السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
القاسم میں سوال و جواب اور اس کی تنقید
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مدرسہ دیو بند سے ایک رسالہ القاسم نکلتا ہے جس میں عموما مضا مین تا ریخی ہوتے ہیں اس دفعہ شوال کے پرچہ میں ایک سوال اور اس کا جواب مذ ہبی رنگ میں نکلا ہے ناظر ین اہلحد یث کے خا ص مذاق کا ہو نے کی وجہ سے اس قابل ہے کہ ان تک پہنچایا جا ئے امید ہے کہ نا ظرین اس مضمون کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس کے بعد اس کی تنقید پر بھی غور فر ما ئیں گے۔
سوال۔ در حقیقت اور بطلان واقعی اعتبار معتبر پر مبنی نہیں ہے اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے . جب مذاہب ائمہ اربعہ کی حقیقت پر غو ر کر تا ہوں تو عقل نا ر سا اور اک حقیقت سے قا صر ہو جاتی ہے کیو نکہ ان مذاہب میں با ہم ایسے مسا ئل نظر آتے ہیں ، جن میں کم ازکم نسبت تضاء کی پا ئی جاتی ہے اور یہ مسلم الثبوت امر ہے کہ دو ضد یں جمع نہیں ہو سکیتں پس ان مذاہب کو حق تسلیم کرنے پر واقع ہے اجتماع اضداد حا لت وا حد ہ میں لا زم آتا ہے جس کا بطلان ظاہر تر ین ہے اور یہ بھی ظاہر ہے جیسا کہ عر ض کر چکا ہوں کہ حقا ئق واقعیہ پر حیثیات زائدہ کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا پس ان کے حق ہونے کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ (القا سم ص1)
اس سوال کا مطلب یہ ہے۔ کہ جو بات واقع میں صحیح ہے ہر حال میں صحیح ہے کوئی اسے صحیح مانے یا نہ مانے جن پغمیروں کی تعلیم کو کفارنے نہیں مانا وہ تعلیم واقع میں صحیح تھی گو اسے کسی نے نہ مانا یا ما نا تو کم مانا اور جو غلط ہے وہ ہر حال میں غلط ہے چا ہے اسے ساری دنیا مانے غرض صحت اور غلطی ماننے یا نہ ماننے پر مو قوف نہیں بلکہ وہ اصلیت کے تا بع ہے یہ اصول اور مذاہب میں اپنا ثبوت اور اثر دکھاتا ہے مگر مذاہب اربعہ حنفی شا فعی مالکی اور حنبلی میں اسکا اثر معلوم نہیں ہوتا کیوں کہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ سارے مذاہب حق ہیں حالانکہ ان میں بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ اگر ان کی ایک جانب صحیح ہے تو دوسری یقینا غلط مثلا قرآت خلف الامام میں حنفی مذہب اگر صحیح ہے کہ امام کے پیچھے کچھ نہیں پڑہنا چا ہیئے تو شا فعیہ کا مذہب غلط ہے کہ ضرور پڑہنا چاہیئے اب جو ہم ان دونوں با توں کو صحیح سمجھیں تو اصول مذکورہ کے خلاف و حق و با طل کی حقیقت کو ہم نے واقع سے ہٹا کر اپنے خیالات کے تا بع کر دیا ہے جو کسی طرح جا ئز نہیں پس یا تو اصول مذکورہ کو چھوڑ یئے یا اس خیال کو ترک کیجئے کہ سا رے مذہب حق پر ہیں اسکا جواب فا ضل لبیب نے دیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مجتہد کی با بت یہ اصول ہے کہ وہ جب کو شش کر کے کو ئی حکم معلوم کرے تو گو واقع میں غلط ہو تا ہم اس مجتہد کو بھی ثواب ملتا ہے چنا نچہ بعد طو یل تمہید اور کئی ایک امور ذکر کرنے کے فا ضل مجیب کے خاص الفا ظ یہ ہیں
شیخ تقی الدین ابن دقیق العید فرما تے ہیں کہ مجتہدین کے واسطے ہر ایک واقعہ میں اللہ تعالی کے دو حکم ہیں ایک یہ کہ اس واقعہ کے متلق خدا کا جو کچھ حکم واقع میں ہے جس کی طرف رانمائی کرنے والے لطیف اشارات دا مارات بھی اس نے اپنے کلام میں اور اپنے رسول کے کلام میں نصیب فرما دیئے ہیں اس کو معلوم کریں دوسرا یہ کہ ہر مجتہد بعد اپنی پوری قوت اجتہاد اور انتہائی کو شش صرف کر لینے کے جس نتیجہ پر پہنچتے وہی اس کے حق میں واجب الا تبا ع ہے پس وہ مجتہد جو ایک مسئلہ اجتہاد ی میں پوری ہمت صرف کر لینے کے بعد بھی حق تعالی شانہ کے صحیح منشا اور مطلوب پر مطلع نہ ہو سکا ، اگرچہ اس حکم اول کے فوت ہونے کے اعتبار سے جس کا معلوم کرنا ہر مجتہد کے ذمہ لا زم تھا مخطی کہا جا سکتا ہے لیکن دوسرے حکم کے لحا ظ سے ہر ایک مجتہد کو مصیب بھی کہہ سکتے ہیں کیو نکہ جو کچھ اس نے اپنے علم اور اجتہاد سے معلوم کر لیا اسکے حق میں اب وہی واجب الا تباع قرار دیا گیا ہے تو جن لوگوں نے کل مجتہد مصیب کی آواز بلند کی اگر ان کی غرض یہی ہے جواب ہم نے بیان کی تو بلا شبہ اس میں تمام اہل سنت دالجما عت ان کے ساتھ متفق ہیں اور یہی وجہ تھی کہ صحا بہ رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں کوئی صحابہ دوسرے پر مسائل اجتہاد یہ میں اختلاف رکھنے کی وجہ سے مامت یا طعن و تشنیع نہیں کرتا تھا اور تضلیل یا تبدیع تو کجا ایک کی طرف سے دوسرے کی تا ثیم بھی نہ ہو تی تھی بلکہ ایسےا ختلا فا ت کو تو سیع اور رحمت جان کر ایک دوسرے کے ساتھ نہا یت روا داری کا بر تا ئو کرتے تھے خود احناف کی کتا بوں میں بجز ایسی صورتوں کےجن میں فساد نماز کا مظنہ غا لب ہو اقتدا حنفی کی شا فعی کے پیچھے اور شا فعی کی حنفی کے پیچھے جا ئز رکھی گئی ہے اور بعض مسا ئل میں جہاں فقہاے زمانہ کو شر عا رخصت اور تیسیر کی ضرورت محسوس ہوئی ہے دوسرے ائمہ کی ارا کو معمول بہا بنایا گیا ہے کیو نکہ کسی خاص امام کی تقلید کے لا زمی معنی اگرچہ اس امام کے مذہب کو ثواب اور را حج کہنا ہے لیکن پھر بھی احتمال خطا کا اعتراف اور دوسرے امام کے اجتہا د کے متلق احتمال صواب کی تصر یح مو جود ہے اگر خاص خاص شرعی مصالح جن کا اور اک فقہاء کر سکتے ہیں اس طرف داعی ہوں کہ بعض مسائل میں دوسرے ائمہ کے مذاہب پر فتوی دیا جاوے تو پھر آخر اس احتمال خطا و ثواب سے فا ئدہ ا ٹھانے کا کونسا موقعہ ہے اس لئے یہ محفو ظ رکھنا چا ہیے کہ با وجودیکہ حق عنداللہ کے اعتبار سے ہر ایک مسئلہ میں کوئی ایک ہی مجتہد مصیب ہو تا ہے لیکن عملا سب حق پر ہیں یعنی حق تعالی شانہ نے یہ وسعت دی ہے کہ یہ مجتہد اپنے اجتہاد کے اوپر عمل کر لے اگرچہ اس کا اجتہاد باو جو د پوری کو شش کے ٹھیک نشانہ پر نہ بیٹھا ہو۔
تمثیلا یوں سمجھو کہ کعبہ نفس الامر میں ایک معین مکا ن کا نام ہے اور اسی کا استقبال شریعت میں ضروری قرار دیا ہے۔ فول وجهك شطر المسجد الحرام لیکن جس وقت سمت کعبہ ٹھیک معلوم نہ ہو تو بعد تحری کے جو سمت معین ہو اسی کا استقبال صلوۃ کے لئے کا فی سمجھا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہماری تحری جس طرف ہو ضروری نہیں کہ نفس الا مر میں خانہ کعبہ بھی اسی طرف منتقل ہو جائے پس یہ خدا کی رحمت اور انعام ہے کہ اگرچہ واقع میں مستقبل قبلہ وہی شخص ہے جس کا رخ ٹھیک کعبہ کی طرف ہو مگر تا ہم دوسری طرف منہ کرنے والوں کو بھی تو معنا و حکما مستقبل کعبہ تسلیم کر لیا گیا ہے تو باعتبار کعبہ نفس الا مری اور حکم اولیکے تو فقط ایک شخص مصیب ہے اور سب محظی لیکن باعتبا ر قبول صلوۃ اور امتثال امر ثانی کے سب مصیب ہیں۔
''پس ہر چند کہ عند اللہ محل خلاف میں حق واحد ہوتا ہے مگر عمل میں سب حق ہوتے ہیں اور یہی محمل حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس اشارہ حدیث – کل مجتھد مصیب ولحق عند اللہ واحد امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام کا
كل مجهتد مصيب وان كان الحق في واحد فمن اصابه فقد اصاب الحق ومن اخطاه فقد اخطاه (التقرير والخبير ص ٣—ج٢ مصري)
اورحضرت امام صاحبرحمۃ اللہ علیہ وامام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی ان نصوص کو ہمیشہ یاد رکھیے جن سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہامام صاحب اور دیگر ائمہ اہل سنت سے جو بعض شاذاقوال ہر مجتہد کے تصویب کی نسبت ان کے مشہور ومعروف مذہب المجهتد يخطي ويصيب کے خلاف منقول ہے وہ فی الحقیقت ان کے اصل مذہب کے خلاف نہیں ہے تعجب ہے کہ امام عبدالو ہاب شعرا نی نے بھی میزان کیری میں بیشتر اسی قسم کے اقوال کی سطح سے مدد لی ہے اسی جگہ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ چند نقول مستند کتابوں کی آپ کے سامنے پیش کردوں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اصل مذہب جمہور اہل سنت والجماعت اور ائمہ کی اربعہ کا یہی ہے کہ اجتہادیات میں حق عنداللہ واحد ہے اور اسی بنا پر ہر مجتہد مصیب بھی ہو سکتا ہے اور محظی بھی چا نچہ تحر یر الاصول اور اس کی شرح میں لکھتے ہیں
والمختار ان حكم الواقعة المجتهد فيها حكم معين او جب طلبه فمن اصابه فهوا المصيب ومن لا يصيهه فهو المخطي نقل هذا عن الائمة الاربعة ابي حنيفه ومالك مع والشافعي واحمد وزكر السبكي ان هذا هوا الصحيح عندهم بل نقل الكرخي عن اصحابنا جمعيا ولم يزكر القراني عن مالك غيره وزكر السبكي انه الذي حرره اصحاب الشافعي عنه وقال ابن للسماني ومن قال عنه غيره فقد اخطاء ص ٣-٦ج٣)
’’مذہب مختار یہ کہ ہر واقعہ مجتہد فیمہا میں ایک حکم معین ہو تا ہے جس کی تلاش خدا کی طرف سے لا زم کی گئی ہے پس جس مجتہد نے اس حکم کو پا لیا دہ مصیب ہے اور جونہ پا س کا وہ محظی ہے چنا نچہ ہی خیال چاروں اماموں ابو حنیفہ مالک شافعی احمد رضی اللہ عنہ کا ہے سب کی نے لکھا ہے کہ یہی رائے ائمہ اربعہ کے نزدیک صحیح ہے بلکہ کر نعی نے تو ہمارے تمام اصحاب حنیفہ سے یہی خیال نقل کیا ہے اور قرآنی نے اس کے سواا ماممالک سے کوئی قول نقل نہیں کیا اور سبکی نے ذکر کیا ہے کہ یہی وہ قول ہے جس کو امام شافعی کے اصحاب نےامام شافعی سے منقح کر کے لکھا ہے اور ا بن سعانی نے فرما یا کہ میں کسی نے امام شافعی سے اسکے سوا دوسرا قول نقل کیا ہے اس نے خطا کی ہے ّ
شیخ شمس الدین ابن القیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں۔
وقد صرح الائمة الاربعة بان الحق في واحد من الاقوال المختلفة وليست كلها صوابا (ص١٣- ج٢)
اور ائمہ اربعہ نے تصریح کی ہے کہ اقول مختلفہ میں سے ایک ہی قول حق ہوتا ہے یہ نہیں کہ سب کہ سب قول درست ہیں۔ ( القاسم بابت ماہ شوال 9ص90)
اس جواب کی تشریح یہ ہے کہ مجتہد اپنی نیت صالح کی وجہ سے چونکہ مستحق ثواب ہوتے ہیں اس لئےان کا قول اور خیال بھی ملحق ہے۔
عام طور پر اس سوال کا یہی جواب دیا جاتا ہے مگر چونکہ مدرسہ دیو بند جیسے دارالعلوم
سے جواب نکلا ہے اس لئے جی چاہتا ہے کہ اس جواب پر عالمانہ نظرکی جائے
مجتہد کو نیت صالحہ سے ثواب ملتا ہے لیکن اس سے اسکی غلط رائے کی صحت لازم نہیں آتی غلط ہر حال میں غلط ہے چنا نچہ اسی اصول سے علماء اصول نے کہا ہے اس کی مثال آج کل ہمکو عدالتوں میں بھی نہیں ملتی ہے ما تحت عدا لتوں کی اپیلیں روزانہ ہا ئی کورٹوں میں ہو کر بہت سی منظور بھی ہو جاتی ہیں جس حاکم کے فیصلہ کو غلط قرار دیا جاتا ہے اس کو یہ نہیں کہا جاتا کہ جتنا وقت تم نے اس فیصلے میں لگایا ہے اتنے وقت کی تنخوا ہ تم کو نہیں ملے گی تنخواہ بلکہ سفری بھتہ الا و نس کے ساتھ سب کچھ ملتا ہے لیکن مسل میں فیصلہ غلط لکھا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح مجتہدوں کو اللہ تعالی کے ہاں سے غلطی پر بھی ثواب ملتا ہے مگر غلط آخر غلط ہے پس جس طرح ایک حنفی کا حق ہے کہ مسئلہ قرآت خلف الامام میں اپنے مذہب کو صحیح جانے اور شافعی کے مذہب کو غلط کہے اسی طرح شافعی کا حق ہے کہ مذہب حنفی کو غلط قرار دے پس اصل سوال اس جواب سے مر تفع نہ ہو ا بلکہ اور مضبوط ہوا
جس صورت میں ائمہ مجتہدین کی رائے میں غلطی کا امکا ن بلکہ کثرت سے وقوع بھی ہے تو پھر محض ان کا قول قا بل سند نہ ہوا یعنی بعض مجتہد کی رائے سے فیصلہ کرنا صحیح نہ ہو گا بلکہ معیار صداقت اس کے سوا قرآن و حدیث ہو گا۔ نہ فقط مجتہد کا قول کیو نکہ ممکنہ عا مہ ضردریہ کی نقیض ہوتا ہے فا فہم
پس سوال مذکو ر اٹھنے کے بجائے ترک تقلید کا سوال پیدا ہو گیا کیو نکہ مجتہد کا قول ممکن الغلط ہے اور ممکن الغلط اپنی غلطی رفع کرانے میں خود کسی دوسرے کا محتا ج ہے یہی معنی ہیں۔
اصل دین آمد کلام اللہ معظم دا شتن پس حدیث مصطفے بر جان مسلم داشتن ( اہلحدیث 6ستمبر1918ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب