السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اخبار الفقیہ میں فتوی
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک شخص سوال کرتا ہے کہ بزرگوں کی خا نقاہوں کی تعمیر کا رواج ہے کیا اولیاء کے مزارات پر روضے ومحل بنا نے میں اصراف ہے یا نہ۔ ( اخبار الفقیہ 20/ جولائی 21ء)
جواب۔ میں فرماتے ہیں کہ اولیا وعلماء وسادات کی قبروں پر روضے یا محل بنانے میں ان کی دینی عزت اور زائرین کی اسائش وراحت اور زائد عبرت مقصود ہو تی ہے۔ اور کہ نیک اعمال کا آخری نتیجہ یہی ہے۔ والعاقبة للمتقين اخبار الفقیہ 20جولائی ٢١ء)
مفتی صاحب تو قبروں پر روضے اور محل بنانے جا ئز بتاتے ہیں لیکن ہم یہی فتوی نبی ا کرمﷺ سے دریا فت کرتے ہیں کہ آپ کا اس میں کیا ارشاد ہے
عن جابر رضي اله تعاليٰ عنه قال نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم ان يجصص القبر وان يقعد عليه وان يبني عليه (رواه مسلم)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ منع فرمایا نبی اکرمﷺ نے گج کرنے قبر کے سے اور اس پر بیٹھنے سے اور اس پر عمارت بنانے سے‘‘ اور یہ بات ظاہر ہے کہ نبیﷺ کا منع کرنا اپنی مرضی سے نہ تھا بلکہ –
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾
حکم خدا وندی تھا اور امت محمدیہ کو پہلے ہی اطلاع دی کہ ما نهاكم عنه فانتهواجس کاکام سے رسول اللہﷺ تمہیں منع فرما دیں اس سے باز رہو .
جب نبیﷺ نے قبر پر روضے مکا ن بنانے سے منع فرماد یا ہے۔ تو اب کون شخص ہے جو اس کے جواز کا فتو لے دے بجز اس کے جواب کا پکا مخالف ہو اگر آج حضرت علی اس فتوی کو دیکھتے تو فر ماتے او دشمن رسو ل مجھ کو تو نبیﷺ نے حکم دیا تھا --لاتدع قبرا مشرفاالا سويته-نہ چھوڑ کسی بلند قبر کو مگر کہ برابر دے۔
اور تو فتوی دیتا ہے کہ قبر پر روضے اور محل بنانے جائز ہیں پھر حضرت علی ایک خادم کو حکم دیتے ہیں کہ جا جو اونچی قبر تجھے نظر آئے اسے فورا گرا کر زمین کے برابر کر دے آج بھی اگر کوئی حضرت علی کا سچا خادم ہے تواس بات پر کمر باندھ کر سب قبروں کے روضے اور مکا ن گرانے شروع کر دے اگر گرا نہیں سکتا تو دل سے ضرور ہی اس کو برا سمجھے ورنہ اس کا ایمان ضیف ہے۔
یہ اچے مڈ شو ا لیاں جیڈے کس جائز فرماے۔
حضرت کہیا قبراں تائیں گج نہ کیتا جائے
ایسے مفتیوں کو کچھ بھی خدا کا خوف نہیں آتا کہ صریح نبیﷺ کی مخالفت سے نہیں ڈرتے ایک دفعہ حضرت ابن عمر نے جا بر بن زید سے کہا کہ تم بصرے کے فقہوں میں سے ہو
فلا تفت الابقران ناطق اوسنة ما ضية فانك ان فعلت غير ذلك هلكت واهلكت
پس نہ فتوی دنیا بحیز قرآن ناطق اور حد یث صریح کے ورنہ خود ہلاک ہو گے اور اوردں کو ہلاک کر دو گےآہ اگر ابن عمر یہ فتوی دیکھتے تو ضرور کہتے او مفتی تو خود ہلاک ہوا اور لوگوں کو ہلاک کیا کہ صریح حدیث کو چھوڑ کر اپنی رائے پر فتوی دیتا ہے۔ اور امام ابو حنفیہ کہا کرتے تھے۔
اياكم والقول في دين الله تعاليٰ بالراي وعليكم باتباع السنة فمن خرج عنها ضل (ميزان شعراني)
کہ لوگو! بچو اس بات سے کہ کہو اللہ کے دین میں کوئی بات اپنی راے سے اور لا زم پکڑواپنے پر پیروی سنت حدیث کی پس جو شخص اس سے نکل گیا یعنی حدیث کو چھوڑکر اپنی رائے پر چلا وہ گمراہ ہو گیا۔ اگر امام صاحب یہ فتوی دیکھتے توفرماتے او مفتی میں نے حکم دیا تھا کہ حدیث کو چھوڑ کر راکے پر مت چلنا اب تو نے صریح حدیث کو چھوڑ کر اپنی رائے پر فتوی دیا اب وقت ہے کہ تو بہ کرے ورنہ تو گمرا ہو گیا۔ اولیاء اللہ کی قبروں پر بلند مکان بنانا اور چراغ جلانا بدعت اور حرام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب