السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مندرجہ زیل سوال عرض کرتا ہوں۔ اگر جناب قولہ تعالیٰ۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴿١٠﴾ سورة الضحى... کومد نظررکھ کر جواب باصواب سے مستفید فرمایئں۔ تو اسلامی حمیت سے بعید نہ ہوگا۔
سوال۔ سورہ بنی اسرایئل میں جب محمدر سول اللہﷺ سے پوچھا گیا۔ وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنا﴿٩٠﴾سورة الإسراء.. یعنی چند ایک معجزات ہمیں دکھلا۔ مثلا چشموں کا پھوٹ نکلنا یا آسمان جا کر کتاب لانا تو اس جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا۔
هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا﴿٩٣﴾سورة الإسراء..
آپ یہ تحریر فرمایئں۔ کہ خدا کس بات سے پاک ہے اگر آسمان پر لے جانے سے پاک ہے۔ تو معراج بجسمہ نہ ہوا۔ کیونکہ ا س کی نفی صریح نص سے ظاہر ہوتی ہے دوسرے یہ کہ حضرتاابراہیم ؑ کے ذریعہ (جب انہوں نے احیاء ہوتے کاسوال کیا)اظہر من الشمس معجزہ ظاہر کیا وہاں خُدا وند تعالیٰ نے نفی نہیں کی۔ اور سب سے افضل نبی کریم ﷺکے زریعے مخالفین کے یقین کے لئے سوالات مذکور کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ آپ اس کا جواب مدلل اخبار اہلحدیث میں چھپوا دیں تو اشاعت اسلام کی اشاعت ہوگی اور خدا وند کریم آپ کو جزائے خیر بخشے گا۔ والسلام(الراقم۔ احق العباد کرم الدین سب پوسٹ ماسٹر بازار بھابھڑا شہرراولپنڈی)(اہلحدیث امرتسر 21 ا پریل 16ء)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اخبار اہلحدیث مطبوعہ 22اکتوبر 16ء میں بعنوان مذکورہ بالاجناب بابوکرم الدین صاحب سب پوسٹ ماسٹر راولپنڈی نے سورہ بنی اسرایئل کی چند آیتوں کے مطلب پر کچھ شبہات پیش کرکے اس کا جواب بزریعہ اخباراہلحدیث طلب فرمایا ہے۔ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہےکہ بجائے شبہات کے جواب دینے کے ان کل آیات کی (جو ایک ہی م مضمون سے مربوط ہیں۔ )صحیح اور ٹھیک تفسیر کردی جائے جس سے صاحب موصوف کے وہ سب شبہات بھی دور ہوجایئں گے۔ اور ناضرین کے لئے بھی آیات شریفہ کی تلاوت خالی از برکت ودل چسپی نہ ہوگی۔
پس جناب پوسٹ ماسٹر صاحب خصوصا اور ناظرین اخبار غو ر سے پڑھیں۔ فاقول بتوفیق اللہ تعالیٰ۔ خداوند تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل پ15 ع10 میں کفار مکہ کی شرارتیں اور سرکشی اور گستاخانہ اقوال ار جن امور کے پورا ہونے پر انہوں نے اپنے ایمان کو مشروط کیا تھا۔ اس کو مفصل بیان فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔۔
وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا ﴿٩٠﴾ أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا ﴿٩١﴾ أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا﴿٩٢﴾أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ﴿٩٣﴾
’’اے محمد کفار مکہ تم سے کہتے ہیں۔ کہ ہم تو اس وقت تک ہرگز تم پر ایمان ہی نہ لائیں گے۔ جب تک تم ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ نہ نکال دو گے۔ یا تمہارا کوئی باغ کھجوروں یا انگوروں کا ہو۔ اور اس کے بیچ میں تم (بہت سی) نہریں جاری کردو۔ یا جیسا تم خیال کرتے ہو (عذاب کے طور پر) آسمان کے ٹکڑے ہم پر لاکر گرادو یا خدا او فرشتوں کو ہمارے سامنے لا حاضر کرو۔ یاد رہنے کےلئے) تمہارا کوئی طلائی گھر ہو (تاکہ ہم تمہاری ظاہری شان وشوکت دیکھ کر تم پر ایمان لاویں ) یا تم آسمان پر چڑھ جائو او رتمہارے آسمان پر چڑھنے کو بھی ہم جب ہی باور کریں گے جب تم وہاں سے کوئی ایسی کتاب اتار کرلائو جس کو ہم خود پڑھ لیں ‘‘
ناظرین نے ان آیات اور اس کے ترجمہ کو پڑھ کراچھی طرح معلوم کرلیا ہوگا۔ کے کفار کے سوالات کی نوعیت سرے ہی سے خصومت اورعناد پر مبنی ہے۔ نہ اظہار حق پر۔ پس ان سب امور کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا﴿٩٣﴾سورة الإسراء..۔
’’یعنی (اے محمد کفار مکہ سے ان کی لایعنی اورگستاخانہ اور بے ہودہ باتوں کے جواب میں )کہہ دو کہ میرا رب (تمہاری ان تحکمانہ فرمائشوں اور گستاخانہ اقوال سے) پاک ہے۔ (اس کو تمہارے ایمان کی ضرورت نہیں وہ بے پرواہ اور غنی ہے اور ) میں تو صرف ایک انسان (خدا کا) بھیجا ہوا ہوں۔ (میرےاخیتار میں یہ باتیں نہیں بلکہ معجزات صرف خدا ہی کے اختیار میں ہیں۔ جس کو وہ بندوں کے حال اور مصلحت کے موافق صادر فرماتا ہے۔‘‘
پس اب ان آیات کی تفسیر اور معانی کے بعد اُمید ہے۔ کہ جناب پوسٹ ماسٹر صاحب اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔ کہ یہ ’’سبحان ربی‘‘جو کلمہ تسبیح محل تعجب میں واقع ہوا ہے وہ کفار مکہ کی گستاخانہ اورتحکمانہ فرمائش سے تنزیہہ ہے۔ نہ آنحضرتﷺ کو آسمان پر لے جانے سے بلکہ آسمان پر لے جانے اور معراج باجسم ہونے یا نہ ہونے سے اس آیت کو زرا بھی تعلق نہیں۔ چنانچہ ایسا ہی علامہ بیضاوی بزیر آیت لکھتے ہیں (1)۔
تعجبا من اقتراحاتهم اوتنزيها لله من ان ياتي او يتحكم عليه او يشا ركه احد في القدره (انتهي بلفطه)
پس اس مضمون کو پڑھ کر کوئی سلیم الفطرت انسان یہ نہ کہے گا۔ کہ باوجود ان گستاخیوں اور بے ادبیوں اور تحکمانہ فرمائشوں کے خدا تعالیٰ نے پھر بھی ان کے حسب منشاء معجزات کیوں نہ ظاہر کئے اور نیز ان آیات میں کفار ک طرز کلام سے ہر سلیم الفطرت انسان یہ بھی خیال کر سکتا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جتنی فرمائشیں کیں تھیں۔ وہ سب کی سب بے حد عناد اور محض شرارت پر مبنی تھیں نہ طلب حق پر پس ایسی حالت میں وہ عالم الغیب۔ متین۔ غیور۔ صاحب جاہ وجلال ان کے سوالات کو جو محض عنادا ً تھے۔ کیونکر پوراکرتا۔ چنانچہ قرآن پاک میں چند جگہ اس کا جواب ۔ تفصیلی دیا گیا ہے۔ کہ''اگر ہم کفار کے لئے کوئی کتاب آسمان سےلکھی ہوئ بھیج دیں یاآسمان کے دروزے کھول دیں تب بھی یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے ایمان نہیں لاویں گے۔ اور عادت اللہ بھی ایسی ہی جاری ہے۔ کہ جب کفار کی جانب سے معاندانہ معجزہ طلبی ہوتی ہے۔ تو ہرگز ہرگز اس قسم کے معجزات ظاہر نہیں کیے جاتے۔ اور جو حضرت ابراہیم ؑ نے احیاء موتیٰ کامعجزہ طلب کیا تھا۔ اس کا سبب خود مذکور ہے۔ يطمئن قلبي تاکہ میرے قلب کو اطمینان حاصل ہو۔ اور آپﷺ کی طرف سے تو یہاں کسی قسم کامعجزہ طلب ہی نہیں کیا گیا۔ بلکہ جو کچھ معجزہ طلبی ہوئی وہ کفار کی طرف سے ہوئی اور وہ بھی معاندانہ صورت میں اس لئے وہ جناب باری کیطرف سے پوری نہیں کی گئی پس مجھے امید ہے کہ میری یہ تحریر ان شبہات کے ازالے کےلئےجس کو جناب پوسٹ ماسٹر صاحب نے پیش کیا تھا کافی ہوگی۔ لہذااب میں اپنے ناضرین سے سلام مسنون کہہ کر رخصت ہوتا ہوں۔ اب ان شاء اللہ آئندہ مزاکرہ میں پھر ملیں گے۔
---------------------------------------------
1۔ تفسیر بیضاوی ج1 ص 471 مطبوعہ مطبع احمدی دھلی
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب