السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وسیلہ کیا ہے
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴿٣٥﴾سورة المائدة....’’یعنی اے ایمان والواللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے نزدیک وسیلہ چا ہا کرو اور اس کی راہ می جہاد کیا کرو‘‘ تا کہ تم خلاصی پائو اس آیت میں جو الوسیلہ کا لفظ ہے بعض لو گ اس سے مراد وہ وسیلہ لیتے ہیں جس کو اردو میں ذریعہ کہتے ہیں وہ اس کے معنی کر تے ہیں خدا کے پا س پہنچنے کا ذریعہ بنائو یہاں تک کو ئی حرج ہو تا مگر وہ اس کے مراد ذریعہ لیتے ہیں جو پیر پر ستی یا قبر پر ستی تک پہنچا دے مثلا وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یہ کہنا ہے۔
شئیا اللہ چوں گدائے مستند لسدر خواہم ز خوا جہ نقشبند
ایسے اشعار اور ایسے کلمات کے جواز پر آیت دلیل ہے کہتے ہیں کہ ہم ان بزرگا ن کو بحکم اس آیت کے وسیلہ بتاتے ہیں اس لئے بعض دو ستوں نے درخواست کی ہے کہ اس آیت کا اصلی مطلب بتایا جائے آج ان کی فر ما ئش کی تعمیل کی جا تی ہے بحولہ وقوتہ۔
آیت مو صوفہ کا تر جمہ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے یوں کیا ہے اے مسلمانوں تبر سید از خدا د بطلبید قرب بسوئے اور جہاد کیند دررا ہ تار ستگار شودید۔
یعنی اے مسلمانوں خدا سے ڈرو اور خدا کا قرب چاہو اور اس کے راستے میں جہاد کر و اسآیت میں جو لفظ الوسیلہ آیا ہے بوجہ نہ جاننے عربی زبان کے اس کے معنی سمجھنے میں ان لو گوں کو غلطی لگی ہے عربی لغت کی معتبر کتاب قا مو س میں لکھا ہے
الوسيلة والوسلة المنزلة عند لملك والدرجة والقربة بتوسل الي الله تعاليٰ توسيلا عمل عملا تقرب اليه
یعنی وسیلہ باد شاہ اور خدا کے پاس قرب کا نام ہے اس لئے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین قر یبا با لاتفاق یہی کہہ رہے ہیں جلالین میں ہے۔ وابتغو ا اليه الوسيلة ما يقر بكم اليه من طاعة-یعنی خدا کے پاس پہنچنے کا جو ذریعہ پیدا کرو یعنی اس کی اطاعت کرو۔
جا معہ البیان میں ہے الوسيلة اي القربة بطاعته-یعنی وسیلہ سے مراد عبادت کے سا تھ خدا کی قربت تلاش کر نا ہے۔
تفسیر خازن میں ہے –الوسيله يعني اطلبوا اليه القرب بطاعته والعسل بما يرضي یعنی اس آیت سے مراد ہے کہ بذریعہ عبادت اور بذریعہ نیک کاموں کے خدا کا قرب تلا ش کرو۔
تفسیر مد ارک میں ہے - الوسيلة هي كل ما يتو سلبه اي يتقرب من قرابته یعنی وسیلہ اس کا م کو کہتے ہیں جس کے سا تھ خدا کا قرب حاصل ہو۔
تفسیر فتحہ البیان میں ہے -یعنی وسیلہ خدا کی قر بت کا نام ہے حا فظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ ان معنی میں کسی مفسر کا اختلاف نہیں۔
تفسیر کبیر میں ہے -یعنی وسیلہ وہ ہے جو خد ا کی رضا حا صل کر نے میں کا م آئے یہ وسیلہ عبادت اور طا عت کے سا تھ ہو تا ہے غرض یہ کہ کل حوا لجات مع حوالجات لغویہ اور تفسیر کے اس روایت کی تفسیر پر متفق ہیں کہ اس وسیلہ سے مراد اعمال صا لحہ ہیں جو خدا کے قرب کا وسیلہ ہو سکیں یہ نہیں کہ تم کسی بندے کو درمیان میں لا کر دعائیں ما نگو پھر اس سے بھی گزر کر خود انہی سے مانگنے لگو جیسا کہ مذکو رہ با لا شعر میں کہا جا تا ہے جس کا تر جمہ یہ ہے۔
میں نہایت عجز محتاج کی طرح حضرت نقش بند صاحب سے اللہ کے وا سطے کوئی چیز ما نگتا ہوں
دعوی تو یہ کیا جا تا ہے کہ خدا کے ان بزرگوں کو ہم وسیلہ بناتے ہیں یعنی اصل فاعل خدا ہے یہ بزرگ ہمارے اور خدا کے در میا ن ہو کر ہماری عرض خدا تک پہنچاتے ہیں مگر الفاظ ایسے ہیں جنسے ثابت ہو تا ہے کہ اصل دعا تو ان بزرگوں سے ہے اور خدا کو ان کے پاس وسیلہ لایا جاتا ہے چنا نچہ شئیا اللہ کے معنی بھی یہی ہیں کہ اے بزرگ خدا کے واسطے کو ئی چیز دے یہ الفاظ صاف کہہ رہے ہیں کہ دینے والا اس بزرگ کو سمجھا گیا ہے اور ذریعہ وسیلہ خدا کو بنایا گیا ہے اور یہ عمل آیت کر یمہ کے صریح خلاف ہے۔
اس سے بڑھ کر ایک اور وظیفہ سنیئے جو سرا سر وسیلہ کے خلاف ہے غور سے سنیئے خدا کے بندے کلمہ اسلام پڑہنے والے تو حید کے قا ئل مسلمان یہ وظیفہ پڑہتے ہیں۔
امداد کن امداد کن + از بند عم آزاد کن وردین دو دنیا شاد کن +یا شیخ عبدالقادرا
یعنی میری مدد کر میری مدد کر غم و فکر کی قید سے آزاد کر دین ودنیا میں مجھے خوش کر اے شیخ عبدالقادر صا حب پہلے تین مصرعوں میں دنیا کی ساری حا جات مانگ لیں کس سے جس کو اخیر مصرح میں مخا طب کر کے پکارا گیا ہے یعنی حضرت شیخ عبدالقادر قدس سرہ ہے بتلائو وسیلہ ہے یا مالک و مختار یہی معنی ہیں۔
خدا سے اور بزرگوں سے بھی کہنا یہی ہے شرک یا رو اس سے بچتا
خدا فرما چکا قرآن کے اندر میرے محتاج ہیں پیر و پغمبر
نہیں طا قت سوا میرے کسی میں جو کام آئے تمہاری بے کسی میں
جو خود محتاج ہووے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا ما نگناکیا
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب