سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(657) چندسوال بغرض جواب

  • 7293
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 967

سوال

(657) چندسوال بغرض جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چندسوال بغرض جواب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چند سوال بغرض جواب

 بخدمت جناب مولنا مولوی ابو الوفا ثناء اللہ صاحب دام فیوضکم۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ باادب التماس ہے کہ زیل کی عرائض بمنزلہ سوال تصور فرمادیں۔ اور جواب باصواب بدلائل نص قرآن وحدیث مفصل درج اخبار گوہر بار (رسالہ اہلحدیث) میں فرماکر مشکور فرمایئں۔ اور عند اللہ ماجور ہوں۔ سوال حسب ذیل ہیں۔

1۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ﴿٦سورة المائدة

’’اے مومنوں ! نماز کے وقت اپنے منہ اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو۔ (یہ اہلسنت والجماعت کے معنی ہیں ) آیت موصوفہ ایک شعیہ صاحب کی پیش کردہ ہے۔ جس کی رو س وہ صاحب کہتے ہیں۔ کہ اللہ کا حکم سر اور پاؤں کا مسح کرناہے۔ پاؤں کا دھونا آیت موصوفہ سے ظاہر نہیں۔ ہرچند مثالیں دے ک سمجھا یا گیا۔ یہاں تک کہ ایک لمبی حدیث کا ذکرکیا۔ کہ ایک دفعہ جبرئیل امین آئے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو خود وجو کروایا۔ اور پائوں دھلائے۔ مان تو گئے۔ مگر حدیث بحنبسہ مانگتے ہیں۔ لہذا التماس ہے کہ اگر اوردوچار ثبوت پائوں کے دھونے میں ہوں تو ضروری درج فرمایئں۔

2۔ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٢﴾ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ

سورۃ جمعہ میں پہلی آیت مبین پر ٹھرنا کفر بتاتے ہیں۔ دلیل دیتے ہیں کہ گو آیت ختم ہے اور بڑا وقفہ ہے۔ لیکن چونکہ اس پرحرف لا پڑا ہے۔ اس لئے اگلی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھنا ضروری ہے۔ ورنہ کفر لازم آئے گا۔ ادھر یہ جواب بدلیل حدیث دیا گیا۔ کہ آپﷺ ہر آیت پر ٹھرتے تھے۔ کیونکہ آیت ختم ہوجاتی ہے۔ جن پر شعیہ صاھب نے کہا کہ پھر یہ ''لا''کیوں تجویز ہوا۔ ااورایسے ہی ااور مثلا ج۔ ص۔ وغیرہ۔ پھر ادھر سے جوابدیا گیا۔ گو یہ حرف ہیں مگر آپﷺ کا جو حکم ہے۔ تو پڑھناضروری ہے۔ مگر مذید ثبوت کا طالب ہے۔ اس کا جواب بھی مدلل عطا ہو۔

3۔ فرقہ شیعہ کہاں اور کب شروع ہوا۔ اور اس کا بانی کون تھا۔ اہل کوفہ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر چڑھے کون تھے؟جواب مدلل کا انتظار ہے۔ (تابعدارخریدار نمبر 5۔ 29۔ از گھوراول)

اہلحدیث

آیت غسل کا جواب تو صاف ہے۔ شیعہ صاحب سے دریافت کیا جائے کیا وجہ ہے۔ کہ رُئوسكم مجرور ہے۔ یعنی اس پرزیر ہے اور ارجلكم منصوب ہے۔ یعنی اس پر زبر ہے اگر وہ علم نحو زرا سا بھی جانتا ہوگا۔ تو فورا ً مسئلہ حل ہوجائے گا۔

ہمارے ملک میں مرزا صاحب قادیانی ایک صاحب گزرے ہیں۔ جن کو سب لوگ جانتے ہیں آپ نے ایک پیشگوئی کی تھی کہ عبد للہ آتھم(عیسائی) پندرہ ماہ میں بسزائے موت دوزخ میں جائے گا۔ اس پیشگوئی کا حشر یہ ہوا تھا کہ پندرہ مہینوں کی میعاد سے دو سال بعد وہ مرا تا ہم مرزا صاحب کے مُریدوں نے مرزا صاحب کو نہیں چھوڑا یہ واقعہ کس قدر حیرت انگیز ہے۔ مگر میرے نزدیک موجودہ قرآن کے ہوتے ہوئے کسی صاحب کا پیروں کےمسح پر اعتقاد رکھنا قادیانی پیشنگوئی سے عجیب تر ہے۔ ایک دفعہ ایک والئے ریاست نے مجھ سے پیروں کے مسئلے کاسوال کیا۔ فرمایا کہ آپ اہلحدیث ہیں مسح کرتے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ کیوں میں نے کہا۔ مسلمان لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری کتاب کسی صندوق یا کاتب کی محتاج نہیں بلکہ سینوں میں محفوظ ہے۔ لیکن حفظ کے نتیجے سے انکار کرتے ہیں۔ یعنی قرآن مجید جو حافظوں ک سینے میں ہے۔ اس میں پیروں کے دھونے والی قراءت ہے۔ اس کو تو قبول نہیں کرتے۔ اور شاذ قراءت کو لیتے ہیں جس میں ارجلکم (زیر سے) آیا ہے۔ نواب صاحب یہ سن کر خاموش رہے۔ الحمد للہ!

نمبر 2۔ آیات پر وقفے اور عدم وقفے یہ سب قاریوں کی اصطلاح ہے۔ آپ ﷺ کے عہد ہدایت مہد میں عربی طریق سے پڑھتے تھے۔ جہاں فقرہ ختم ہوتا ٹھرتے جیسے انگریزی اُردو اور فارسی کا دستور ہے۔ اس بات میں کفر کے فتوے دینا ناواقفوں کا کام ہے۔

نمبر3۔ شاہ عبد العزیز صاحب مرحوم نے تحفہ اثناعشری میں اس فرقہ کی ابتداء عبد اللہ بن سبا سے لکھی ہے۔ میرے نزدیک شروع شروع سے میں یہ اختلاف پولٹیکل خیالات پر مبنی تھا ہوتے ہوتے مذہبی دنگل بن گیا۔

امام حسین رضی للہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ کے لوگ یزید کی فوج تھی کلمہ گو تھے اسلام کے قائل تھے پولٹیکل نشہ نے اون کو امام مرحوم سے مقابلہ کروایا۔ باقی ان کا انجام خدا کومعلوم۔ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 643

محدث فتویٰ

تبصرے