سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) کچھ لوگ امام کےسا تھ گیارہ رکعت پڑھ کر الگ ہوجاتے ہیں..الخ

  • 7377
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1231

سوال

(46) کچھ لوگ امام کےسا تھ گیارہ رکعت پڑھ کر الگ ہوجاتے ہیں..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ امام کےسا تھ گیارہ رکعت پڑھ کر الگ ہوجاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ اللہ کے رسولﷺ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا کرنا خلاف سنت ہے اس میں متوقع اجر و ثواب سے محرومی کا اندیشہ ہے اور اسوۃ سلف کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ جو صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک نماز ہوتے تھے وہ آپ سے پہلے نماز سے نہیں پلٹے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ایسی چیزوں میں بھی امام کی موافقت کرتے تھے جس کو مشروع عمل ہر زیادہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منی میں پوری نماز پڑھائی تو صحابہ کرام نے ان کا رد کیا لیکن پوری نماز پڑھنے میں ان کی اتباع ([1]) کی کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اختلاف فتنہ ہے، اس لئے کچھ لوگوں کا ایسا کرنا اس ثواب سے محرومی کا سبب ہے، جو امام کے ساتھ قیام سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:

"من قام مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى انصَرفَ كُتب لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ"

ترجمہ: جو شخص امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک شریک نماز رہا تو اس کے لئے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ ([2])

اور گیارہ رکعت سے زیادہ نماز پڑھنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز امور میں سے ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ سے ایک آدمی نے رات کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:

"مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى وَاحِدَةً فاوترت لَهُ مَا صَلَّى"

ترجمہ: رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھی جائے، اور جب کسی کو صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے جو اس کی پڑھی ہوئی نماز کو وتر بنا دے گی۔

نبی ﷺ نے اسے کوئی مقررہ عدد نہ بتائی اور اگر گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا حرام ہوتا تو آپ ﷺ ضرور بیان فرما دیتے۔

اسلئے میری نصیحت یہی ہے کہ امام کے فارغ ہونے تک اسکی متابعت کرتے رہنا چاہئے۔


 (20) البخاری: 1084 تقصیر الصلاۃ بمنی۔ مسلم: 695 صلاۃ المسافرین باب الصلاۃ بمنی۔

 (21) ابو داود: 1275 الصلاۃ باب قیام شہر رمضان۔

 

فتاوی مکیہ

صفحہ 32

محدث فتویٰ

تبصرے