السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہندوستان میں بعض جگہ پرامام اور بعض جگہ نبی مسیح وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔ اور ان لوگوں کو ماننے والے بالکل اسی طرح مانتے ہیں۔ جس طرح حضورﷺکے زمانہ میں صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین مانتے تھے۔ اس لئے میری غرض یہ ہے کہ ایک شخص معمولی پڑھا لکھا ہو اور مزہبی علم اس کو نہ ہو تو ایسے شخص کو کسی امام سے ملنے کا اتفاق ہو تو دس پانچ آیتیں او ر دس بیس حدیثیں بیان کردیتے ہیں۔ اوراس طرح یقین دلاتے ہیں۔ کہ امام کے بغیر زندگی بے کار ہے۔ نجات ہی نہیں ہوگی اور اس طرح ہر ایک ماننے والا کرتا ہے۔ معمولی لکھے پڑھے آدمی کو شبہ ہوجاتا ہے۔ کہ یہ سچ ہی کہتے ہوں گے ایک گروہ بھی ہے جو یہ کہتا ہے۔ کہ اس فرنگی حکومت میں امام ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کہنا یہ ہے کہ جو امام حد نہ لگاسکے۔ شرعی قانون جاری نہ کرسکے۔ اور معمولی بات کےلئے بھی انگریزی قانون کی مدد لے۔ تو ایسے کمزور امام کی ضرورت نہیں۔ ماب شرعی حکم فرمایئے۔ ایسے کم علم شخص کے لئے بھی حکم خدا وفرمان رسول ﷺ ہے۔ یا نہیں ایساآدمی حق وباطل کو کس طرح سمجھے یا آنکھ بند کرلے مان لے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل بڑا ہوشیار ہے وہ خود ہی کسوٹی پیش کرتا ہے اور خود ہی سوال کرتا ہے۔ آجکل کے پیغمبروں کی پہچان ان کی پیشنگوئی سے ہوسکتی ہے۔ اگر وہ جھوٹی ہیں تو وہ بھی جھوٹے ہیں۔ چاہے ہزار آیت پڑھیں۔ بس یہی پہچان ہے۔ امام کا لفظ شریعت میں چند معنوں میں آیا ہے۔
1۔ اما م ہدایت۔ يهدون بامرنا (2)اور امام نبوت اني جاعلك للناس اماما (3)امام سیاست یعنی بادشاہ الامام جنة يقاتل من ورائه (4) امام صلواۃ۔
ان چاروں قسم کے حکم الگ الگ ہیں۔ امام نبوت کا منکر کافر ہے۔ امام سیاست کا مخالف بشر ط یہ کہ اس کی رعیت میں داخل ہو باغی ہے۔ امام ہدایت کا مخالف ہدایت پا کر اور سمجھ کر مخالفت کرنے والاگمراہ ہے۔ امام صلواۃ کا حکم حالت نماز میں موافقت کرتا ہے۔ بیرون نماز ضروری نہیں۔ ان چاروں قسموں کے اماموں کے احکام الگ الگ ہیں۔ سائل کو جس قسم کے امام سے معاملہ پڑا ہے۔ اس سے اس کی امامت کی تعین کرائے پھر اس پر غور کیجئے۔ مثلا اگر وہ امام ہدایت کرنے کا مدعی ہے۔ تو اس سے سیاست کے اجراء کا سوال نہیں ہوگا۔ اور نہ وہ زمہ دار ہے۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرھم رضی اللہ عنہم تھے۔ اگر وہ سیاست کا مدعی ہے تو پھر اس کے متعلق سوال ہوگا۔ حدیث بھی اسی کے متعلق ہے۔ سائل ان شعبوں کو الگ الگ سمجھے۔ جیسے علم نحو میں اسم فعل حرف کی تعریفیں اورحکم الگ الگ ہیں۔ اسی طرح علم شریعت میں امام کے اقسام اور حکم الگ الگ ہیں۔ ایک کو دوسرے کے ساتھ ملانے سے مقصد خبط ہوجائے گا۔ (اہلحدیث امرتسر جلد 44نمبر8)
شرعاً مسئلہ امارت کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ کسی امام مسجد یا کسی مدرس کو امیر المومنین کہہ دیاجائے۔ توامارت شرعیہ کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یا محض اس منتر کے پڑھ دینے سے فورا انسان میتۃ جاہلیۃ سے بچ جاتا ہے۔ بلکہ جاہلیت کی موت کےلئےضروری ہے۔ کہ ایک صحیح اور فعال نظام ہو۔ اور عامۃ المسلمین اس سے وابستگی پیدا کریں گے۔ ایسی کمزور اور بے مقصد امارتوں کو شرعی امارت کہنا مفہوم امارت کی تضحیک ہے۔ اور اس کے مقاصد کی توہین۔ ان کمزور امارتوں کا شاہکار صرف زکواۃ کی وصولی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب