السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کریم اور سائنس ایک تشریحی مقالہ
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از قلم مو لا نا عبدا لر وف خاں صاحب رحمانی جھنڈے نگری
ہم اس دعوی میں حق بجا نب ہیں کہ قرآن کر یم اور صحیح سائنس میں کسی طر ح کا کو ئی تضا د نہیں ہے۔ آج عموما یہ خیا ل کیا جانے لگا ہے۔ کہ الہا می اور مذہبی کتا بوں میں بہت سی باتیں خلاف عقل ہیں ، لیکن اس نکتہ کا خیال کم رکھا جاتا ہے۔ کہ ہم کیا اور ہماری عقل کیا پھر ایسی عقل سے خدا کے خلا ف لڑائی اور اس کی مذہبی کتاب سے دشمنی کہاں تک ہو زدن ہو سکتی ہے۔ دراصل ہمارا مذہب دوستی اور خدا شناسی میں طر یقہ ہی الٹا ہے۔ ہم مذہب کو اس لئے غلط ٹھہرا دیتے ہیں کہ فلاں مذ ہب کتا ب میں فلاں بات غلط اور خلاف سا ئنس ہے۔ لہذا وہ بات غلط ہے۔ اور جب وہ بات غلط ہوئی تو خود بخود غلط نکلا حالا نکہ چاہیے یوں تھا کہ پہلے ضرورت مذہب سے مطمئن ہوتے پھر عقل کے خلاف جو باتیں بظاہر معلوم ہو تی ہیں ان پر غوروخوض کرتے۔ نہ سمجھ میں آتی تو وہیں رک جاتے اور اپنی عقل کو نا قص کہہ کر خا موش ہو جاتے۔ حد یث میں آیا ہے۔ کہ انسان سوچتا ہے۔ کہ سب عالم کو اللہ تعالی نے پیدا کیا تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا فر مایا کے سوال کے اس نقطہ پر مر کب عقل کو لگام دینا اچھا ہے ،۔ بقول شیخ سعدی
نہ ہر جا ئے مرکب تواں تا خستن کہ جاہا سپر با یدا ندا خستن
طب کی کتابوں میں ایک جگہ یہ دیکھنے میں آیا کہ شیخ الرئیس بو علی سینا مدتوں میں اس غور میں رہا کہ قلب گرم ہے اسے اوپر ہو نا چاہئے اور دماغ سرد ہے اسے نیچے ہونا چا ہیے۔ لیکن معاملہ برعکس ہے۔ خدا وند ی انتظام اور اس کی وضع وتعین کو عقل کے مطابق نہ پا کر بو علی نے خلاف عقل ہو نے کی آواز نہ اٹھا ئی۔ بلکہ حیران و سر گرداں ہو نے کے بعد اپنی عقل کے نقصان اور اپنی را سائیکی کو تا ہی کا اعتراف کرتے ہوئے فتبارك الله احسن الخالقين۔ تلاوت کی بہر حال مذہب شناسی کے غلط طریقوں پر چل کر عقل کو بدنام کرنے کے لئے بہت سے عقل دشمنوں نے یہاں تک لکھ دیا۔ کہ مذہب سا ئینس کی غضب آلو د نگا ہوں کے سامنے ٹھہرنے کی تا ب نہیں لا سکتا۔ دیکھو ہندوں لیڈروں کی تقر یر کا اقتباس مندرجہ پیغام صلح 21 ستمبر1937ء اس کے مقا بل یورپ کے عقلا ء و فضلاء کی رائیں پڑ ھیں جو سا ئنس کے علماء عصر کے پیشوا ہیں خود ان کی زبان سے سنیے مسٹر جمیس نے بر ٹش ایسو سی ایشن میں سا ئینس پر جو خطبہ پڑھا اس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ
تیس سال قبل سائنس کا زور اپنے علم پر تھا۔ آج سائنس کا زور اپنے جہل پر ہے۔ تیس سال قبل معجزات قابل مضحکہ تھے آج معجزات ممکن اغلب بلکہ قطی ہیں عظمت نا پیدا کنار کے جلوے صحیح سا ئنس کو خدا تک لا رہے ہیں۔ )صدق 11 مئی اس حقیقت کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ مذہب و خدا کی ہستی کے خلاف جس قدر اچھل کود سا ئنس کا نام لے کر کی جا رہی ہے۔ یہ قریب خوردہ نا تجر کا ر غیر محقیقن لوگوں کی جا ہلا نہ رویہ سے تعلق رکھتی ہے۔ ورنہ صحیح سائنس اور درست عقل والے محققین کی رائیں اس سے با لکل جدا ہیں۔
مولانا امرت سری مدظلہ العالی اپنے رسالہ شمع تو حید کے صفحہ 24 پر تحریر فرماتے ہیں ،آج سا ئنس کی تحقیق ہے کہ ایک انچ بھر مر بع ہواا ور پا نی میں دس دس کروڑ کیڑے چلتے پھر تے ہیں اس کے پڑ ہینے کے سا تھ ہی مجھے خیا ل گزرا۔ کہ سا ئنس کی تحقیق ہے۔ اس لئے اس کے آگے پر ستاران عقل کا سر خم ہے۔ ورنہ اگر یہ دعوی قرآن کریم میں کیا گیا ہوتا تو مد عیان عقل و سائنس دنیا کے ہر کس ونا کس کے آگے یہ کہتے پھر تے نظر آتے کہ دیکھو قرآنکے غلط ہو نے میں کیا شک ہے۔ دیکھو قرآن والا کہتا ہے کہ صرف انچ بھر جگہ میں سو دو سو کیڑے نہیں لاکھ دو لاکھ کیڑے نہیں کروڑ دو کروڑ کیڑے نہیں بلکہ دس دس کروڑ کیڑے رہتے ہیں۔
بھلا یہ کو ئی ماننے کی بات ہے۔ اگر کسی خا ص مقام کی انچ بھر جگہ میں دس کروڑ کیڑوں کا اقرار قرآن کرتا تو ما ن بھی لیا جا تا لیکن جب اس کا دعوی ہے کہ بلا امتیاز ہوااور پانی کروں کی ہر انچ برابر جگہ میں دس دس کروڑ کیڑے رہتے ہیں۔ تو اب خلاف مشاہدہ و خلاف عقل بات کو کیسے مان لیا جائے وغیرہ۔ لیکن آج چو نکہ سا ئنس مدعی ہے اس لئے سر تسلیم خم ہے ، بعد قیل وقال مجھے یہ حقیقت گوش گزاری کر نی ہے۔ قرآن کریم کا کو ئی اصول بھی عقل خالص دکا مل کے خلاف نہیں ، مثال کے طور پر نمبر دار چند معروضات پیش ہیں۔
سورج غروب نہیں ہوتا بلکہ کسی نہ کسی جگہ ہر وقت نکلا رہتا ہے لیکن قرآن کہتا ہے۔ کہ آفتاب غروب ہوتا ہے۔ اور وہ بھی دلدل میں ہے
جواب۔
قرآن کریم پر یہ افترار ہے کہ وہ آفتاب کو دلدل وغیرہ میں غروب ہو تا ما نتا ہے۔ قرآن کریم کا صاف ارشاد ہے۔ کہ اوٹ میں پڑ جانے سے آفتاب غروب ہوتا نظر آتا ہے لیکن جہاں آفتاب پر کوئی اوٹ نہیں ہوتی وہاں اسی گھڑی آفتاب طالع رہتا ہے ، ذوالقرنین کے قصہ میں ارشاد ہےکے غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو آفتاب سیا ہ رنگ کے پانی میں ان کو ڈوبتا دکھا ئی دیتا ہے اسکے آگے ارشاد ہے۔
حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا﴿٩٠﴾ سورة الكهف ’’جب طلوع آفتاب کے مو قع پر پہنچے تو آفتاب کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے دیکھا جن کے لئے ہم نے آفتاب پر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی۔‘‘ ناظرین کرام۔ آفتاب کو اس قوم پر ہوتے دیکھا جن کے لئے ہم نے کوئی آڑ نہیں رکھی ،کہ الفاظ خود گوا ہیں کہ آفتاب کبھی غروب نہیں ہوتا البتہ جن کی اوٹ میں آفتاب پڑ جاتا ہے ان کو غروب ہوتا معلوم ہوتا ہے اور جہاں اوٹ نہیں ہوتی وہاں آفتاب طالع دکھائی دیتا ہے
چونکہ ہیت قدیم و جد ید سائنس دونوں میں مسلم ہے کہ آفتاب کا کرہ دنیا سے بہت بڑا ہے اس لئے مفسرین کرام نے صاف لکھا ہے۔ کہ آفتاب کا کسی جگہ پر غروب ہوتے دیکھنا محض دیکھنے والے کی نظر کا خیا ل ہے۔ چنا نچہ جلا لین میں لکھا ہے۔
وغروبها في العين والافهي اعضم من الدنيا
اسی طرح خازن معا لم ابن کثیر وغیرہ ہیں۔ میں تصر یح ہے پس معلوم ہوا کہ قرآن مجید وہی نظریہ پیش کرتا ہے جیسے سا ئنس نے مدتوں میں حل کیا ہے ّ
ہے کہ زمین متحرک ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ زمین حرکت کرتی تھی پس ہم نے پہاڑ کا میخ گا ڑدیا۔ چنا نچہ سورہ بناء میں کہا ہے وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا﴿٧﴾ سورة النبإ
جواب۔
قرآن کریم میں اگر میخوں کے گا ڑ نے کا ذکر موجود ہے تو حر کت کا انکار اس سے کیسے معلو م ہوا جس قدر مضبوط یہ میخ گڑی ہو گی اسی قدر زمین کی حرکت کا نظام درست رہے گا س کیونکہ خدا وند کریم نے پہا ڑوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ برابر تیزی سے حرکت کر رہے ہیں پس جس کے ساتھ مضبوط میخ گڑی ہوئی ہے وہ بھی اس کے سا تھ سرعت حرکت برابر کی شر یک ہوئی پس زمین کی حرکت کا انکا ر قرآن کریم کی طر ف منسوب کرنا صحیح نہیں۔ آیت کریمہ یہ ہے
وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ ﴿٨٨﴾سورة النمل
’’اے مخا طب تو پہاڑوں کو سمجھتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر گڑے اور جمے ہوئے ہیں حالانکہ سوہ تو بادلی کی طرح اڑ رہے ہیں یہ اس اللہ کی زبر دست کار یگر ی ہے جس نے ہر شے کو مضبوط بنا یا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب