ اللہ تعالی جسے شریعت قراردے اس کی پیروی کی جائے ،وہ جو حکم دے اسے نافذ کیا جائے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان لوگوں کے شریک مقررکرنے سے پاک ہے یعنی وہ شرکا ء،نظرا،اعوان،اضداداوراولادوغیرہ سے پاک ہے،اس کے سوال کوئی معبود ہے اورنہ رب !
(تفسیرابن کثیر ،ج۲،ص:۳۴۹) جب یہ حقیقت معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالی کی شریعت سے اپنے مقدمات کے فیصلے چاہنا یہ اس شہادت کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کومعبود نہیں اورحضرت محمدﷺاس کے بندے اوررسول ہیں تواس سے یہ بھی معلوم ہواکہ طاغوتوں،حکمرانوں اورنجومیوں وغیرہ سے اپنے فیصلے کرانا اللہ عزوجل کی ذات گرامی پر ایمان کے منافی ہے اور کفر،ظلم اورفسق ہے،چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ (المائدہ۵/۴۴)
‘‘اورجولوگ اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں توایسے ہی لوگ کافر ہیں۔’’
اورفرمایا:
﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (المائدہ۵/۴۵)
‘‘اورہم نے ان لوگوں کے لئے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اورآنکھ کے بدلے آنکھ اورناک کے بدلے ناک اورکان کے بدلے کان اوردانت کے بدلے دانت اورسب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہےلیکن جو شخص بدلہ معاف کردے تووہ اس کے لئے کفارہ ہوگااور جو شخص اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے توایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔’’
نیز فرمایا:
﴿وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (المائدہ۵/۴۷)
‘‘اوراہل انجیل کو چاہئے کہ جو احکام اللہ نے اس انجیل میں نازل فرمائے ہیں ان کے مطابق فیصلہ کریں اور جو اللہ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں توایسے لوگ نافرمان ہیں۔’’
اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کےبغیر حکم دینا جاہلوں کا حکم ہے ۔اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کرنا اس کی سزااوراس کے ایسے عذاب کا مستوجب ہے،جسے وہ ظالم لوگوں سے دورنہیں کیاکرتا۔ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ﴿٤٩﴾ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ﴾ (المائدہ۵/۴۹۔۵۰)
‘‘(اے نبی)!جو(حکم)اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اوران کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اوران سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔اگریہ نہ مانیں تو جا ن لو کہ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے اوراکثر لوگ تو نافرما ن ہیں ۔کیا یہ لوگ پھر سے زمانہ جاہلیت کے حکم پر خواہش مند ہیں اورجولوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ سے اچھا حکم کس کا ہے؟’’
جو شخص اس آیت پر تدبر کرے تواس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اس فرمان کو کہ‘‘جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے،اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔’’آٹھ تاکیدوں کے ساتھ موکد فرمایا ،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(۱)اے پیغمبر!ان کے درمیان صرف اسی کے مطابق فیصلہ کرنا جو اللہ نے نازل فرمایا ہے۔
(۲)لوگوں کی خواوہشیں اور چاہتیں کسی حال میں بھی آپ کے اوراللہ کےحکم کے مطابق فیصلہ کرنے میں رکاوٹ نہ بنیں ،چنانچہ فرمایا‘‘اوران کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں۔’’
(۳)معاملہ قلیل ہو یا کثیر ،چھوٹا ہویا بڑا ،اس میں اللہ تعالی کی شریعت کے بغیر فیصلہ کرنے سے منع کیا ہے چنانچہ فرمایا اوران سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تمہیں بہکا نہ دیں۔’’
(۴)اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کرنا اورحکم الہی میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے جودردناک عذاب کا مستوجب ہے،چنانچہ ارشادباری تعالی ہے کہ‘‘اگریہ نہ مانیں تو جا ن لو کہ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب ان پر مصیبت نازل کرے۔’’
(۵)حکم الہی سے اعراض کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر مبتلائے فریب نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہےکیونکہ بندگان الہی میں شکرگزار توکم ہی ہوتے ہیں،چنانچہ فرمایا
‘‘اوراکثر لوگ تو نافرما ن ہیں ۔’’
(۶)اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کےبغیرفیصلہ کرنے کو جاہلیت کے حکم سے تعبیر کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا
‘‘کیا یہ لوگ پھر سے زمانہ جاہلیت کے حکم پر خواہش مند ہیں؟’’
(۷)یہاں جو عظیم مقصود ومطلوب ہے اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ اللہ کا حکم تمام احکام سے اچھا اورمبنی برعدل وانصاف ہے،چنانچہ ارشاد ہے ‘‘اوراللہ تعالی سے اچھا حکم کس کا ہے؟’’
(۸)یقین کا تقاضا یہ ہے کہ یہ علم ہو کہ حکم الہی تمام دیگر احکام کے مقابلہ میں بہترین ،اکمل ،مکمل ترین اورمبنی برعدل وانصاف ہے لہذا اس کے سامنے تسلیم ورضا کے جزبہ سے سراطاعت جھکادینا واجب ہے۔ارشادبارتعالی ہے‘‘اورجولوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لئے اللہ سے اچھا حکم کس کا ہے؟’’
یہ معانی ومطالب قرآن مجید کی اوربھی بہت سی آیات اوررسول اللہ ﷺکے اقوال وافعال سے ثابت ہیں مثلاقرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ (النور۲۴/۶۳)
‘‘جولوگ ان(پیغمبرﷺ)کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں،ان کو ڈرنا چاہئے کہ (ایسا نہ ہوکہ)ان پر کوئی آفت پڑجائے یا تکلیف دینے والاعذاب نازل ہو۔’’
اورفرمایا:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ﴾ (النساء۶۵/۴)
‘‘تیرےرب کی قسم وہ ایماندار نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ آپس کے جھگڑوں میں تجھے حاکم مان لیں۔’’
مزید فرمایا:
﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ﴾ (الاعراف۷/۳)
‘‘لوگوجو(کتاب)تم پرتمہارے پروردگارکے ہاں سے نازل ہوئی ہے،اس کی پیروی کرو۔’’
نیزفرمایا:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾ (الاحزاب۳۳/۳۶)
‘‘اورکسی مومن مرد اورمومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اوراس کا رسول کوئی امرمقررکردیں تووہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔’’
اوررسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہش کواس دین کے تابع نہیں کردیتا،جسے میں لایا ہوں۔’’
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صیح ہے،اسے ہم نے صیح سند کے ساتھ ‘‘كتاب الحجة’’میں روایت کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا‘‘کیا یہ بات نہ تھی کہ اللہ تعالی نے جن اشیاء کو حلال قراردیا تھا وہ(علماء ومشائخ) انہیں حرام قراردےدیتے تھے توتم لوگ بھی انہیں حرام سمجھنے لگ جاتے تھے اوروہ جب اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قراردیتے تھے توتم لوگ بھی انہیں حلال سمجھنے لگ جاتے تھے؟’’حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا‘‘جی ہاں،یہ بات توتھی۔’’توآپ نے فرمایا‘‘بس یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔’’اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نےبعض مسائل میں جھگڑا کرنے والوں سے یہ کہا تھا ‘‘قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسنے لگے کہ جب میں یہ کہتا ہوں رسول اللہ ﷺنےیہ فرمایا ہےتوتم یہ کہنے لگتے ہوکہ ابوبکر وعمر(رضی اللہ عنہم)نے یہ کہا ہے۔’’
تواس گفتگوکے معنی یہ ہیں کہ بندے پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کے ارشادات کے سامنے مکمل طورپرسراطاعت جھکادے اوراللہ ورسول کے ارشادات کو ہرشخص کے قول پر ترجیح دے۔
یہ اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت وحکمت کا تقاضا ہے کہ اس کے بندوں کے فیصلے اس کی شریعت ووحی کے ساتھ ہوں کیونکہ ایک انسان کو جو ضعف ،خواہش ،عجزودرماندگی اورجہالت جیسے عوارض لاحق ہوسکتے ہیں اللہ تعالی کی ذات گرامی ان سے پاک ہے اوروہ حکیم وعلیم ولطیف وخبیر ہے ،اپنے بندوں کے حالات اوران کی مصلحتوں کو جانتا اوراس بات سے خوب آگاہ ہے کہ بندوں کےحال ومستقبل کے اعتبار سے کو ن سی بات ان کے لئے موزوں ہے۔یہ بھی اس کی تمام رحمت کا اظہار ہےکہ اس نے اپنے بندوں کے تنازعات اورامور زندگی سے متعلق ان کے جھگڑوں کافیصلہ کرنا اپنے ہاتھ میں لےلیا ہے تاکہ انہیں عدل ،خیر اورسعادت حاصل ہوبلکہ رضا،راحت اوراطمینان وسکون قلب کی دولت سے شادکام ہوں،اس لئے کہ بندے کو جب یہ معلوم ہوگا کہ متنازعہ معاملہ میں صادرہونے والا حکم اللہ خالق وعلیم وخبیر کاحکم ہے تو بندہ تسلیم ورضا کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے قبول کرے گا خواہ وہ حکم اس کی اپنی خواہش وارادہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہولیکن اس کے برعکس جب اسے معلوم ہوکہ یہ فیصلہ اسی جیسے کسی انسان کا ہے جو اپنی خواہش وشہوت کا پجاری ہے تو وہ اس فیصلہ پر راضی نہ ہوگا بلکہ وہ اپنے مطالبہ پر ڈٹے ہوئے،جھگڑے کو جاری رکھے گا اور اس صورت میں تنازعہ بھی کبھی ختم نہ ہوگا بلکہ اختلاف ہمیشہ برقراررہے گا تو اللہ سبحانہ وتعالی نے جب اپنے بندوں پر یہ واجب قراردیا ہے کہ وہ اس کی وحی کی روشنی میں اپنے متنازعہ امور کے فیصلے کریں تویہ بھی اس کی رحمت واحسان کا اظہار ہے،چنانچہ اس مسئلہ کو اللہ تعالی نے بہت وضاحت وصراحت کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿٥٨﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء۴/۵۸۔۵۹)
‘‘اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرواورجب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگوتوانصاف سے فیصلہ کیا کروتحقیق اللہ تعالی تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔بے شک اللہ سنتا(اور)دیکھتا ہے۔مومنو!اللہ اوراس کے رسول کی فرماںبرداری کرواورجو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اوراگرکسی بات میں تم اختلاف واقع ہوتواگراللہ اورروزآخرت پر ایمان رکھتے ہوتواس میں اللہ اوراس کے رسول(کے حکم )کی طرف رجوع کرو۔یہ بہت اچھی بات ہےاوراس کا مآل(انجام)بھی اچھا ہے۔’’
اس آیت کریمہ کے عمومی مخاطب اگرچہ حاکم ومحکوم اورراعی ورعایا ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اس کے مخاطب قضاۃوحکام بھی ہیں کہ انہیں حکم ہے کہ وہ عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کریں جیسا کہ مومنوں کو حکم ہے کہ وہ اس فیصلہ کو دل وجان سے قبول کریں جو اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق ہو اورجسے اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہو نیز انہیں حکم ہے کہ تنازع اوراختلاف کی صورت میں وہ معاملہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کے سپرد کریں۔
مسلمان بھائیو!اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا اورشریعت الہی سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانا یہ وہ امر ہے جسے اللہ تعالی اوراس کے رسول نے واجب قراردیا ہےاور اللہ تعالی کی عبودیت اور حضرت محمدﷺکی نبوت ورسالت کی شہادت کا یہی تقاضا ہے اوراس سے یا اس کے کسی جزء سے اعراض موجب عذاب الہی ہے خواہ کوئی بھی حکومت اپنی رعایا کے ساتھ معاملہ میں اس بارے میں کوتاہی کرے یا کسی بھی زمان ومکان کی کوئی مسلمان جماعت عقائدوافکار کے باب میں کوتاہی کرے اوریہ کوتاہی خواہ خاص مسائل میں ہو یا عام میں یا ایک جماعت کے دوسری جماعت کے ساتھ یا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے ساتھ تعلقات میں،ان تمام صورتوں میں حکم ایک ہی ہے ۔جب ساری مخلوق اسی کی ہے توحکم بھی اسی کا چلے گا کہ وہ احکم الحاکمین ہے ۔ وہ شخص ایمان سے محروم ہے جس کا عقیدہ یہ ہوکہ انسانوں کے احکام وآراءاللہ اوراس کےرسول کے حکم سے بہتر یا اس کے مثیل ومشابہ ہیں یا وہ اس بات کو جائز قراردےکہ شریعت کی بجائے وضعی احکام یا انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے،ایسا شخص ایمان سے محروم ہے خواہ وہ یہ عقیدہ بھی رکھے کہ اللہ تعالی کےاحکام بہتر،اکمل اورمبنی پر عدل وانصاف ہیں۔عامۃ المسلمین ،امرءوحکام اوراہل حل وعقدپریہ واجب ہےکہ وہ اللہ عزوجل سے ڈریں،اپنے ملکوں اوراپنے تمام امور ومعاملات میں شریعت الہی کے مطابق فیصلہ کریں تاکہ اپنے آپ کو اوراپنے ملکوں کو دینا وآخرت میں عذاب الہی سے بچاسکیں اوران علاقوں سے عبرت حاصل کریں جہاں احکام الہی سے اعراض کیا گیا تووہ عذاب الہی کی گرفت میں آگئے ،اہل مغرب کی تقلید اوران کے طریقہ کی پیروی کی وجہ سے اختلاف وانتشاراوربہت سے فتنوں میں مبتلاہوگئے ،خیروبھلائی سے محروم ہوگئے اورایک دوسرے کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنے لگے حتی کہ ان کی صورت حال خراب سے خراب ترہوتی چلی جارہی ہے اوریہ صورت حال اس وقت تک درست نہ ہوگی اوردشمنوں کا سیاسی وفکری تسلط اس وقت تک ختم نہ ہوگا جب تک وہ اپنےاللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے اوراس کے بتائے ہوئے اس صراط مستقیم پر نہیں چلتے جسے اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے،جس پر چلنے کا اس نے حکم دیا اورجس کے نتیجہ میں ابدی وسرمدی نعمتوں والی جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی نے کیا سچ فرمایا ہے کہ :
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ﴿١٢٤﴾ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ﴿١٢٥﴾قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ﴾ (طہ۲۰/۱۲۴۔۱۲۶)
‘‘اورجومیری نصیحت سے منہ پھیرے گااس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اورقیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے،وہ کہے گا اے میرے پروردگارتونے مجھے اندھاکرکے کیوں اٹھایا میں تودیکھتا بھالتا تھا؟تواللہ فرمائےگاکہ ایسا ہی (چاہئے تھا)تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تو ،تونے ان کو بھلادیا ،اسی طرح آج ہم تم کو بھلا دیں گے۔’’
اس سے بڑھ کراورتنگی یا ہوسکتی ہے،جواللہ تعالی ان لوگوں کو سزادیتا ہے،جو اس کی نافرمانی کرتے ،اس کے اوامرپرلبیک نہیں کہتے بلکہ اللہ رب العالمین کے احکام کے بجائے ایک کمزورمخلوق کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں۔اس شخص سے بڑھ کر بیوقوف اورکون ہوسکتا ہے جس کے پاس حق بات کرنے ،امورومعاملات میں فیصلہ کرنے،راستہ واضح کرنے اورگمراہ کو راہ راست پر لانے کے لئے کتاب اللہ موجو د ہولیکن وہ اسے ترک کرکے کسی آدمی کے اقوال کو یا کسی حکومت کے نظام کو لےلے۔کیا ایسا کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے دنیا وآخرت کا خسارہ ان کے مقدر میں ہے ،وہ نہ تو دینا میں فلاح وسعادت ست ہمکنارہوسکیں گے اورنہ روز قیامت عذاب الہی سے بچ سکیں گے کیونکہ اللہ تعالی نے جسے حرام قرراردیا تھا ،اسے انہوں نے حلال ٹھہرالیا اوراس نے جسے واجب قراردیا تھا ، اسے انہوں نے ترک کردیا۔میں اللہ تعالی سے یہ دعا کرتا ہوں کہ قوم میری اس بات سے نصیحت حاصل کرے ،اپنے حالات پر غوروفکرکرے اورجو کچھ اس نے کیا ہے اس کا جائزہ لے کر رشدوہدایت کی طرف پلٹ آئے اوراللہ تعالی کی کتاب اوررسول اللہﷺکی سنت کو تھام لے تاکہ وہ صیح معنوں میں حضرت محمد ﷺکی امت بن سکے اوراس کا نام آج بھی اوام عالم میں اسی طرح بلند ہو جس طرح سلف صالح اوراس امت کے قرون اولی کے مسلمانوں کا نام بلند ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ زمین کے بادشاہ اوردینای کے رہنما بن گئے تھے اوربندگان الہی ان کے تابع فرمان تھے اوریہ سب کچھ نتیجہ تھا اس فتح ونصرت الہی کا جس سے اللہ تعالی نے اپنے ان ایمان دار بندوں کو سرفراز کرتا ہے،جو اللہ اوراس کے رسول کے ارشادات کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔اے کاش!کہ میری قوم کے لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ انہوں نے کس قدر قیمتی خزانے کو ضائع کردیا ،کس قدرسنگین جرم کا ارتکاب کیااوراپنی امت کو کس بلاءاورمصیبت میں مبتلا کردیا ہے،ارشادباری تعالی ہے
﴿وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ ۖ وَسَوْفَ تُسْأَلُونَ﴾ (الزخرف۴۳/۴۴)
‘‘اوریہ تمہارے اورتمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے اور(لوگو)تم سے عنقریب پوچھا جائے گا۔’’
اوررسول اللہ ﷺکی ایک حدیث میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب آخرزمانے میں لوگ قرآن مجید سے بے نیاز ہوجائیں گے ،اس کی تلاوت سے اعراض کریں گے اوراس کے احکام کو نافذ نہ کریں گے تواللہ تعالی قرآن مجید کو سینوں اورصحیفوں سے محو کردے گا۔لہذامسلمانو!خبرداررہو اوراحتیاط کروکہیں ان بداعمالیوں کی وجہ سے تم یا تمہاری آنے والی نسلیں اس عظیم مصیبت سے دوچارنہ ہوجائیں ۔میری اس نصیحت کی مخاطب وہ مسلمان اقوام بھی ہیں،جو دین کو جانتی اور اللہ رب العالمین کی شریعت کو پہچانتی ہیں لیکن اختلاف وتنازعات کے وقت وہ شریعت الہی کے بجائے ایسے انسانوں کی طرف رجوع کرتی ہیں جوعرف وعادات کی بنا پر فیصلے کرتے ہیں یا جاہلیت اولی کے لوگوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے محض مقفع عبارتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔امید ہے جس انسان تک میری یہ نصیحت پہنچے گی،وہ اللہ تعالی کی بارگاہ قدس میں توبہ کرے گا،ان حرام افعال کے ارتکاب سے رک جائے گا ،جو کوتاہی ہوئی ہے اس پر توبہ واستغفاراورندامت کا اظہار کرے گا،اپنے بھائیوں اورگردوپیش کے لوگوں کو جاہلیت کی عادتیں چھور دینے کی تلقین کرے گا،شریعت کے مخالف ہر قسم کے عرف وعادت کو خیر بادکہہ دے گا کہ توبہ کر نے سے سابقہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں،گناہ سے توبہ کرنے والا اس طرح ہے جیسا کہ اس نے کوئی گنا ہ کیا ہی نہ ہو۔حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ حق کی وعظ ونصیحت کرتے رہیں،حق کو بیان کرتے رہیں،مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زمام اقتدار نیک لوگوں کے ہاتھ میں دیں تاکہ اللہ تعالی کے حکم سے انہیں خیروبھلائی حاصل ہواوربندگان الہی اللہ تعالی کی دشمنی اوراس کی نافرمانی کے ارتکاب سے بازرہیں۔آج مسلمان اللہ تعالی کی رحمت کے شدید محتاج ہیں،اللہ تعالی کی رحمت ہی سے ان کے حالات میں تبدیل آئے گی اورذلت ورسوائی کی یہ زندگی عزت وشرف کی زندگی سے بدل جائے گی۔اللہ تعالی کے اسماء حسنی وصفات علیا کے واسطہ سے اس سے سوال ہے کہ وہ مسلمانوں کے دلوں کو کھول دے تاکہ اس کے کلام کو سمجھیں،اس کی طرف متوجہ ہوں ،اس کی شریعت پر عمل پیرا ہوں ،مخالفت شریعت اقوال واعمال سے اجتناب کریں اورحسب ذیل ارشاد باری تعالی پر عمل کرتے ہوئے اس کے حکم کی پابندی کری:
﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (یوسف۱۲/۴۰)
‘‘اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،یہی سیدھادین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔’’
وصلي الله علي نبينا محمد واآله وصحبه واتباعه باحسان الي يوم الدين