السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب مرحوم نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ کی بابت جو قرآن شریف میں آیا ہے۔
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ﴿٦﴾ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ﴿٧﴾ وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ﴿٨﴾ سورة الضحى
(یعنی یتیمی۔ بے خبری۔ اورغریبی) یہ تینوں وصف مجھ میں بھی صادق ہیں۔ میں یتیم تھا بے علم تھا اور غریب بھی تھا۔ خدانے مجھے پرورش کیا اور علم دیا اور غنی کیا اور یہ بھی کہا کہ الحمد للہ میری حالت بھی آنحضرت ﷺ کی حالت کے مشابہ ہوئی کیا ایسا کہنا دعوئے نبوت یا نبوت کی تمہید ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیان مذکورہ کا دعویٰ نبو ت سے کوئی تعلق نہیں۔ یتیم ہونا۔ بے خبر ہونا۔ غریب ہونا۔ یہ تینوں حالات نہ نبوت کے اجزاء ہیں نہ زمانہ نبوت کے واقعات ہیں بلکہ نبوت کے پیشتر کے ہیں۔ آپﷺ کو نبوت چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی۔ مگر یتیم پندرہ سال کی عمر تک تھے۔ غریب پچیس سال کی عمر تک رہے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ہوا تو آپﷺ غنی ہوگئے۔ جو نبوت سے پندرہ سال پہلے کاواقعہ ہے۔ بے خبری یعنی ضیال ہونا تو نبوت کی صریح نقیض ہے۔ پھر نہیں معلوم نہیں ایسے بیان کو دعویٰ نبوت کہنے والا بجائے ااس کے کہ اس کلام کے کہنے والے پر ایساافتراء کرلے۔ اپنے دماغ کا علاج کیوں نہیں کراتا۔ بہت سے بزرگان دین نے اتباع سنت کے شوق میں آپ ﷺکی عمر کی طرح تریسٹھ سال کی عمر کی دعایئں کی ہیں۔ تو کیا یہ بھی نبوت کی تمنا ہے۔ افسوس ہے لوت علم دین اورانصاف سے کیسے دور ہیں۔ ہاں اگر کوئی صاحب اپنی نسبت یہ کہلوادیں۔
عدد جن کے دارین میں روسیاہ ہیں مریدوں کے بخشے گئے سب گناہ ہیں۔
یا یہ شعرسن کر اظہار خوشی کریں کہ
تو وہ مسیح نفس ہے کہ قُم اگر کہہ دے رہے نہ گور میں مردے کو عذر (1)بے جانی
تو ایسے پیر صاحب کی نسبت یہ خیال ہوسکتا ہے کہ ان کو مرتبہ نبوت یا الوہیت کا خواب شاید آتا ہوگا۔ (اہلحدیث 5 جنوری 1912ء)
--------------------------------------------
1۔ یہ دونوں شعر پیر جماعت علی شاہ علی پوری کے حق میں مریدوں نے شاہ صاحب کو سنائے۔ اور جناب موصوف سے انعام پائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب