السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جوا ب سوال آپریشن
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اخبار اہلحدیث 6 شعبان 6 میں افریقہ سے ایک ایک صاحب نے دریافت کیا ہے کہ بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ آپریشن کرانا اسلام میں منع ہے کیا یہ صحیح ہے۔
جواب عرض ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے اسلام میں مشلہ البتہ منع ہے یعنی کسی زندہ کے اعضا بلاوجہ کاٹنے اپریشن عمل جراحی کی مما نعت نہیں ہے دیکھو اسلام میں ختنہ کا حکم ہے جو حکم ہے جو سنت انبیا ء ہے یہ ایک قسم کا عمل جرا حی ہے خو د آ نحضرت ﷺ کا اپر یشن ہو ا ہے جو تا ریخ اسلام میں واقعہ شق صدر کے نا م سے مشہور ہے کہ آ نحضرت ﷺ کا سینہ و شکم چا ک کیا گیا اور اندر ونی کثا فت نکا لی گئی اور پھر ٹا نکے لگا دیئے گئے چنا نچہ حدیث میں آ یا ہے کہ اصحا ب نے آ پ کے شکم مبا رک پر آ خر عمر تک ٹا نکوں کے نشا ن دیکھے نیز غزوات نبو یہ میں سے ایک غزو ہ میں ایک صحا بی کا ہا تھ دشمن کی تلوار سے دوسرے کٹ کر لٹک گیا تھا چو نکہ اس کے پھر جم جا نے کا یقین نہ تھا لہذا خو د ہی ایک ہا تھ سے دوسرے کٹے ہو ئے ہا تھ کو کھینچ کر پھینک دیا تھا اسی طرح جنگ یما مہ میں حضرت ثا بت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ٹا نگ کٹ گئی تھی چونکہ اس کے پھر درست کی امید نہ تھی لہذا حضرت ثا بت نے خو د ہی اپنی ٹا نگ کو کھینچ کر الگ کر دیا ایسے بہت سے واقعات ہیں جو آ پر یشن کے ثبو ت کے لئے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ (اہلحدیث 13/ مئی ٢١ء)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ میں کہ حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب مدظلہ کے بہشتی زیو ر کے حصہ چہا ر م کے 5 / پر مسئلہ را ت کو اپنی بی بی کو جگا نے کے لئے اٹھا مگر غلطی سے لڑ کی پر ہا تھ پڑ گیا یا سا س پر اور بی بی سمجھ کر جو ائی کی خواہش کے سا تھ اس کو ہاتھ لگا یا تو اب وہ مر د اپنی بی بی پر ہمیشہ کے لئے حرا م ہو گیا اب کو ئی صورت جا ئز ہو نے کی نہیں ہے اور لا زم ہے کہ یہ مر دا ب اس عورت کو طلا ق دے دے تو سوال یہ ہے کہ جب دو نوں اس میں بے قصور ہیں تو طلا ق دینے کی کیا وجہ۔ کیونکہ مرد بھی بے قصور ہے بھول کی وجہ سے اور کوئی قصور عورت پر بھی نہیں ہے۔
الجوا ب۔ بہشتی زیو ر سے جو مسئلہ آ پ نے نقل کیا ہے یہ حنفیہ کے نزدیک اسی طرح ہے کہ اگر غلطی سے یا قصدا کو ئی شخص اپنی لڑ کی یا اپنی ساس کے بدن کو بغیر حا ئل پر دہ کے ہا تھ لگا دے اور اس وقت اس کو خوا ہش شہوت ہو تو اس لڑ کی کی ماں یا سا س کی بیٹی یعنی ہا تھ لگا نے وا لے کی بیوی اس پر حرا م ہو جا تیہ ہے اس میں اگر چہ بیو ی کا قصو ر نہیں اور غلطی ہو جا نے کی صورت میں مرد بھی قصور نہیں مگر حرمت کی وجہ دوسری ہے جس میں قصو ر ہو نے نہ ہو نے کو دخل نہیں ہے حنفیہ کا مذ ہب یہی ہے وا للہ اعلم محمد کفایت اللہ مد رسہ امینہ دہلی امید ہے کہ آ نحضور مند رجہ بالا پر روشنی ڈا لیں گے عبدالرحمن چا ول فر وش ذکر یا اسٹر یٹ کلکتہ۔
جواب۔ مسئلہ ہذا اہلحدیث کے نز دیک صحیح نہیں کیو نکہ اس کی تا ئید قرآ ن یا حدیث سے نہیں ہو تی یہ تو صرف دست درازی ہے بلکہ اگر فعل بھی گزرے تو بھی مزنیہ کی ماں یا بیٹی فاعل پر حرام نہیں ہوتی شافعیہ کا مذہب بھی یہی ہے کیونکہ زنا ایک فعل لازم ہے اس کی سزا متعدی نہیں اس فا عل اور مفعول کو شرعی سزا بے شک دو مگر نکا ح توڑ کر اس کی بیوی کو بیوہ کیوں کرتے ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب