قرآت قرآن کریم کا ایصال ثواب مُردوں یا زندوں کے لیے کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ طواف نماز اور قرآت قرآن کا ثواب زندہ یا مردہ کو پہنچانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن باوجود اس کے یہ کوئی ایسا مشروع فعل نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا حکم دیا جائے یا اس کی ترغیب دلائی جائے بلکہ میت کے لیے دعا ایصال ثواب سے بہتر ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ([1])
ترجمہ: جب انسان مر گیا تو اس کے عمل کا ثواب ختم ہو گیا مگر تین چیزیں ہیں (جن کا ثواب باقی رہتا ہے) ایک صدقہ جاریہ دوسرا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے تیسرا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ نیک اولاد جو اس کے لیے نیک عمل کرے بلکہ فرمایا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرنا اہداءِ ثواب سے بہتر ہے۔