السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فتوی بابت افطار صوم
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
افطار غروب شمسی کے سا تھ ہی ہو نا چاہیئے تمام اہل اسلام کا اسی پر عمل در آمد ہے جب آفتاب غروب ہوجائے۔ تو پھر تا خیر کرنے کی ضرورت نہیں۔
رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے۔ کہ میری امت میں ہمیشہ بھلائی رہے گی۔ جب تک افطار میں تعجیل کریں گے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ بعد نماز کے افطار کرنے میں تاخیر ہے۔ اور تاخیر میں بھلائی نہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا اقبل الليل من ههنا وادبرالنهار من ههنا وغربت الشمس فقد افطر الصائم (مشكواة)
اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ غروب شمس کے ہوتے ہی افطار ہونا چاہئے واللہ اعلم باالصوب۔ ( عبدالتواب غزنوی ثم العلیگڑھی)
اور یہ قول کہ مغرب کی نماز دن کی نماز ہے اور دن اس وقت تک ہے جب تک کہ سیا ہی سر پر نہ آجائے اور جب سیا ہی سر پر آجائے۔ اس وقت سے رات شروع ہو تی ہے۔
صحیح نہیں ہے اس لئے کہ مغرب کی نماز کا وقت غیبوبت شفق تک یقین سے ہے اور غیبوبت شفق سر پر سیاہی آجانے سے بہت پیچھے ہو تی ہے۔
پس اگر مغرب کی نماز دن کی نماز ہے تو اگر کوئی شخص مغرب کی نماز سر پر سیاہی آجانے کے بعد اور غیبوبت شفق سے پہلے پڑھ لے تو حسب قول مذکور اس کی یہ نماز خارج ازوقت ہوجائے گی حالانکہ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ نماز از وقت خارج ہوئی۔ کیونکہ نماز مغرب کے وقت کے غیبوبت شفق تک ہونے میں کو ئی شبہ ہے۔
اور یہ نماز خارج ازوقت نہیں ہوئی۔ پس ثابت ہوا کہ نماز مغرب رات کی نماز ہے نہ دن کی اور یہ کہرات غروب آفتاب ہوتے ہی شروع ہو جا تی ہے۔ جب کہ حدیث مذکورۃ الصدر سے بخوبی وا ضح ہےاور جب رات آفتاب غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے تو افطار آفتاب غروب ہوتے ہی ہو نا چاہئے جیسا کہ جملہ افطر الصائم سے واضح ہے۔
(واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب کتبہ محمد عبداللہ )
اصاب من اجاب عبدالوہاب العبد عبدالر شید جواب صحیح ہے۔ ابو الوفا ء ثناءاللہ امر تسری بہت درست عبداللہ جونا گڑھی۔ الجواب صحیح سید محمد دئود غز نو ی جواب باصواب ہے قاضی محمد عبدالرحیم کا ن اللہ لہ خادم با قیات الصا لحات کرنول الجواب صحیح دا لوای نجیح عبدالحیی غفر اللہ لہ حیدر ابادی
اللہ تعالی قرآن مجید میں -أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ﴿١٨٧﴾سورة البقرة..-ارشاد فرماتا ہے۔ جہاں غایۃ الغنیاد مختلف الاجناس ہوں تو حکم میں غایت داخل نہیں ہو تی۔ دن اور رات دو مختلف اجناس ہیں اس لئے حکم صیام میں غایت لیل داخل نہیں ہوگی پس رات کا کوئی حصہ بھی دن میں داخل نہیں ہونا چاہئے چنا نچہ حدیث شریف جواد پر ذکر کی گئی ہے وہ اس امر کی تشریح کر دیتی ہے اور جہاں غایت منیا کی جنس سے ہو۔ تو غا یت حکم میں داخل رہے گی جیسے- فاغسلوا وجوهكم وايديكم الي المرافق یہاں پر کہنیاں چونکہ ہاتھ کی جنس سے ہیں۔ اس لئے وہ غسل میں داخل رہے گی سائل نے جو اخبار میں سوال اٹھا یا ہے اس نے غایت اور مغیا کے احکا م جو متعلق مختلف الاجناس اور متحد الاجناس ہیں اس پر غور نہیں کیا ہے اس لئے اس نے ایک کو دوسرے پر قیا س کر لیا ہے جو قیاس مع الفارق ہے فقط۔
ابو البرکات عبیداللہ حیدر آباد دکن۔
صحیح بخاری میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ سفر سے واپس تشریف لا رہے تھے اور صائم تھے کہ بوقت غروب آفتاب فورا ہی بلال سے فرمایا انزل فاجدح لنار-یعنی اتر اور ستو گھول بلال نے کہا –ان عليك نهارا یعنی ابھی تو دن ہے فرمایا اتر اورستوگھول اور فرمایا - اذا غربت الشمس من ههنا اس پوری حدیث پر نظر ڈالنےسے صاف ثابت ہو تا ہے۔ کہ وقت افطار کا آفتاب کے غروب کے سا تھ ہی ہو جا تا ہے جس پر دن ہونے کا شبہ کیا گیا مو طا میں جو اثر حضرت عمر و عثمان سے مروی ہے کہ وہ بعد مغرب افطار کرتے تھے۔
علامہ زرقانی نے اس کی شرح میں مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت نقل فر مائی ہے کہ رسول اللہﷺ افطار کر کے نماز مغرب ادا کرتے پس حدیث مرفوع نص صریح کے ہوتے ہوئے حدیث مو قوف یعنی فعل عمر و عثمان حجت نہیں ہو گی جس پر اہلحد یث و حنفیہ کا اتفاق ہے اللہ اعلم۔ کتبہ محمد ابو القا سم انصاری مر سلہ عبدالیی گکبرگہ(25 رمضان المبارک 36 ہجری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب