سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(682) شیعہ کو جواب

  • 7318
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2560

سوال

(682) شیعہ کو جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیعہ کو جواب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیعہ کو جواب

اخبار در نجف میں ایک سوال چھپا ہے جس کی سر خی ہے سوال از جمیع العلماء الحدیث اس میں مذکو ر ہے صحیح بخاری صفحہ 758)

باب کثرۃ النساء حدثنا علی بن الحاکم الانصاری حدثنا ابو عوانة عن رقية عن طلحة اليامي عن سعيد بن الجبير قال قال لي ابن عباس هل تزوجت قلت لا قال تزوج فان خير هذه الامة اكثرها نساء

’’یعنی بہترین شخص اس امت کا وہ ہو گا جس کی بیبیاں زیادہ ہوں گی‘‘ اب سوال یہ ہے کہ اس حدیث پر عمل بغیرمتعہ کیو نکر ممکن ہے كيونكہ چار عقدسے ایک وقت میں زیادہ جائز نہیں

فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ

 زیادہ طلاق پر لعنت مو جود ہے مو ت اختیاری نہیں تو پھر بغیر متعہ کیونکر اکشار النساء ممکن ہے۔ ( حافظ سید ذوالفقار علی شاہ جلا ل پور ی۔ درنجف 8/15 دسمبر 26ءص30)

 اہلحدیث

معلوم ہو تا ہے کہ سائل کو شیعہ اصطلا حات سے بھی واقفیت نہیں ورنہ وہ جانتے کہ زوجہ اور ممتوعہ دو قسمیں مختلف میں زوجہ منکو حہ کو کہتے ہیں اور جس سے متعہ ہو اس میں کا نام ممتو عہ ہے اس لئے کہ شیعہ علماء جس آیت سے جواز متعہ پر استدلال کر تے ہیں اس میں بھی لفظ متعہ ہے تزوج نہیں

فما استمتعتم به منهن الاية

پس حدیث مذکو ر کو دیکھے اس میں شرعی حد کے اندر منکوحہ زوجہ کثیر کر نے کا ذکر ہے ممتو عہ نہیں فا فہم۔ ( اہلحدیث امرتسر 28 جنوری۔ ١٩٢٧ء)

متعہ بالنساء

 متعہ کے متعلق ایک مضمون آریہ گزٹ لاہو ر میں نکلا ہے جس کو راقم مضمون نے کل مسلمانوں کا مذہب سمجھا حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ متعہ کے قائل شیعہ میں سنی نہیں اور شیعوں کی تعدادکل دنیا کی اسلامی آبادی میں پندرہ فی صدی ہے اتنی تھوڑی تعداد کے اعتقاد کو کل اسلامی دنیا کا اعتقاد قرار دینا کیو نکر جا ئز ہو سکتا ہے چو نکہ شیعہ فرقہ متعہ قائل ہے اس لئے ان کی کتبوں سے ان کی تعریف اور تشریع ہم پہلے سناتے ہیں پھر اپنی رائے لکھیں گے شیعوں کے ہاں بھی مثل سینوں کے حدیث کی کتابیں جن میں تہزیب الاحکام کو غالبا وہی درجہ حاصل ہے جو سینوں کے ہاں جا مع ترندی کو ہے اسی تہذیب سے ہم چند روایا ت نقل کرتے ہیں نا ظرین بغور سنیں متعہ کس کو کہتے ہیں اور اس کا نکا ح سے کیا فرق ہے مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہو گا جو امام ابو عبداللہ جعفر صادق سے آئی ہے کہ

قال ابو عبد لله عليه السلام ن سمي الاجل فهو متعة وان لم يسم الاجل فهو نكاح (ج٣ ص ١٨٩)

امام مو صوف نے فرمایا مرد عورت کے عقد کے وقت اگر مدت مقرر کی جا ئے تو متعہ ہے اگر مدت مقرر نہ کی جا ئے تو نکاح ہے یعنی کسی مرد اور عورت کا عقد اس طرح ہو کہ آٹھ دس یوم تک ہم مثل زن و شوہر کے رہیں گے تو یہ متعہ ہے اور اگر آٹھ دس روز وغیرہ کی قید نہ ہو تو نکاح ہے یعنی نکا ح دائمی ہے اور متعہ مو قت یہ ہے تعریف متعہ کی اس کے متعلق ستعوں کی کتاب مذکور میں مندرجہ ذیل روایت آئی ہیں۔

عن ابي عبد لله عليه اسلام قال لا باس بان يتمتع الرجل بامة المراة فاما امة الرجل فلا يتمتع بها لا بامره ولا باس بان يتمتع الرجل متعته ما شاء لانهن بمنزلة الا ماء وليس ذلك مثل نكاح الشرعية الذي لا يجوز فيه العقد علي اكثر من اربع نساء

’’امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ کو ئی حرج نہیں کہ مرد کسی عورت کی باندی سے متعہ کرے لیکن کسی مرد کی باندی سے بغیر اس کی اجازت سے نہ کرے اور اس میں بھی کو ئی حرج نہیں کہ جتنی عورتوں سے چاہے کر لے کیونکہ یہ منبزلہ لو نڈیوں کے ہے اور مثل دائمی نکا ح کے نہیں ہے جس میں چار سے زیادہ جا ئز نہیں ہیں۔‘‘

عن ابي عبد الله قالزكر له المتعة اهي من الاربع قال تزوج منهن الفافا نهن مستاجرات رج٣ ص ١٨٨)

اسی امام سے سوال ہوا کہ متعہ میں بھی چار کی حد ہے فر مایا چاہے تو ہزار تک کرے کہ یہ ممتوعہ عورتیں تو مزدوری پیشہ ہیں ان دو روایتوں سے متعہ کیاور ممتوعہ عورت کی حثیت معلوم ہو گئی کہ وہ منکو حہ کی طرح بیوی نہیں نہ حقیقتہ باندی ہے بلکہ اصل تعریف اس کی یہ ہے کہ وہ ایک مزدوری پیشہ ہے اسی لئے مندرجہ ذیل روایت سے اس کی وراثت کے متعلق حکم ملتا ہے کہ اس کا خاوند متعہ کنندہ میعاد مقررہ کے اندر اندر مر جا ئے یا یہ خود مر جا ئے تو دو نوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا وراث نہ ہو گا چنانچہ مندرجہ ذیل الفا ظ اس کی شہادت دیتے ہیں۔

قال ابو عبد الله عليه السلام اما الميراث فانه شرط انها ترث ورثت وان لم يشترط فليس لهاولاله ميراث وليس يحتجاج الا بشرط انها لا ترث لان من شروط المتعة اللازمة لا يكون بينهما توارث (ص ١90)

’’امام جعفر صادق نے فرما یا متعہ میں اگر وراثت کی جا ئے تو عورت وارث ہو گی ورنہ نہ عورت کو وراثت ملے گی نہ مرد کو اور اس بات کی ضرورت نہیں کہ عدم وراثت کی شرط کی جا ئے کیونکہ متعہ کی شروط لا زمہ میں سے ہیں کہ ان میں وراثت نہ ہو گی‘‘ یہ روایت اپنے مضمون میں صاف ہے کہ ان دونوں بیوی خاوند ما تع اور ممتوعہ سے ایک دوسرے کا وارث کوئی بھی نہیں ہو گا۔ نکا ح اور متعہ میں ایک فرق تو مدت اور عدم مدت کا ہے دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ نکاح میں گواہوں اور عام اعلان کی ضرورت ہے مگر متعہ میں کچھ نہیں چنا نچہ تہذیب کے الفاظ یہ ہیں۔

وليس في المتعة اشهاد ولا اعلان (ص ١٨٩) متعه میں نہ گواہوں کی ضرورت ہے نہ اعلان کی ایک اور روایت میں ہے

كتب عليه السلام التزويج الدائم لايكون الا بولي وشاهدين ولا يكون تزويج متعة ببكراستر علي نفسك والكتم (ص ١٨٧)

’’امام جعفر صادق نے لکھا ہے کہ نکا ح ولی اور دو گوا ہوں کے بغیر نہیں ہو تا اور متعہ بکرہ کے ساتھ نہ ہو گا تم اس امر کو چھپا کر پر دہ ڈالا کرو یعنی مخفی کیا کرو۔‘‘ یہ روایت بتلاتی ہے کہ متعہ کی حقیقت صرف یہ ہے کہ مرد عورت دونوں خفیہ طور پر عہد کر لیں اور جتنے دنوں تک وعدہ کریں رہیں یہ بھی ثابت ہوا کہ بکرہ عورت ساتھ بھی متعہ نہ کیا جائے کیو نکہ ممتوعہ عورت شرفا کے نکا ح میں ذلیل سمجھی جا تی ہے چنا نچہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں لاتمتع بالمومنة فتذلها (ص ١٨٧) ’’مومنہ عورت کے ساتھ متعہ نہ کیا کرو کہ وہ ذلیل ہو‘‘ مصنف کتا ب تہذیب اس کی تاویل کر تے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ

يحتمل ان يكون المرد اذا كانت امراة من اهل بيت الشرف فانه لا يجوزا التمتع بها لما يلحق اهلها من العار ويلهقها من الذل (ص ١٨٧)

یعنی عورت اگر کسی معزز گھرانے کی ہے تو اس کے سا تھ متعہ نہ کر نا چا ہیئےکیو نکہ اس کے گھرانے اور کنبے کو عارا ور ذلت ہو تی ہے مصنف کی یہ تو جیہ اور تفسیر صاف دلا لت کر تی ہے کہ متعہ میں ممتوعہ کی ذلت ہے جو شرفا کی شا ن کے لا ئق نہیں چنانچہ ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے۔

فاقبل عبد الله بن عمر فقال يسرك ان نساءك وبناتك واخواتك وبنات عمك يفعلن ذلك فاعرض ابو جعفر عليه السلام حين زكر نسائه وبنات عمر (١٨٦)

 ’’عبداللہ بن عمر نے امام کو کہا کہ آپ متعہ کی اجازت دیتے ہیں آپ کی عورتیں لڑکیاں حقیقی بہنیں اور چچا زاد بہنیں متعہ کریں تو آپ خوش ہوں گے جب انہوں نے یہ کہا تو امام ابو جعفر نے منہ پھیر لیا‘‘ ان ساری روایت سے مندرجہ ذیل امور ثا بت ہو تے ہیں 1 متعہ ایک مو قت عقد کا نام ہے 2 متعہ میں گواہوں اور اعلان کی حاجت نہیں 3 متعہ با کرہ عورت سے نہیں 4 ممتوعہ عورت وارث نہیں 5 ممتوعہ عورت صرف ایک مزدور ہے 6 متعہ شریف عورتوں کے لئے با عث بد نا می ہے۔ اب ہم یہ دکھا نا چاہتے ہیں کہ ایک ایسے بڑے دعوے کے لئے شیعہ کی طرف سے دلیل کیا پیش کی گئی ناظرین بغور سنیں -فاضل مصنف تہذیب فر ما تے ہیں متعہ کے جوا ز پر مسلما نوں کا اجماع دلالت کر تا ہے کیو نکہ آنحضرت ﷺکے زما نے میں مبا ح تھا اور منع کی کو ئی دلیل نہیں آئی پس چا ہیے کہ اب تک مبا ح رہے جب تک کو ئی دلیل قا ئم ہو جس سے منع ثا بت ہو سکے اور شرح میں کو ئی دلیل نہیں ملتی جو اس کی حر مت پر دلا لت کرے نیز اللہ تعالی کا یہ قول بھی متعہ کے جواز پر دلالت کر تا ہے جس کا تر جمہ یہ ہے کہ محر ما ت چھو ڑ کر با قی عورتیں تم پر حلا ل ہیں فما استمتعتم کے سا تھ متعہ کو جا ئز کر دیا کیوں کہ استمتاع جب شرع میں بو لا جا وے تو متعہ ہی مراد ہو تا ہے نہ اصلی نہ لغوی معنی یعنی لذت کر نا پھر خدا نے فر ما یا ان عورتوں کو ان کے اجر دیا کرو تا کید ہے اس با ت کی کہ اس سے مراد متعہ ہے کیو نکہ نکا ح کے عوض کو شرع میں مہر کہتے ہیں اجر نہیں کہتے اس اقتباس میں تین دلیلییں مذکو ر میں ایک آنحضرت ﷺکے زما نہ کا رواج کہ متعہ جا ئز تھا دوم آیت قرآنی میں استمتاع لفظ سوم اجورہن جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو ان کا اجر کر دیا کرو بقول شیعہ عورت کے نکا ح میں جو مہر مقرر ہو تا ہے اس کو شرع کی اصطلاع میں اجر نہیں کہا جاتا اجر صرف متعہ کے عوض کو کہا جا تا ہے۔

یہ طر یق یہاں بتلا رہا ہے کہ شیعہ نے نزدیک بھی آیت مو صوفہ ایسی صاف نہیں کہ اس کو دلیل کے مو قع پر پہلے درجہ پر رکھیں حا لا نکہ آیت قرآنی ہو نے کی حثیت سے اس کا حق تھا کہ وہ پہلے ہو تی مگر مصنف نے اسے پیچھے رکھا کیو نکہ اس سے متعہ کا ثبوت ہو نا کا رے دارد پس ہم ان تینوں دلیلوں کے جواب کے ذمہ دار ہیں پہلی دلیل کا جوا ب پیچھے دیں گے پہلے دوسری تیسری کا جواب دیں جو بوجہ قرآنی دلا ئل ہو نے کے مستحق ہیں کہ ان کو پہلے رکھا جا ئے۔ شیعہ محدث مصنف تہد یب کا دعوے ہے کہ استمتاع سوائے متعہ کے کسی اور معنی میں نہیں آیا حا لانکہ خود قائل ہیں لغت میں اس کے معنی تلذد یعنی لذت حاصل کر نے کے ہیں قرآن مجید میں یہ لفظ چھ جگہ آیا ہے پارہ 5رکو ع 1پارہ 8 رکو ع پارہ 1 رکوع 15 پارہ 24 رکوع 6 ایضا پارہ 1 رکوع 5 1 ان مقا مات میں استمتا ع کے مصد ر سے مختلف صیغے آئے ہیں پا رے پا نچویں میں جو لفظ آیا ہے وہ تو زیر بحث ہے اس لئے وہ نظیر نہیں بن سکتا ہے البتہ اور مقاما ت کو دیکھنا ہے جیسے وہ ہوں گے ان پر فیصلہ ہو گا۔ آ ٹھویں پارے میں گمراہ لو گوں کا ذکر ہے۔

وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ

’’کہ قیا مت کے روز بعض گمراہ انسان کہیں گے خدا وندا ہم میں سے بعض نے بعض کے ساتھ فا ئدہ اٹھا یا‘‘ دسویں پا رہ میں ہلا ک شدہ لو گوں کا ذکر ہے۔

كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ

کہ ’’انہوں نے اپنی عا د توں کے سا تھ فا ئدہ ا ٹھا یا‘‘ چھیویں پا رے میں ہے

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا

 ’’کہ قیامت کے روز کا فروں کو کہا جا ئے گا تم نے دنیا کی لذت حا صل کیں اور ان کے سا تھ فا ئدہ ا ٹھایا‘‘ اگر ہم فا ضل مصنف کا دعوی ما ن لیں تو کہنا پڑے گا کہ ان سب مقامات پر شیعوں کا ذکر ہے جو قیامت کو کہیں گے کہ ہم نے آپس میں ایک دوسرے کے سا تھ متعہ کیا حا لا نکہ کو ئی شخص بھی جو قرآن مجید کے مقا ما ت مذکور ہ کو دیکھے گا یہ لفظ زبا ن پر نہیں لا سکتا پس اتنے مقا ما ت میں استمتاع کا لفظ جن معنی میں آیا ہے متنازعہ مقا م کے لئے یہ تظا ہر کا فی ہیں علا وہ اس کے خود فا ضل مصنف کا اقرار ہے کہ لغت میں اس کے معنی لذت پا نے کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہو ئے جس ما ل کے ذریعہ سے تم نے عورتوں کے سا تھ فوائد زن و شوئے حاصل کئے وہ ما ل بصورت مہر ان کو دے دیا کر و۔

فا ضل مصنف کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اجو ر کا لفظ جو یہاں آیا ہے اس سے مراد متعہ کا بدل ہے نکا ح کا مہر نہیں کیو نکہ مہر کے لئے اجر یا اجو ر کا لفظ نہیں آیا پس اگر قرآن مجید کی اس آیت زیر بحث میں دکھا دیں کہ اجر یا بصورت جمع اجور کا لفظ مہر نکا ح کے لئے ہی آیا ہے تو ہمارا دعوی ثا بت اور ان کا با طل اور اگر ثا بت نہ کر سکیں تو ہما را با طل اور ان کا ثا بت پس غور سے سنئے خدا فر ما تا ہے

 (وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوف(ِپ۔ 5ع1)

’’ جو کو ئی تم میں سے آزاد عورتوں سے نکا ح کر نے کی ظا قت نہ رکھیں وہ تمہا ری ایماندار لو نڈ یوں سے نکا ح کر لیں پس تم اے مسلما نو ان با ندیوں کے ما لکوں کی اجا زت سے ان کے سا تھ نکا ح کر لیا کر و اور ان کے اجو ر مہر ان کو دے دیا کرو‘‘ یہ آیت نکا ح ہی کے متعلق نا زل ہے اور اسی کا اسی میں ذکر ہے ان ينكح کی صورت میں دوم-فانكحوا-کی شکل میں با و جود اس کے ان منکو حہ عورتوں کے مہر وں کو اجور ہن کے لفظ سے بیا ن فر ما یا پھر فاضل مصنف تہذیب کا دوعوی کہ اجو ر کا لفظ خاص متعہ کے اجر کا نام ہے کیو نکر صحیح ہو سکتا ہے آیت مر حو مہ کے متعلق قا ئلین متعہ کی طرف سے ایک اور طرح سے بھی دلیل لا ئی جا تی ہے وہ یہ کے اس میں الي اجل کا لفظ بڑا کے آیت کو یوں پڑ ھا جا تا ہے

فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ﴿٢٤سورة النساء

بقول ان کے آیت کے معنی یہ ہو ئے کہ جن عورتوں کے سا تھ ایک وقت مقرر تک تم نے متعہ کیا ہو ان کی مز دو ری ان کو دے دیا کر و اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لفظ (الي اجل )قرآن مجید میں تو ہر گز نہیں جس نے یہ کہا ہے اس کی اپنی رائے ہے اس نے بطور تفسیر اس لفظ کہہ دیا تو ان کے شا گر د وں نے قرار ۃ اس کو سمجھ کر روایت کر دیا ورنہ قران کا لفظ ہو تا تو قرآن مجید کے اندر اور حا فظوں کے سینہ میں ہو تا ایسے ویسے لفظوں کی وفعت اس سے زیادہ نہیں کہ کسی راوی نے اپنے فہم کے مطا بق کو ئی لفظ بڑھا دیا ہے جسے غلط فہمی سے قرآن کے اندر دا خل دا خل سمجھا گیا اس کی مثال وہ روایت ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وعن ابيها نے اپنے کاتب سے کہا کہ جب تو لکھتا ہو ا اس آیت پر پہنچے تو مجھے خبر کر نا

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ  ﴿٢٣٨سورة البقرة

جب وہ یہاں پہنچا تو حضرت مو صو فہ نے فر ما یا یہاں لکھ دے –صلواة العصر اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عا ئشہ بمو جب روایت مر فوعہ صلوۃ وسطی نما ز عصر کو جا نتی تھیں اس لئے بطور تفسیر یہ لفظ لکھوا یا اس کے یہ معنی نہیں کہ انہوں نے یہ لفظ داخل قرآن کر کے لکھوایا ہے اسی طرح کسی راوی نے یہ لفظ –الي اجل کہا تو اس کا اپنا فہم ہے آیت قرآنی میں یہ داخل نہیں بلکہ اگر ہم یہ کہیں کہ قرآن کے سبا ق کے بھی موا فق نہیں تو بجا ہے ہاں فا ضل مصنف تہذیب کی پہلی دلیل کا جواب ہنوز با قی ہے اہل سنت کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا جا تا ہے کہ ایام جہالیت میں یہ رسم تھی کہ جو شخص سفر میں جا تا اگر اس کو ضرورت ہو تی تو وہاں عورتوں سے متعہ کر لیتا وہ اس کے اسباب وغیرہ کی حفا ظت کر تیں بعض روایت میں جو آیا ہے کہ اصحا بہ کر ام نے بھی کسی جنگ میں ضرورت کے وقت متعہ کیا وہ اسی ملکی رسم کے مطا بق تھا جیسے شرا ب خو ری کا ثبوت بھی ملکی رسم کے مطا بق ملتا ہے لیکن جب آیت نا زل ہو ئی جس میں ذکر ہے اپنی بیو یوں اور با ند یوں کے سوا کسی سے ملا پ کر نا جا ئز نہیں تو یہ سب رسو ما ت ملکی دور ہو گئیں تر مذی رحمۃ اللہ علیہ اس کی مز ید تشریح کے لئے اہل سنت کی طرف سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی جا تی ہے

عن علي بن ابي طالب ان النبي صلي الله عليه وسلم نهي عن متعة النساء وعن لحموم الحمر الاهلية زمن الخيبر (ترمذي جلد اول ص١٣٣)

’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جنگ خیبر کے زما نہ میں منعہ سے اور گدھوں کے گو شت سے منع فر ما یا تھا‘‘ اس روا یت کو شیعوں نے تسلیم کیا بلکہ اس کی نسبت یہ ظا ہر کیا کہ سنیوں نے شیعوں کے خا مو ش کرا نے کو حضرت علی کے نا م سے گھڑ لی ہے مگر شا ن ایزوی ایسا کہنے والے با و جود بڑے عالم ہو نے کے اپنی کتا بوں سے بے خبر ثا بت ہو ئے کیو نکہ یہ روا یت خود اس کتا ب جو متہذیب الاحکام میں بھی مو جود ہے پھر لطف یہ ہے کہ انہی الفا ظ سے مو جو د ہے جو الفا ظ اہل سنت کی روا یت میں ہیں غو ر سے سنیے

عن علي قال حرم رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم خيبر لحوم المر الاهلية ونكاح المتعة (ج ٢ ص ١٨٦)

’’علی سے رو ا یت ہے کہ رسول خدا نے خیبر کے زما نہ میں گدھوں کا گو شت اور متعہ کا نکاح حرام فر ما یا تھا‘‘ فریقین شیعہ اور سنی کی روایت حد یثیہ میں بہت فرق ہو تا ہے جو دو نوں مذہبوں کے اختلا ف پر متفرع یا دو نوں کے اختلا ف کی بناء ہے مگر با وجود اختلا ف کثیر کے کو ئی روا یت اگر متفقہ مل جا ئے تو اصل معنی میں متفق کہلا نے کا حق وہی رکھتی ہے شیعوں کے مس تند امام کلینی انہی منعے کے لئے آنحضرت ﷺ سے روايت لائے –خذوا بالمجمع عليه لاريب فيه (ص٦)

یعنی متفق علیہ روا یت پر عمل کر و کیو نکہ متفق علیہ میں شک نہیں ہو تا پھر صاف اور صر یح روایت مر فو عہ جو دو نوں مذ ہبوں کی کتا بوں میں بیک معنی مو جو د ہو کیوں کر رد ہو سکتی ہے لیکن افسوس کہ شیعوں نے ایسی منقہ روا یت کو بھی محض اپنی خیالی با توں کی بنا پر رد کر دیا چنانچہ تہذیب الاحکام کا فاضل مصنف لکھتا ہے –فان هذه الرواية وردت مورد التقية (ص١٨٦) یہ روایت حضرت علی سے تقیہ کے طور پر آئی ہے۔ تقیہ کیا چیز ہے۔؟

حسب ضرورت اپنے اعتقاد کے خلاف ظا ہر کر نا ہم ما نتے ہیں کہ شیعہ مذہب میں تقیہ کو اتنی اہمیت اور وقعت دی گئی ہے۔ کہ دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ قرار کیا گیا ہے چنا نچہ کا فی کلینی کے الفا ظ یہ ہیں تسعة اعشار الدين في التقية ولا دين للمن لا تقيةاصول كافي ص٤٨٢) تق یہ دین کے نو حصے ہے اور جو تقیہ نہ کر ے اس کا دین نہیں ہے تقیہ کی بحث اور دسعت کے خیال کو الگ رکھ کر ہم صرف اتنا پو چھنا چا ہتے ہیں کہ حضرت علی نے جو متعہ کی روایت بیا ن کی نہ صرف مسئلہ بتلایا بلکہ رسول اللہ ﷺ کا نا م لے کر مر فو ع روا یت بھی بیان فر ما ئی جو بقو ل شیعہ در حقیقت رسول اللہ ﷺ کی نہیں تھی تو جرا ت اور کذب علی الر سول کی وجہ ان کو پیش آئی تھی اور انکا اعتبار کیا رہا۔

ہما رے خیا ل میں متعہ کا مسئلہ آکربس اس سوال پر رک جا تا ہے کہ کیا حضرت علی کی یہ شا ن تھی اور با و جو د امیر المو منین اور شیر خدا ہو نے کے ایسی کمزوری دکھا دیں کہ کسی امر میں خو ف و ہرا س کے با عث نہ صرف غؒلط فتوی دیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی ذات با برکا ت پر بھی افترا کریں ہما رے خیا ل میں جو شخص اس کی تہ کو پہنچ جا ئے اور اس خیال کے انجا م کو سو چے کہ کہا تک پہنچتا ہے اور غو ر کر ے کہ اس میں حضرت علی کی کل روا یا ت اور ان کی با ت پر کہاں تک زد پہنچتی ہے تو وہ ایک منٹ کیا ایک سینڈ کے لئے بھی اس خٰا ل کو دل میں جگہ نہیں دے سکتا کہ یہ روایت حضرت علی نے ازراہ تقیہ فرما ئی ہو گی۔

آسا ن طریق سے فیصلہ۔

 سنی شیع کی روا یت میں فرق ہے اور بہت بڑا فرق ہے مگر دونوں فر یق اس با ت پر متفق ہیں کہ قر آن شر یف خدا کا کلام ہے جو الاتبا ع ہے مفروض الطا عت ہے بلکہ شیعوں کے ہاں تو یہاں تک مذکو ر ہے کہ آنحضرت ﷺ خو د فر ما تے ہیں

ماوافق کتاب الله فخذوه وما خالف كتاب الله فدعوه(اصول كليني ص ٣٩)

’’جو با ت کتا ب اللہ قرآن کے مو ا فق ہو اسے قبول کر و اور جو قر آن کے مخا لف ہو اسے چھو ڑ دو‘‘ پس اس متفقہ اصول کے مطا بق آئو ہم اس مسئلہ کا فیصلہ کتا ب اللہ قرآ ن شر یف سے کر ائیں امنا وصدقنا کچھ شک نہیں کہ حسب روایت منقو لہ با لا ممتو عہ عو رت بیو ی نہیں با ندی نہیں بلکہ ایک کبسی عو رت ہے جس نے چند پیسوں کے لئے یہ پیشہ اختیا ر کر رکھا ہے جو اس کے لئے اس کے خا ندان کے لئے مو جب ذلت و تو ہین ہے قر آن شریف نے نفسا نی حا جت بر اری کا جہاں ذکر کیا ہے یہ لفظ رکھے ہیں۔ ( إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ)-جو لو گ اپنی بیو یوں یا با ندیوں کے ساتھ ملیں گے ان پر الزام نہ ہو گا جب ممتو عہ زو جہ بھی نہیں ملک الیمین لو نڈی بھی نہیں تو پھر استناء میں جو آیت مر قو مہ نے جواز کیا ہے کیو نکر دا خل ہو سکتی ہے اس امر پر کا فی زور کی ضرورت ہے۔

بعض اصحاب

کہا کرتے ہیں کہ متعہ یوں تو حرا م ہے مگر مثل خنز پر ہے جو بوقت اشد ضرورت جا ئز ہے تفصیل اس کی یہ ہے کہ جس طرح خنزیر سور کا گو شت کھا ناقطعا منع ہے مگر بوقت اشد ضرورت کے جو نہ ملنے کسی جا ئز چیز کے پیش آئے بقدر رفع بھو ک خنز یر کا گو شت کھا لینے میں کو ئی گنا نہیں اسی طرح بقول ان کے متعہ ہے یہ لو گ متعہ کو حرا م تو جا نتے ہیں مگو عندالضرورت جا ئز کہتے ہیں ان کا جواب یہ ہے کہ خنزیر کی بابت تو آیت میں صاف مذکو ر ہے متعہ کی با بت کہاں مذکو ر ہے کہ باوجود حر مت کے بوقت ضرورت جا ئز ہے کیا اس کو اس پر قیا س ہے یا کو ئی نص صریح نص ہے تو پیش کر یں قیا س ہے تو وجہ فرق سنیں جس سخت بھو ک میں خنزیر کھا نے کی اجازت ہے اس میں جان کا خطرہ ہو تا ہے اور متعہ میں جو حا جت ہے اس میں جا ن کا خطرہ نہیں بلکہ عیش اور لذت کی خواہش ہے۔ علاوہ اس کے خنز یر خو ری اکیلے ذاتی فعل ہے مگر متعہ ایک ایسا فعل ہے کہ جب تک دو مرد اور عورت مل کر نہ کریں کا م نہیں ہو سکتا پھر کیو نکر یقین ہو سکتا ہے کہ مرد کو اگر ضرورت شدیدہ ہے تو ممتوعہ عورت کو بھی ضرورت ہے جب تک دو نوں کی ایسی ضرورت جو بھوک میں خنزیر خوری کے درجے تک پہنچا تی ہے ثا بت نہ ہو اس کے جواز کی صورت کیو نکر ہو سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ متعہ قرآن کے خلاف حدیث کے خلاف امیر المو منین علی مر تضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی متفقہ روایت کے خلاف بلکہ عقل خا لص کے خلاف اس لئے آر یہ گزٹ کے نا مہ نگار کو اس پر غور کر نا چا ہیے اور شیعوں کو حضرت علی مر تضی امیر المو منین کی مر قوع روا یت کو رد کر تے ہوئے اس کا انجام پو چھنا چا ہیے

سن نگو یم ایں آن کن۔             مصلحت ہیں دکار آ سا ن کن

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 752

محدث فتویٰ

تبصرے