السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مولود شریف پر اصولی بحث
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قا ئلین مولود رسمی سے ہم کو ہمیشہ سے شکا یت ہے کہ وہ اس فعل کے جواز پر کوئی شر عی دلیل نہیں رکھتے نہ پیش کر تے ہیں گو مذہب تقلید میں کسی تقلید کا پیش کرنا ان کا حق بھی نہیں کیو نکہ دلیل پیش کرنا مجتہد کا کا مہے مقلد کا نہیں چنا نچہ کتب اصول فقہ میں صاف صاف الفا ظ میں لکھا ہے کہ مقلد کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے امام کا قول پیش کرے کسی مسئلہ پر از خود استد لا ل کرنا اس کا حق نہیں جیسا کہ مسلم الثبوت کے الفاظ یہ ہیں۔
اما المقلد فمستنده قول مجتهده لاظنه
مقلد کا اعتماد اپنے امام کے قول پر ہے نہ اپنے ظن پر تا ہم بعض دفعہ ہمارے احناف دوست اپنے کسی نہ کسی مسئلہ پر دلیل لا یا کرتے ہیں چنا نچہ اہلحدیث مورخہ 20 ربیع اول مطابق چار جنوری ١٩١٨ء میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کی سر خی تھی مو لود شر یف کا ثبوت بطرز عجیب اس میں رسالہ شمس العلوم بدایوں کے ایک مضمون کا جواب دیا گیا تھا جس کا خلا صہ یہ تھا کہ چو نکہ علم اصول فقہ کا مسئلہ ہے کہ افعال اصل میں جا ئز ہے جب تک کو ئی دلیل اس کے بر خلاف نہ ہو اس کا جوابدیا گیا تھا کہ یہ اصول ایشیا ء کے متعلق ہے افعال شر عیہ کے متعلق نہیں جس پر ثواب کی امید کی جائے کیو نکہ اگر اس اصول کو ایسا جاری کیا جائے تو کوئی فعل بدعت نہ رہ سکے گا ہر ایک بدعتی اپنی بدعت پر اسی مسئلہ اصولی سے استد لال کرے گا۔
اس تقر یر پر ایک اعتراضی مضمون آیا ہے جس کا خلا صہ دو لفظوں میں ہے کہ کسی اصول کو اشیاء سے مخصوص کرنا کس کتاب میں لکھا ہے اس لئے منا سب ہے کہ ہماس صول کی پوری وضا حت کتب اصول فقہ سے دکھا دیں علم اصول کی مسلمہ درسی کتاب مسلم الثبو ت میں مرقوم ہے کہ سوا ان افعال کے جو شر ع کی طرف سے فرض ہیں۔
ان الاصل الافعال الاباحة كما هو مختار اكثر لحنفيه والشافعيه اوالخطر كماذهب اليه غيرهم (باب الحكم)
واجب سنت مستحب یا حرام مکروہ وغیرہ میں با قی افعال میں اختلاف ہے اکثر حنیفہ اور شا فعیہ کے نز دیک وہ افعال مباح ہیں اور دیگر علماء کے نزدیک تا و قتے کہ شرح اجازت زوے تما م ایسے افعال حرام ہیں ہم نے ان افعال کی با بت لکھا تھا کہ کھانے پینے کے متعلق ہیں جس پر ہمارے دوست کا سوال پیدا ہو اہے ہمارے خیال میں اس اعتراض کے دفعیہ کی کوئی اہم ضرورت نہیں کیونکہ یہ اصول اشیاء خوردنی سے متعلق ہو یا افعال کے بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ فی نفسہ اس کا مطلب کیا ہے تا ہم میں اپنے دوست کو شرح مسلم خیر آبادی 90 دیکھنے کی تکلیف دیتا ہوں جہاں یہ لفظ ہیں۔
فحينئذ لايد من القول بتحريم الاشياء كلها
مگر چونکہ میں اس بحث کے اس حصہ کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھتا اس لئے میں نفس مضمون پر آتا ہوں اور اپنے مخاطب کو اجا زت دیتا ہوں کہ وہ جی کھول کر اسی مسئلہ پر نہیں جس مسئلہ پر چاہیں بپا بندی علوم عقیلہ ونقیلہ رسالہ شمس العلوم اور اہلحد یث میں ہم سے روے سخن کر سکتے ہیں ہمارے خیا ل میں اہل علم کو ان علوم کی قدر کرنی چاہئے یہ علوم دراصل خاد مان شر یعت میں ہیں مگر جن لو گوں نے محنت سے ان علوم کو حا صل نہیں کیا وہ کسی خاص فرقے سے تعلق نہیں رکھتے ہوں ان علوم سے تنفر ہیں لیکن ان لوگوں کے تنفر کی وجہ ان کی بے خیری ہے ادربس
اللتيار والتي اس کا مطلب یہ ہے کہ جو افعال متعلق کھانے پینے کے ہوں یا کسی حرکت و سکون کے ہوں جن کی با بت شر یعت میں حکم یا منع نہیں آیا وہ اکثر حنفیہ کے نزدیک مبا ح ہیں جس کی مثال ہم نے دی تھی۔
کہ شغلم کھانے کی با بت کوئی حکم یا منع نہیں اس لئے اس کا کھانا مباح ہے اب دوسری مثال نقل کرتے ہیں کہ صبح و شام سیر کرنے کی بابت حکم یا منع نہیں اس لئے مباح ہے لیکن یہ اصول ان افعال سے متعلق نہیں ہو گا
جن پر فاعل کسی قسم کا ثواب مد نظر رکھے اس کا ثبوت شرع سے ملنا چاہیے اب ہم اس اصو ل کا دوسرا پہلو دکھا تے ہیں ہمارے دوست اور مدراس کے عام طلباء اس اصول کا ہی پہلو دیکھے ہوئے ہیں اس لئے اسی کو صحیح جان کر ہمیشہ اسی کو پیش کرتے ہیں لہذا دوسرا پہلو بھی روشن کرنا ضروری ہے جس سے تمام جھگڑے ہی مٹ جائیں کشف البہم شرح مسلم لکھا ہے
والصحيح ان الاصل في الافعال التحريم وهو مذهب علي وائمة من اهل البيت ومذهب الكوفين منهم ابو حنيفة وفي التفسير الاحمدي الاصل عند الجمهور الحرمة وايضا فيه وعند الشافعي الاصل هو الحرمة في كل حال وفي الاشباه نسبها والشافعية الي ابي حنيفة (٧٤)
یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ افعال میں حرمت ہے اور حضرت علی اور ائمہ اہل بیت کو فی علماء کا یہی مذہب ہے۔
انہی میں سے امام ابو حنفیہ ہیں تفسیر احمدی میں مذکو رہ ہے کہ جمہور کے نز دیک افعال میں حر مت ہے اسی میں مذکورہ ہے کہ امام شا فعی کے نزدیک بھی افعال میں حرمت ہے اورکتاب ابشا ہ میں مذ کو رہ ہے کہ کتا ب اشباہ میں مذکورہ ہے کہ شا فہیہ نے اس مذہب کو امام ابو حنفیہ کی طرف نسبت کیا ہے
اس اصول سے مطلع بالکل صاف ہو گیا۔ کہ کوئی فعل بھی تا وقتے کہ شرح شریف سے اس کا ثبوت نہ ہو جا ئز نہیں ہے۔
چونکہ اسی اصولی مسیلہ میں اختلاف ہے اس کے فیصلے کے لئے ایک اور قانون ہے جو صاحب روا لحتار شا می کے الفاظ میں بیا ن کیا جاتا ہے
اذا تردد الحكم بين سنة ودبدعة كان ترك السنة راحجا علي فعل البدعة (جلد اول مصري ص ٤٥-)
یعنی جب کسی حکم کی سنیت اور بدعت میں اختلاف ہو تو احتیا طا اس فعل کا ترک کر دینا را جح اور ادلے ہے پس اصول اول کے لحاظ سے مو لود رسمی کے کا ر ثواب ہونے کا ثبوت بذمہ فا علین ہے۔ اور اصول دوم کی بنا پر اس کے جواز ثبوت بھی نہیں مل سکتا ہمارے مخا طب کو یاد رکھنا چاہئے کہ امام ابو حنفیہ کس طرف ہیں گو حسب روایت صاحب مسلم اکثر حنفیہ کا مذہب اول ہے۔ مگر حسب روایت کشف البہم امام ابو حنفیہ صاحب کا مذہب ان کے بر خلاف حرمت کا ہے۔ پس ہمارے مخاطب کا بحیثیت حنفی ہونے کے وہی مذہب ہو نا چا ہئے جس کا نقشہ امیر خسرو مر حوم نےیوں بتایا ہے۔
بے چا رہ خسرو ختہ راخون رنحیتن فر مودہ اند
عا لم بمنت یک طرف آن شوخ تنہا یک طرف
اور آخری فیصلہ کی بنا پر رسمی مولود کا نہ کرنا کرنے سے اچھا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب