السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتاب الامارت - افتتاحیہ - از علامہ جلیل حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(از علامہ جلیل حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب (گوجرانوالہ)
اسلامی نظام کے ضروری اجزا امارت شو ری اور انتخا ب ہیں اسلامی نظام میں یہ تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔ امارت ایک ایسا عہدہ ہے ۔ جسے خلا فت کا قائم مقام سمجھنا چا ہیئے خلیفہ دنیا میں احکا م الٰہی کا نفا د کرتا ہے ۔ مخلوق کے حقو ق کی حفا ظت کا ذمہ دار ہے ۔ سر حدوں کی حفا ظت نظام مملکت کی اصلا ح اور نگہداشت اس کا فرض ہے۔ اس لئے ضروری ہے ۔ کہ زود یا بد یرا سے اس قدر قو ت حا صل ہو جس سے وہ یہ جملہ انتظا ما ت کر سکے زکو ۃ صدقات اور مختلف اموال کی تحصیل کا حق امام اور امیر کو حا صل ہے کی رسول اللہ ﷺ اور خلا فت را شدہ کے دور میں زراعت اور جا نوروں زکوۃ جبرا حکومت و صول کرتی تھی البتہ نقود کی زکوۃ میں اہل خیر ہر اعتما د کیا گیا ہے ۔ کہ وہ خود ادا (1) کر یں۔
قال ابو عبيده كل هذه الاثار التي زكرنا ها في دفع الصدقة الي ولاة الامر ومن تفريقها هومحمول به زلك في زكواة الذهب والورق خاصة اي الامرين فعله صاهبه كان مود يا للفرض الذي عليه وهذا عندا هو قول اهل السنة والعلم من اهل الحجاز والعراق وغيرهم في الصامت لان المسلمين موتمنون عليه كما القنوا علي الصلواة واما المواشي والحب والثمار فلال يليها الا الا ئمة وليس لوليها ان يغيها عنهم وان هو فرقها ووضعها مواضعها فليست قاضية عنه وعليه اعادتها الهيم فرقت بين زالك السنة والاثارهم قا ل ۔
’’ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں کہ مذ کو رہ اثار کا مطلب یہ ہے کہ سو نے اور چا ندی کی زکوۃ خلیفہ کو دے دے یا خود بانٹ دے فرض ادا ہو جا ئے گا عراق و حجاز میں ائمہ سنت کا یہی مذ ہب ہے۔ اس مسئلہ میں مسلما نوں کو امین سمجھا گیا ۔ جیسے وہ نماز کے متعلق امین میں لیکن یہ اختیار اموال صا متہ میں ہے ، جا نو ر غلہ اور پھلوں کی زکوۃ امیر ہی کو دی جا ئے گی اگر مالک خود تقسیم کرے تو ادا نہیں ہو گی معلومات ہو تا ہے ۔ کہ ظاہر اموال جن کا تعلق ہماری نظروں سے ہے اور سر سری طور پر ان کا محا سبہ کیا جا سکتا ہے ، ان کے لئے مصدق اور محصل بھیج کر زکو ۃ وصول فر ما لی گئی اور لاجلب ولا جنب ارشاد فرما کر تاکید فرمائی گئی۔ کہ زکواۃ سے بچنے کےلئے کوئی حیلہ اور بہانہ نہ کیاجائے۔ اور مخفی اموال کے متعلق اعتماد فرمایا گیا۔ زکواۃ نہ دینے پرجو وعید اور سزا شارع جل شانہ نے مقرر فرمائی ہے۔ اسے واضح فرما کر دیہانت پرچھوڑ دیا گ یا۔ محاسبہ کی گرفت سے بچنے کےلئے جو اخلاقی برایئاں عموماً دولت مند کرتے ہیں۔ جیسے آجکل ہم دیکھتے ہیں۔ محکمہ انکم ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس سے بچنے کےلئے عوام اور مسلمان کس قدر کمزوریاں ظاہر کرتے ہیں۔ شارع نے عامۃ الناس کو اس سے بالکل سبکدوش فرمادیا اور اسے انسان اور خدا کامعاملہ قرار دے دیا گیا۔ جو شخص اپنے مال کی پوری زکواۃ ادا نہیں کرتا۔ وہ عند اللہ مجرم ہے۔ قیامت کےدن ان کی جلی ہوئی پیشانیاں اور جھلسے ہوئے پہلوان کی اس بدعملی کےشاہد ہوں گے لیکن ان پر حساب کی زمہ داری ڈال کر انہیں جھوٹ اور بددیانتی پر مجبور نہیں کیا گیا۔ سخت قوانین کا یہ پہلو بڑا ہی خطرناک ہے۔ کے انسان اس کی گرفت سے بچنے کےلئے جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے۔ تاجر دو دو حساب رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ رشوت دے کر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمال حکومت اور ملازم رشوت کے عادی ہوجاتے ہیں۔ حکومت سخت گیری سے ایک چور دروازہ بند کرتی ہے۔ لیکن بیس چور دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ اس لئے دنیا بد اخلاقی کے جہنم میں گرتی چلی جاتی ہے۔ یہ مقام حکومت اور رعایا دونوں کےلئے خطرناک ہے۔ اموال ظاہرہ اور باطنہ میں تفریق فرما کر شارع حکیم نے تقریباً تمام دروازے بند کردیئے اور سرمایہ دار کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے۔ کہ اگر وہ تباہی سے بچنا چاہے تو بچ سکے گا۔ اگر بخل کرے۔ اور نقد مال کی زکواۃ نہ خود ادا کرے۔ نہ حکومت کو دے۔ تو یہ عند اللہ مجرم ہے۔ حکومت اس معاملے میں مداخلت کی مجاز نہیں جب تک یقینی طور پرثابت نہ ہوکہ وہ شخص زکواۃ نہیں دیتا۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں شخص زکواۃ ادا نہیں کرتا تو امیر کو حق ہے۔ کہ وہ دوگنا رقم وصول کرے۔‘‘
امارت کا جو بخل میں نے زکر کیا ہے۔ قرآن کریم نے اے تمسکن فی الارض سے تعبیر کیا ہے۔ جو ان تمام ضروریات کا جامع ہے۔ جس کا زکر میں نے فرائض امارت میں کیا ہے۔ علی لفور اس نظام کا بام عروج پر پہنچ جانا ضروری نہیں ۔ آخری منزل تدریج ہی سے سامنے آئے گی۔ لیکن تاسیس میں ان ارتقائی مدارج کے آثار نمایاں ہوناضروری ہے۔
اسلام نے عوامی حکومت کی نہ صرف حمایت کی ہے۔ بلکہ یہاں حکومت کے لئے ضروری ہے۔ کہ عوامی ہولیکن عوامی حکومت کے عام مفہوم اور اسلامی مفہوم میں بہت زیادہ فرق ہے۔ عوامی حکومت کا عام مفہوم وہی ہے۔ جسے کیمونسٹ اور اختراکیت زدہ حضرات عموماً استعمال فرماتے ہیں۔ کہ وہ عوام کی رائے سے بنائی گئی ہو۔ اگر عوام کی رائے اسی قدر مستند ہوجائے۔ کہ وہ سیاسی معمول کو جل کر سکیں۔ اور ایسے آدمی کو انتخاب کرسکیں۔ جو ان سیاسی زمہ داریوں کو نبھا سکے۔ جو بحیثیت امیر مملکت اس پر عائد ہوتی ہے۔ تو ایسے لوگوں کو عوام کہنا ان پر ظلم ہے۔ اس لئے عوامی حکومت کی اصطلاح اس مفہوم کے لہاظ سے محض جذباتی ہے اور عوام ہی کے جذبات کو اپیل کےلئے بنائی گئی ہے۔ ہم انتخابات میں دیکھتے ہیں۔ کچھ پڑھے لکھے اصحاب غرض خود ہی عوام کورائے بتاتے ہیں۔ اور ان رائے کو اپنی ذاتی اغراض کا انجکشن دے کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ اسلام کے نقطعہ نظر سے ایسے اہم امور میں ارباب بست وکشاد کی رائے اصل فیصلہ کن رائے ہے حکومت کی تشکیل میں اساسی چیز عوام کی نُصحت (خیر خواہی ) ہے۔ یہی دین کا اصل مقصد ہے۔
الدين النصيحة لله ولرسوله ولائمة المسلمين وعامتهم
’’دين خدا اور اس كے رسول ﷺ کی خیر اندیشی اور حکام ار عامۃ المسلمین کی خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘
قرون خیر میں انتخابات کی مختلف صورتیں سامنے آئی ہیں۔ لیکن آئینی طور پر انتخاب کو نہ ان چار صورتوں میں حصہ فرمایا گیا ہے۔ اور نہ کسی ایک کو ہی پسند کیا گیا ہے بلکہ کوشش کی گئی ہے۔ کہ کوئی ایسا آدمی ا س بوجھ کو اٹھائے۔ جو مساکین کو اونچا کرسکے۔ اور خود مساکین کی سی زندگی بسر کرے۔ سقینہ بنی ساعدہ میں سب سے پہلا اجتماعی انتخابی ہوا۔ جو بالکل اتفاقی ار اصطلاحی طور پر غیر آئینی تھا۔ لیکن ارباب حل وعقد کی جو تعداد یہاں جمع ہوئی ۔ وہ شاید کسی بڑے بڑے اجتماع میں جمع نہ ہوئی ہوگی۔ مختلف تجویزوں کے بعد دو نام خلافت کے لئے پیش ہوئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرا امید وار انصار کی طرف سے تھا۔ مگرحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ہاوس کے سامنے ایک ایسی مبارک شخصیت آگئی۔ جس پر انصار اور مہاجر سب خوش ہوگئے۔ اور مذید غور اور بحث وتنقید ی ضرورت ہی نہ رہی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شاید دو ووٹ نہ مل سکے گویا ارباب بست وکشاد کا یہ گروہ پارٹی بازی سے زہن کوخالی کرکے جمع ہوا کہ کوئی آدمی ایسا منتخب ہوجائے۔ جو اس نظام اور اس خدمت کی زمہ داریوں کو اٹھانے کا پوری طرح اہل ہو۔ جب وہ سامنے آگیا۔ تو دوسرے امید وار کا سوال ہی ختم ہوگیا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت ڈھائی سال رہی معلوم ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عوام کی کس قدر خدمت فرمائی۔ جہاں تک تاریخ کی شہادت ہے۔ کوئی معتمد آواز بھی خلافت مآب کے خلاف بلند نہ ہوئی۔ بلکہ فتوحات کےلئے زمین کو اس طرح ہموار کرلیا۔ کہ خلیفہ ثانی سرپٹ دوڑتے گئے۔ اور یکے بعد دیگرے ممالک پر اسلامی پرچم لہراتاگیا۔ یقیناً یہ فتوحات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہویئں لیکن ان کے لئے زمین ہموار خلیفہ اول ہی نے فرمائی۔ فتنہ ارتداد کو کس صفائی ار کس عجلت سے ختم فرمایا مانعین زکواۃ کو کس حسن تدبر سے ہموار فرمایا۔
اللهم ارض عنه وارفع ورحمة في اعليٰ عليين
دو سرا انتخابی اجتما ع ڈھائی سال کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس فر مایا کہ وقت قريب ہے تو مدینہ اور اس کے قرب وجوار کے ارباب بست وکشاد کی رائے معلوم کرنا شروع کیا متعد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ فرمایا اس کے بعد ایک تحر یر ی اعلا ن کےساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام پیش فرمایا یہ نا مزدگی خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کئی دنوں کی محنت کا نتیجہ تھی علا لت کے ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بہترین مشغلہ رہا یہ نا مزدگی کئی دنوں کے گہرے غور وخوض اور ارباب حل وعقد کے مخلصانہ مشوروں کا نتیجہ تھی اسے انتخاب کہیے۔ یا نامزدگی لیکن اس کے پیچھے شوریٰ کی مقدس قوتیں پنہاں تھیں۔ اور اس مقدس شورائی نامزدگی سے امت کو بے حد فائدہ پہنچا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس نامزدگی کےلئے حضرت ابو بکر نے بچوں اور عورتوں تک کی رائے دریافت فرمائی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ انسان کتنا ہی نیک دل دل کیوں نہ ہو۔ دنیا کی بدگمانیوں سے نہیں بچ سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخم لگنے کے بعد جلد ہی معلوم ہوگا۔ کہ وہ جانبر نہیں ہوسکیں گے۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے عامہ معلوم کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے۔
تیسرا اانتخابی اجتماع ۔ عوام کی حالت کے متعلق حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت کچھ معلوم تھا۔ ایسا آدمی جس پر پورا اطمینان ہو کوئی نظر میں نہیں تھا۔ اس لئے چھ بزرگوں کے متعلق معاملہ سپرد کرکے اپنی زمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ اور اس وقت یہی کچھ ممکن تھا۔ اس سے مزید زمہ داری ممکن ہی نہ تھی۔ اور ان چھ آدمیوں کا آخری فیصلہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی سال بڑے اطمینان سے گزرے۔ اواخر خلافت میں عبد اللہ بن سبا کی فتنہ انگریزی سے بہت بڑا فساد ہوا جس کا نتیجہ حضرت عثمان کی دردناک شہادت تھی۔ ارباب بست وکشادگی اس فساد کو روکنے میں ناکام رہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وزبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے مقتدر حضرات مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ مگر فساد نہ رک سکا۔ ان میں سے کوئی بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کو پسند نہیں کرتا تھا۔ مگر شرارت پسند عنصر کو کوئی بھی لگام نہ دے سکا۔ اور بے شعوری میں ظلم بپا کیاگیا۔ جس کا وہم وگمان نہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پورے چالیس دن پانی روکا گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی وقت چھپ چھپا کر پانی پہنچا دیتے۔ ان حالات میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی انتظام نہ کرسکے۔ اور ایسے ناخوشگوار حالات میں شریف آدمی کر ہی کیا سکتا ہے۔
چوتھا انتخاب۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بوجھ بڑی ہچکچاہٹ سے اٹھایا وہ خوب سمجھنے تھے کہ جو لوگ اس وقت اس مہم کی سربراہی کر رہے ہیں۔ وہ دراصل اس کے اہل نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کو ارباب حل و عقد شمار کیا جاسکتا ہے۔ نہ ہی ان کی رایئں درست ہیں۔ نہ ہی ارادے صحیح یہ شرارت کے سرغنہ ہیں۔ ان سے کسی صلاحیت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر کوئی سنجیدہ آدمی اس وقت نظام حکومت اپنے ہاتھ میں نہ لے۔ تو نہ معلوم امت کی تباہی کےلئے کتنے اور چور دروازے کھل جایئں گے۔ مفسدین کے ہاتھ میں اگر نظام چلا گیا۔ تو نہ شرفا کی جان سلامت ہوگی نہ آبرو۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ کے جس طرح بھی ممکن ہوسکے نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے۔ تاکہ اصلاح کی راہ میں رکاوٹیں کم سےکم حائل ہوسکیں۔
چنانچہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بعیت ارباب حل وعقد نے نہیں کی۔ ان چار طرق میں سے پہلے تین یقیناً انتخاب کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ ان میں ممکن طور پر ارباب حل و عقد کے مشورہ کی کوشش کی گئی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامعاملہ اتنا انتخابی ہے نہ شورائی حالات کا ناگزیر تقاضاہے۔ جس میں جہاں تک حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت نبوت کا تعلق ہے۔ وہاں خلوص کے سوا کوئی چیز نہیں ہے۔
اسلام نظام میں شوریٰ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حضرت عمر معمولی معمولی حوادث میں مشورہ کےلئے عامۃ المسلمین کی طرف رجوع فرماتے ان کی مثالیں ان کے دو ر خلافت میں بڑی کثرت سے ملتی ہیں۔ معمولی مسائل کے لئے مشورہ طلب فرماتے۔ خود آپﷺنے غزوہ بدر حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے اپنے جنگی موقف کو بدل لیا۔ غزوہ احد میں عامہ المسلمین کی خواہش کے مطابق شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ اور میدان جنگ جبل احد کے دامن میں تجویز فرمایا۔ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺکے مشورے کو مسترد کردیا۔ آپﷺ نے اس پرقطعی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ حضرت ابو یرہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
مارايت قط احدا اكثر مشوره لاصحابه من رسول الله صلي الله عليه وسلم (معالم النتزيل اللخطابي ص ٦٧جلد٤)
سنن دارمی میں ہے۔ ماندم من استخار ولاخسر من استثناء، ۔ استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی۔ اور مشورہ کے بعد خسارہ نہیں ہوتا۔ صلح حدیبیہ سکیم حضرت ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے طے پائی تھی۔ معالم السنن وغیرہ۔
قرآن عزیز نے شوریٰ کا تذکرہ دو مقام پر فرمایا ہے۔ سورۃ شوریٰ میں جہاں اہل ایمان اور اصحاب توکل کے خواص اور خوبیوں کاتزکرہ فرمایا ہے۔ وہاں استحجابت للرب۔ اقامت الصلواۃ۔ اورانفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ امرھم شوریٰ بینھم فرما کر مشورہ کرنا بھی مومن کی ایک خاص خوبی بتایا گیا ہے۔ معلوم ہے کہ سورۃ شوریٰ مکی سورۃ ہے۔ جہاں ابھی نظام امارت اور اوردستور حکومت کی تشکیل کاکوئی خاص تصور سامنے نہیں تھا۔ اسی لئے اس کا تذکرہ ایمان کی خصوصیات میں مخصوص انداز میں آگیا۔ اس سے آپ اندازہ فرماسکتے ہیں کہ اسلامی زندگی میں مشورہ کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہے۔ جس قدر نماز کو حاصل ہے۔ سورہ شوریٰ میں آیت 37تا39غور سے پڑھیں۔ اس سے شوریٰ کی اہمیت واضح ہوجائےگی۔
سورہ آل عمران مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ جہاں نظام جہانداری ار جہانبانی کا آغاذ ہوچکاتھا۔ اس وقت آپﷺکے مزاج اور اس کے شورائی افتاد کا تزکرہ جچے تل الفاظ میں اس طرح فرمایا۔ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تمہاری طبیعت نرم ہے۔ اگر تندخو اور سخت دل ہوتے توعامۃ الناس آپ ﷺکے قریب تر نہ آتے۔ آپ انکی لغزشیں معاف فرمایئں۔ اور انکےلئے اللہ سے بخشش طلب فرمایئں۔ اور اپنے ضروری امور میں ان سے مشورہ طلب فرمایئں۔ اور جب معاملہ طے ہوجائے۔ تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ فرما کر اسے گزرایئے اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔‘‘
فاذا عزمت میں عزم سے پہلے فاء تعقیب کا مفاد یہ معلوم ہوتاہے۔ کہ عزم مشورہ کے بعد ہی ہوگا۔ گویا مشورہ عزم کاجز ہے۔ اس سے مشورہ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ مشورہ شرعا ً ضروری ہے۔ امیر پرواجب ہے۔ کہ وہ اپنے رفقاء سے مشورہ کرے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتدین سے قتال اور مانعین زکواۃ کی سزا کے متعلق اپنے ساتھیوں سے مشورہ فرمایا۔ جیش اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مشورہ کیا۔ مشورہ کے ردوقبول میں امام کے اختیارات کیا ہیں۔ اور ان اختیارات کے استعمال کی حدود کیا ہیں۔ یہ ایک دستوری مسئلہ ہے۔ جسے ہر دور میں ارباب فکر کی صوابدید کے مطابق طے ہونا چاہیے۔ نصوص میں نہ اس کی تصریح ہے۔ اور نہ ہی ایسی چیزیں نصوص میں آنا ضروری ہیں۔ البتہ ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں۔ جہاں امیر نے شوریٰ کو مسترد کردیا۔ یہ دستوری مسائل ہر دور اور ہر ملک کے دانش مندوں کی رائے سے طے ہونے چاہییں۔
اسلام میں شوریٰ کی اہمیت قرآن اور سنت سے ظاہر ہے۔ ابتداء امرائے بنو امیہ نے استبدادی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ اورخلافت موروثی ہوگئی۔ اس وقت علماء نے اس کی مخالفت کی۔ استبداد اور وراثت کو ناپسند کیا۔ لیکن عباسی حکومت میں یہ استبداد بڑھا۔ اور پُرانا ہوگیا۔ کہ علماء کی زبانیں بند ہوگیئں۔ اور عام طور پر یہی سمجھا جانے لگا۔ کہ اسلام میں آمریت اور ملوکیت ہے۔ شوریٰ اور رائے عامہ کی اہمیت زہنوں سے ناپید ہوگئی۔ نصارت بلیۃ فانا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اورآج تک اس زہن اس غلطی میں مبتلا ہے۔ کے اسلام کے نظام میں ملوکیت اور شخصی اقتدارکو اہمیت حاصل ہے۔
انتخاب کالفظ جب کان سنتے ہیں۔ تو زہین فورا اسی ہنگامے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ جسے الیکشن کہا جاتا ہے۔ حالانکہ مقاصد کے لہاظ سے انتخاب اور الیکشن کے ہنگامہ میں فرق ہے۔ موجودہ الیکشن میں آراء کو مائوف کیاجاتا ہے۔ پروپیگنڈہ کے بعد زہن اس قدر تباہ ہوجاتا ہے۔ کہ اس کی سوچ او ر فکر کو رائے سے تبدیل کرنا یقینا ً غلط ہوگا۔ بلکہ الیکشن او ر آج کے انتخابات میں قوت فکر پر فالج گرتا ہے۔ اورعقل پر لقوہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اور کیفیت اس وقت نہ ہوگی۔ جب دھاندلی نہ ہو۔ اورعوام کی قیادت غنڈوں کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اوراگرپروپیگنڈہ کے بعد قیادت کے فرائض غنڈہ ازم انجام دینا شروع کردے۔ تو حالات کا رخ بالکل ہی بدل جاتا ہے۔ جس شورائی مزاج کی نشاۃ کےلئے یہ ڈھونگ رچایا گیا تھا۔ نتائج اس کے بالکل برعکس ہوں گے۔ اس میں رائے عامہ بیداری کے بجائے معطل ہوجاتی ہے۔ زندگی کی بجائے اس پرموت طاری ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں ایک عقلمندکی حیثیت ایک چلتے پھرتے فتنے کی ہوجاتی ہے۔ وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ۔ (دیکھے گا تو لوگوں کو مست اور نہیں وہ مست )
پھر آئینی طور پربعض وقت اصطلاحی اکثریت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ دو چار رایئں ہزارون لاکھوں آراء کو شکست دے کر بالکل نئی دنیا تعمیر کردیتی ہے۔ رائے میں نہ اہلیت کا اعتبار ہے۔ نہ دیانت کا اشخاص کا وزن تو ہوجاتاہے۔ گنتی بھی صحیح یا غلط طور پر ہوجاتی ہے۔ لیکن رائے کی اصابت کا خیال بھی نہیں ہوتا۔ اچھے اچھے اور مخلص صاحب فکر کی رائے کی اہمیت اسی قدر ہے۔ جس قدر جاہل اور سفیہ کی۔
اس قسم کے انتخاب کا اسلامی تعلیم میں کوئی ذکر نہیں۔ اس قسم کے انتخاب کا اسلامی تعلیم میں کوئی ذکر نہیں۔ اور ایک دیہانت واخلاق کا داعی مذہب اسے گوارا بھی نہیں کر سکتا۔ انتخاب کا مفہوم لغوی تو یہ ہے کہ نخبہ اور بہترین شے کو چن کر اس سے استفادہ کا موقع بہم پہنچایا جائے۔ لیکن ردی اور حشالۃ الشئ کی بہم رسانی کو انتخاب کا نام دیا ہے۔ اسلام اس قلب وحقیقت کا نہ داعی ہے نہ مویئد۔
قرآن عزیز سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی امر بھی تفویض کریں۔ اس میں اہلیت کا لہاظ ضروری ہے۔ کسی نااہل کو کتنے ہی ووٹ مل جایئں وہ معاشرہ کی نااہلیت کی دلیل ہوں گے۔ عوام جب تک تدین اور تعلیم سے پوری طرح آشنا نہ ہوں۔ ان کی رائے کو کوئی دینی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اسلام میں عامۃ المسلمین کی نصیحت اور ان کے معاشرے کی بہتری کو نظام حکومت میں اساسی مقام دیا گیا ہے۔ لیکن عوام کی رائے خواص کی قسمت کا فیصلہ کرے۔ یہ راہ اختیار نہیں فرمائی گئی۔ عوام کی رائے کی یہ اہمیت تخریبی اصول ہے جسے اشتراکیت ایسے تخریبی آئین ہی پسند کر سکتے ہیں۔ اسلام میں عوامی حکومت کا یہی معنی ہے کہ اس میں ان کی نصیحت ملحوظ ہے۔
اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انتخاب میں شخصی صلاحیت حسن عمل۔ حسن نیت۔ اور اہلیت کارکا زیادہ سے زیادہ رکھا جائے۔ ارشاد ہے۔
آیت۔ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا (4۔ 83)
ترجمہ۔ ’’یعنی عوام جب کوئی امن یا خطرے کی بات سنتے ہیں۔ تو اسے پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ اگر وہ ایسے معاملات کو آپﷺ اور اہل امرکی طرف لے جایئں تو جو لوگ عواقب اور نتائج پر نظر رکھتے ہیں۔ اس پر پوری طرح غور کریں گے۔ اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا۔ تو تم شیطان کی ہمنوائی کر گزرتے۔‘‘
1۔ آیت سے ظاہر ہے کہ عوام کی رائے عموما ً صائب نہیں ہوتی۔
2۔ عوام کو آپﷺ اور اولی الامر اور اصحاب استنباط کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
3۔ اگر ایسا نہ کیاجائے۔ تو شیطان کی گرفت کا خطرہ ہے۔
يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ۔ اس آیت میں اجیر کے لئے دو شرطوں کا لہاظ رکھا گیا ہے۔ قوت اور امانت نظام حکومت کےلئے خائن خویش اور رشوت خور اور مریض کا انتخاب کیونکہ صحیح ہوسکتا ہے۔ حضرت طالوت کا نام جب بحیثیت امیر الحرب پیش کیا گیا۔ تو آل اسرایئل نے اعتراض کیا کہ
أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ (سورہ بقرہ پارہ سیقول رکوع 16)ان کی مالی حالت اچھی نہیں اس لئے انہیں یہ زمہ داری نہیں ملنی چاہیے۔
اس کے جواب میں فرمایا۔ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّـهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
’’اللہ تعالیٰ نے اسے چنا ہے۔ اور اس کی جسمانی صحت اور علمی وسعت تم سے کہیں زیادہ ہے۔ ‘‘ قرآن عزیز کا مقصد یہ ہے۔ کہ امارت کے لئے ما ل کی فر ادانی کو کو ئی اہمیت نہیں اس کے لئے صحت اور علم کی ضرورت ہے حضرت ابراہیم نے جب خو ا ہش فر ما ئی کہ ان کی اولاد کو بھی اقوام کی امامت عطا فرما ئی جائے تو جواب دیا۔ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ یہ مقام ظالموں کو نہیں دیا جاتا۔
ظلم کا اطلا ق حقوق العباد۔ حقوق اللہ۔ حقوق النفس۔ اور عام معا شرتی اعمال میں حق تلفی پر ہوا ہے۔ اس لئےکوئی خائن کنبہ ہر ور رشوت خور بے انصاف اور ظالم اس ذمہ داری کا اہل نہیں ہو سکتا۔ رائے کی تحصیل اور امید وار کے خصائص اور اس کے شخصی احوال کا احتساب اس کے متعلق تفصیلی احکا م دستور کا ایک ضروری حصہ ہے۔ جس کی تشریحات ہر زمانے میں وقت کے ارباب فکر مرتب کر سکتے ہیں۔ اسلام نے یقینا جماعتی نظم کو برکت کا مو جب قرار دیا ہے جماعت کی اہمیت کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے مگر شخصی اخلاق اور ذاتی کیر یکٹر کو ایک لمحہ کے لئے بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔ اور جب تک مسلم خلفاء رضوان للہ عنہم اجمعین اور امرا میں یہ خو بی رہی کسی شریر کو فساد کا موقع نہیں مل سکا۔ جب شخصی اخلا ق سے چشم پوشی کی گئی۔ دنیا جہنم کا نمونہ ہو گئی۔ خلفاء بنوا میہ خلفاء عبا سیہ وغیر ہم کے احوال آپ کے سا منے ہیں۔ اس لئے اسلام نے اخلاق کے لئے تقویٰ اور دہیانت احسان اور مروت کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ اگر دیہانت نہ ہو تو کوئی قانون انسان کو ظلم سے نہیں روک سکتا۔ اور کوئی لادینی تحریک روس کی اشتراکیت ہو یا امریکہ کی جمہوریت امن عالم کی کفیل نہیں ہوسکتی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔ والسلام (ملخص) (مصباح بابت ماہ ربیع الاول وربیع الثانی ص1371ہجری)
اہل اسلام میں سب سے پہلا اختلاف شعیہ سنی کاہوا تھا۔ جو افسوس ہے کہ باوجود بعد زمانہ آج تک نہ مٹا۔ بلکہ بڑھتا گیا۔ شیعہ سنی کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف ہے۔ مگر اصل الاصول مسئلہ امامت ہے۔ جس کا ہم آج ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ شیعوں کے نئے اخبار زو الفقار لاہور نے اسے چھیڑا ہے۔
مقام شکر ہے کہ گو اہل اسلام کے فرقوں میں اختلاف ہے مگر اسلام کی جڑ بنیاد جو کتاب ہے اس پر سب کا اتفاق ہے۔ یعنی ہر فریق قرآن مجید برابر عزت اور توقیر کرتا ہے اس لئے بہترین دلیل کسی اختلافی مسئلہ میں وہی ہے۔ جو قرآن مجید سے ملے۔ قرآن مجید ایمانیات کا مفصل ذکر کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (پ2ع6)
’’جو لوگ اللہ پر پچھلے دن (قیامت ) پر فرشتوں پر الہامی نوشتوں پر اور نبیوں پر ایمان لائیں۔ اور اللہ کی محبت میں قرابت داروں۔ یتیموں۔ مسکینوں۔ مسافروں۔ مانگنے والوں۔ اور غلاموں کے آزاد کرانے میں مال خرچ کریں۔ اور نماز پڑھیں اور زکواۃ دیں۔ جب وعدہ کریں تو پورا کریں۔ تکلیفوں اور تنگیوں میں اور خاص کر دشمنوں کی جنگ میں صبر کریں۔ ایسے ہی لوگ ایمان میں سچے اور یہی لوگ متقی اور پارسا ہیں۔ ‘‘
یہ آیت مسلمانوں کے جملہ ایمانیات اور فرائض کا بیان کرتی ہے۔ اس میں کوئی لفظ نہیں جو اس بات کی طرف اشارہ بھی کرے۔ کہ مسئلہ امامت بھی ایک مسلمان کے اعتقادیات میں ہے۔ اس موقعہ پر علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت برمحل یاد آئی جو فرماتے ہیں۔
فقد كان يجب بيانها من النبي صلي الله عليه وسلم لامة الباقين من بعد كما بين لهم امور الصلواة ولذكواة ولصيام ولاحج وعين امرالا يمان بالله وتوحيده واليوم الاخر ومن المعلوم انه ليس بيان مسئلة الاماة في الكتاب والسنه بيبان هذا الاصول ومنهاج السنة ص ١٧ ج اول)
جسے نماز روزہ اور زکواۃ وغیرہ کے مسائل بیان کے گئے ہیں۔ ایسے ہی امامت کے مسائل بیان کرنے بھی ضروری تھے۔ حالانکہ قرآن وحدیث میں مسئلہ امامت اس طرح نہیں آیا۔ ا س میں کچھ شک نہیں کہ جو کام اصول دین میں ہو۔ اس کی بابت ضروری ہے کہ خدا ور رسولﷺ بیان کریں۔ حالانکہ مسئلہ امامت کو جس طرح شیعہ لوگ کہتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اخبار ذوالفقار میں ایک نوٹ نکلا ہے۔ جو درج ذیل ہے لکھتا ہے۔ جس سے شیعوں کا اس مسئلہ میں خیال معلوم کیا جا سکتا ہے۔
''در اصل منصب خلافت وامامت بھی منصب نبوت ہے کیوں کہ جس غرض کے پورا کرنے کے لئے نبی آتا ہے۔ اسی غرض کے پورا کرنے کے لئے امام علیہ السلام بھی منصوب ہوتا ہے۔ پس اسی وجہ سے خلافت وامامت کو بھی اصول دین میں قرار دیا گیا ہے۔ جمہور اہل سنت ولجماعت نے بھی مسئلہ خلافت وامامت کو اصول دین میں تسلیم کیا ہے۔ ازالۃ الخلفاء میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ لاجرم نوتوفیق الٰہی در دل ایں بندہ علمے را مشروح ومبسوط گدانید تاکہ بعلم الیقین دانستہ شد کہ اثبات ایں خلافت بزرگوار ان(2) اصلی است از اصول دین تاقت یہ کہ ایں اصل را محکم نہ گیر ند۔ ہیچ مسئلہ ا ز مسائل شریعت محکم نہ شود ہر کہ درشکستن ایں اصلی سعی می کند درحقیقت ہدم جمیع فنون دینی می نماید کتاب الملل والنحل علامہ شہر ستانی صفحہ 15 مطبوعہ بولاق مصر میں فرماتے ہیں۔
ومن العلوم ان الدين اذا كان منقسما الي معرفة وطاعة والمعرفة اصل والطاعة قرع فمن تكلم في المعرفة والتوحيد كان اصوليا ون تكلم في الطاعة والشريعة كان فرد عيا الاصول هوموضوع علم الكلام ولفروع هوموضوع علم الفقه
یعنی معلوم ہوتا ہے۔ کہ دین جب کہ معرفت وطا عت میں منقیم ہوا تو معرفت اصل ہے۔ اور طا عت فرع ہے پس جو شخص کہ معر فت اور تو حید میں کلام کر تا ہے وہ اصو لی ہے اور جوشخص کہ طا عت اور شریعت میں کلام کرے وہ فروغی ہے اور اصول علم کلام کا موضوع ہے۔ اور فروغ علم فقہ کا موضوع ہے پس تو حید عدل نبوت اما مت معاو چو نکہ علم کلام کا مو ضو ع ہے تو ثا بت ہوا کہ یہ پا نچوں اصول وین ہیں۔ فروغ دين (زوالفقار 5مئی ص1)
اس دعوی کی تشر یح یہ کہ بقول شیعہ نبی کی طرح امام وقت گناہوں سے پا ک اور تبلیغ شر یعت میں معصوم ہوتا ہے۔ اس سے تبلیغ شریعت میں غلطی نہیں ہوتی۔ اس دعوے پر جو دلیل پیش کی گئی ہے۔ وہ حیرت افزا ہے۔ حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے جو لکھا ہے۔ خاص خلافت راشدین کی بابت لکھا ہے۔ آپ کا مطلب یہ ہے کہ خلافت راشدہ میں چونکہ اسلام پوری ترقی اور جلال کو پہنچا تھا۔ اس لئے وہ گویا ایک محکم اصول ہے۔ دین کے سمجھنے کےلئے یہ مطلب نہیں کہ مطلق امامت وخلافت چاہے۔ کسی زمانے میں ہو۔ اصول دین میں ہے۔ علامہ شہرستانی کا قول تو بالکل بے تعلق ہے۔ نہ اس میں خلافت کا ذکر ہے نہ نبوت کا علاوہ اس کے علامہ موصوف کی عبارت کو کاٹ کرنقل کیا گیا ہے۔ شروع اس کا یوں ہے۔
قال بعض المتكلمين الاصول معرفت الباري تعالي بواحدانيه وصفاته ومعرفة الرسل باياتهم وبيناتهم وبالجملة كل مسئلة يتعين الحق فيها بين المتخاصمين فهي من الاصول (شهرستاني برا بن حزم ج١ ص ٥١)
بعض متكلمين كہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صفات کی معرفت اور انبیاء کی پہچان اصول ہیں۔ ااور اس کے سوا جس مسئلہ میں فریقین کے مابین حق متعین ہوجائے وہ اصول سے ہے۔
اس عبارت کامطلب صاف ہے کہ دین اصل الاصول تو دو ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسالت کی معرفت ان کے علاوہ مخالف فریقین جس امر کو اپنے میں حد فاصل سمجھیں۔ وہ اس مباحثہ کی حیثیت سے اصول ہوگا۔ مثلاشعیہ سنی میں امامت اور خلافت اور خلافت ر اشدہ کی بحث ہے۔ یا مقلدین اورغیرمقلدین (اہلحدیث) میں مسئلہ تقلید شخصی حد فاصل ہے۔ وغیرہ تو یہ اصول اصول دین نہیں ہوتے۔ بلکہ اصول مذہب کہنے سے ان کا یہ مطلب ہوتا ہے۔ کہ اس اصول پر بحث ہو۔ تو دونوں مذاہب کی فروعات تک پہنچ سکیں۔ اثر مثبت کی جانب نفی کا اثر منکر کی جانب اس کو متنازعہ خلافت یا امامت سے تو کوئی تعلق نہیں۔ نہیں معلوم اس کو کیوں نقل کیا گیا۔ اس مسئلہ (ضرورت امام)کی وجہ بقول شیعہ یہ ہے۔ کہ احکام شرع کی تبلیغ اور تفسیر کی چونکہ ضرورت ہے۔ اسی لئے کسی ایسے آدمی کی ہروقت ضرورت ہے۔ جو بلا کم وکاست احکام وشرع ہم کو بتادے۔ اور وہ بتلانے میں غلطی سے محفوظ ہو۔ ورنہ اس کی غلطی سے تمام دنیا میں غلطی پھیل جائے گی۔ بقول شعیہ ہر زمانے میں امام زمان ہوتا رہا ہے۔ اس زمانے کا امام مہدی ہے۔ جو پیدا ہوکرنظروں سے غائب ہے۔ ہم اس کے آنے کے منتظر ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
فصاحب الزمان الذي يدعون الي لا سبيل اللناس الي معرفة ولا معرفه ما يامرهم به وما ينها هم عنه ومابخبرهم به فان كان احدا لا يصير سعيد ا الا بطاعته هذا الذي لا يعرف امره ولانهيه لزم ان لا يتمكن احد من طريق النجاة والسعادة وطاعة الله وهذا من اعظم تکليف مالا يطاق وان قيل بل هو يامر بما عليه الا ماميه قيل فلا حاجه الي وجوده ولا شهوده فان هذا معروف سواء كان حيا اومينا رسواء كان شاهدا او غائبا واذا كان معرفه ما امرا لله به الخلق ممكنا بدون هذا الامام المنتظر علم انه لا حاجه اليه ولا يتوقف عليه طاعه الله ولا نجاة احد ولا سعاده وحينئذ ويقنع القول بجوازا امامة مثل هذا فضلا عن لقول بوجوب اامامه مثل هذا وهذا امربين لمن تدبر فانه ليس في الارض من يدعي دعوي صادقه انه راي هذا المنتظر وسمع كلامه وان لم يكن مرقوفا علي زالك امكن فعل الواجبات العقلية والشرعية وترك القبائع العقلية والشرعية بدون هذا المنتظر فلا يحتاج اليه ولا يجب وجوده ولاشهوده (منهاج السنه ج١ ص ٣-)
امام الزمان جس کیطرف (شعیہ) لوگوں کی بلاتے ہیں۔ لوگ اس کو پہچان نہیں سکتے۔ (کیونکہ وہ آنکھوں سے غائب ہے) اور نہ اس کے حکم اور منع کو معلوم کر سکتے ہیں۔ پھر اگر کسی مسلمان کی سعادت اور نجات اس پر موقوف ہے۔ کہ غائب امام وقت کو معلوم کرلے۔ تو لازم آئے گا کہ کوئی شخص بھی نجات اور سعادت اوراللہ کی اطاعت کی راہ پر نہ پہنچ سکے۔ اور یہ تکلیف محال لازم آئے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ امام مہدی جو غائب ہے۔ وہی حکم کرتا ہے جو شیعہ بتلاتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پھر ایسے امام کی حاجت نہیں کیونکہ یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم ہے۔ جب اللہ کے احکام کی معرفت اس کے بغیر بھی ممکن ہے تو ثابت ہوا کہ اس کی حاجت نہیں اور خدا کی اطاعت اور اخروی نجات اورسعادت اس پرموقوف نہیں۔ پس ایسے امام کے وجود کی ضرورت نہ ہوگی۔ کجا یہ کہ اس کے وجود کی ضرورت ہو۔ جوشخص غور کرے اس کے لئے یہ بات بالکل کھلی ہے۔ کیونکہ کوئی شخص دنیا بھر میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اس نے امام غائب (مہدی ) کودیکھا ہے۔ اس کا کلام سنا ہے۔ اوراگرشرعی علوم امام غائب پر موقوف نہیں تو احکام شرعیہ کی تکمیل بغیر اس کے ہوسکتی ہے۔ ایسا ہی عقلی اورشرعی قبائح ترک ہوسکتے ہیں۔ پس امام غائب کی حاجت نہیں۔ نہ اس کا وجود ضروری ہے نہ شہود۔
اس عبارت نے فیصلہ کردیا کہ اہل سنت کا یہ خیال نہیں کے امام وقت یا خلیفہ وقت کا اعتقاد اصول دین سے ہے۔ امام زمان کے مسئلے پر ایک روایت کو بطور دلیل لایا جاتا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔
قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية
’’آپﷺ نے فرمایا! جو شخص مرجاوے اس حال میں کہ اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا ہو وہ کفر کی موت مرتا ہے۔ ‘‘
اس روایت کا جواب علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ یوں دیتے ہیں۔
فيقال اولا من ر وي الحديث بهذا اللفظ وان اسناده وكيف يجوز ان يحتج بنقل عن النبي صلي الله عليه وسلم من غير بيان الطريق الذي يثبت ان النبي صلي الله عليه وسلم قال هذا لوكان مجهول الحال عند اهل العلم بالحديث بهذا اللفظ لا يعرف انما الحديث المعروف مثل ماروي مسلم في صحيحه عن نافع عن ابن عمر قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعته مات ميتة جاهلية فعلم ان هذا الحديث علي مادل عليه سائرا لا هاديث الاتية من انه لا يخرج علي ولاة امورالمسلمين بالسيف (منهاج السنة ج ١ ص ٢٧)
پہلے یہ بتاؤ کہ اس حدیث کو کس نے روایت کیا ہے۔ اور اس کی سند کہاں ہے۔ اور بغیر بیان کرنے سند کے جس سے یہ ثابت ہو کہ آپﷺ نے یہ فرمایا ہے۔ دلیل میں اس کو کیسے لاسکتے ہیں۔ یہ بھی اس صورت میں ہے۔ کہ سند کا حال معلوم نہ ہو۔ پھر جس حال میں یہ حدیث ان لفظوں سے معلوم ہی نہیں تو کیا ہوسکتا ہے۔ جوحدیث محدثین میں معروف ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ اس نے کہا میں نے آپﷺ سے سنافرماتے تھے۔ کہ جو کوئی حاکم کی اطاعت سے ہاتھ کھینچے۔ قیامت کےدن اللہ تعالیٰ کے سامنے آئےگا۔ تو اس کے پاس تجارت کےلئے کوئی حجت اور دلیل نہ ہوگی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص مر جائے اس حال میں کہ اس نے امام وقت کی اطاعت کا وعدہ نہ کیا ہو۔ تو وہ جاہلیت کی موت مرگیا۔ حدیث بھی وہی معنی بتلاتی ہے جو باقی احادیث بتلاتی ہیں۔ کہ مسلمانوں کے انتظامی امور کے والیوں سے مخالفت نہ کرنی چاہیے۔ ـ(اہلحدیث امرتسر یکم جون 17ء)
1۔ کیا حدیث من مات وليس في عنقه بيعته مات ميتة جاهلية (مسلم) فی زماننا قابل عمل ہے یا نہیں؟
2۔ اگر نہیں تو کیوں اور کیا وجہ؟
3۔ اگر حدیث مسطورہ بالاقابل عمل ہے۔ تو امام وسردار مومنین کا تعین حتمی ہے یا نہیں؟
4۔ امام وسردار کےلئے محض شرط قریشیت ہی ہے۔ يا مااقامو الدين پرمشتمل ہے۔
5۔ يا مااقامو الدين نہ ہو تودوسری قوم میں بااعتبار مااقامو الدين سردار وامام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
6۔ اگر کوئی قریش یا عوام الناس حدیث مندرجہ بالاکے بوجہ تغافل وتجاہل حامل نہ ہوں۔ اورحدیث مذکورہ مردہ ہوچکی ہو۔ ہر چند افراد حدیث مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی غرض سے غیر قریش جو مااقامو الدين کرتا ہو۔ امام وسردار مان لیویں اور یوما فیوما خادمان شریعت محمدی ومتبعین مسلک احمدی جوق در جوق محض حدیث مذکور پرعمل کرنے کی غرض سے اور اپنے آپ کو حدیث مذکور پرکاربند ہونے کی وعید شدید سے بچانے کی وجہ سے عامل ہورہے ہوں۔ اس کو نیک کام سمجھنا عنداللہ وعند الرسول جائز ہے یا نہیں؟(شیخ احمد دین صدربازاردہلی خریدار نمبر 7657)
الجواب
قرآن وحد یث ہر زما نے میں واجب العمل ہےکے لئے تفصیل کی ضرورت ہے پس سنیے امام وقت سے مرا د ہے خلیفہ با سیاست مسلما نوں پر فرض ہے کہ اپنے دینی دنیا وی انتظام کے لیے اپنا کوئی امیر بنا ئیں جو ان کی ملکی اور مذہبی امور نمائی کرے اگر نہ کر یں گے تو سخت گنگار ہوں گے لیکن ایسے وقت میں جب ان کا کوئی امام نہ ہو تو پھر یہ اس کا قائم مقام نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی امام نماز سے بیعت کر کے خوش ہو جا ئیں کہ ہم نے اس حکم پر عمل کر لیا اس کا ثبوت اس حد یث سے ملتا ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لائے ہیں ،
اذا لم تكن جماعته حذيفه صحا بي نے پو چھا حضور جب امام نہ ہو جما عت ہو تو میں کیا کروں فر مایا سب سے الگ ہو کر اللہ اللہ کیجیو۔ اس وقت ہم ہند و ستا نیوں کی یہی حالت ہے ہم افرادا کثیرہ ہیں جما عت نہیں ہیں۔ ایک مسجد میں ہزار آ دمی اکیلا اکیلا نماز پڑہتا ہو اس کو جما عت نہیں کہیں گے ہاں دو کس بھی کسی کو اما م بنا کر پڑہتے ہیں۔ تو جما عت ہو گی۔ جماعت کے لئے ایک مرکز کا ہو نا ضروری ہے پس آج کل ہم ہندو ستانی اس حا لت میں زندگی گز ار رہے ہیں جو شریعت کو ناپسندیدہ ہے۔ مگر اس ناپسندیدہ زندگی کےوقت کے لئے بھی حکم مذکور جاری فرمایا ہے۔ امام سے مراد اگر کوئی امام مسجد یا امام صلوۃ ہوتا۔ جس کو سیاسی قوت نہ ہوتی۔ تو صحابی مذکور نہ سوال کرتا نہ آپﷺ کا یہ جواب صحیح ہوتا۔ کیونکہ ایسے امام تو ہر وقت مل سکتے ہیں۔ جو سیاست سے خالی اور بعیت کے دل دادہ ہمارے ملک پنجاب بلکہ کل ہندوستان میں گدی نشین لوگوں سے بیعت کرتے پھرتے ہیں۔ اور انکے مرید انکی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ تو کیا یہ جماعت ہے۔؟ہرگز نہیں بس اب نمبروار جواب سنیے۔
1۔ امام باسیاست ملے تو حدیث موصوف واجب العمل ہے۔
2۔ آج کل کوئی باسیاست امام نہیں۔ اس لئے حدیث موصوف کا دوسرا ٹکڑا واجب العمل ہے۔ اعتزل الفرق کلھا
3۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ نصب امام فرض ہے۔
4۔ قریشیت ہو تو افضل ہے نہ تو ہوتو غیرقریشی قابل بھی ہوسکتا ہے۔
5۔ بنایاجاسکتاہے۔ باسیاست ہو تو اس حدیث کے ماتحت ہوگا۔ باسیاست نہ ہو۔ تو حدیث سفر کے ماتحت سمجھا جائےگا۔ بہرحال سردار اور امیر ہونا مفید ہے۔
6۔ اس کا جواب نمبر5 آچکا ہے۔ کہ بے شک جتنا بھی انتظام ہوسکے نہ ہونے سے بہتر ہے۔ مگر حدیث مذکور کے ماتحت امیر سیاست ہوگا۔ وگر ہیچ ہاں حدیث سفر کے ماتحت موجب ثواب ہے۔ مگر ایسی صورت میں کسی باہر رہنے والے پر ایسا امیر کوئی کسی قسم کاشرعی فتویٰ (کافر۔ فاسق۔ یا باغی وغیرہ) نہیں لگا سکتا۔ بلکہ جتنے آدمی اس کے ماتحت ہونے ان پرمناسب حکم جاری کر سکتاہے۔ اور بس۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔ اللھم وفقنا للجماعۃ (اہلحدیث ا مرتسر یکم فروری 1924ء)
بعض الفاظ قرآن وحدیث میں متعدد معانی پر آئے ہیں۔ وہ معانی متعد وہ بعض دفعہ کلی مشکک کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ انواع مختلفہ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ جس سے ناواقف یا غیرمتامل کودھوکا لگ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر لفظ طہارت ہے۔ جس کے مجمل معنی پاکیزگی ہے۔ غور فرمایئے کہ یہ کتنے معانی پر آتا ہے۔
(1)طہارت سے مراد توحید ہے۔ اس کے مقابلے میں نجاست شرک ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ
(2)دوسرے معنی طہارت کے غسل بعد جنابت ہیں۔ چنانچہ فرمایا۔ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ (اگر تم جنبی ہو تو طہار ت حاصل کرلو۔ یعنی غسل کرلو)
(3 )تیسرے معنی طہارت کے غسل کے بعد حیض ہے جیسے فر ما یا آیت فَإِذَا تَطَهَّرْنَ عورتیں جب حیض سے پا ک ہو لیں۔
(4) چو تھے معنی وضو ہیں۔
(5) پا نچو یں معنی ہیں ظاہری نجاست پا خا نہ پیشا ب سے پا کی جیسے فر ما یا طهوراناء احد كم (حد يث شريف)
اسی طر ح امام کا لفظ قر آن و حد یث میں متعدد معا نی پر نو لا گیا ہے اصل مشترک معنی اس لفظ کے صرف مقتد ا ہیں مگر مقتدا کا لفظ کلی مشکک کی صورت میں مختلف اقسا م پر آیا ہے۔
(1) سب سے ال ابرا ہیم علیہ السلام پر بولا گیا چنا نچہ فر مایا گیا آیت -إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ان ابنیاء کی اقتدا کمال درجہ کی ہو تی ہے یعنی یہ حضرات مذہبی احکا م میں تمام دنیا کے لئے اسوہ حسنہ ہوتے ہیں ان کی اقتدا کے ذریعہ نجات ہوتی ہے حکومت دنیا وی یعنی سیا ست ان معنی کے لئے لا زم نہیں ہو یا نہ ہو غرض منفک ہے جس کی مثال حضرت مو سی حضرت عیسی علیہ السلام کا فی ہیں۔
(2) دوسرے معنی امام کے ہیں ان ابنیاء کی تعلیم پہنچانے والے علماء جن کو ائمہ ہدا کہا جاتا ہے جیسے اماما ن مشہور ہیں امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ اما م شا فعی رحمۃ اللہ علیہ اما م بخا ری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس درجہ امامت میں بھی وہ اصل معنی متقدا والے پا ئے جاتے ہیں مگر ان کی اقتدا مستقلہ نہیں جس طرح ابنیاء کی تھی بلکہ بشرط موا فقت ابنیاء علیہ السلام انہیں کے حق میں فرمایا وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا اسی درجہ کے حسول کے لئے ہم مسلمانوں کو دعا سکھا ئی گئی ہے۔ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ورنہ امامت نبوت کے لئے بعد ختم نبوت کو ئی مسلمان دعا نہیں کر سکتا ہے۔
(3) تیسرے معنی امام کے ہیں امام صلوۃ جس کی بابت ارشاد ہے !
انما جعل الامام ليوتم به
(4)چوتھے معنی امام کے ہیں مسلمان حا کم وقت جس کی با بت ارشاد ہے۔ الامام جنة يقاتل من ورائه
امام ایک ڈ ھال ہے اسی امام کو دوسری حد یث میں سلطان سے ذکر کیا گیا ہے چنا نچہ ارشاد ہے السلطان ظل الله ياوي اليه كل مظلوم(الحديث)۔ یعنی سلطا ن زمین پر خدا کا سا یہ ہے اس کے پاس مظلو م آتے ہیں عدل کرے تو اس کے لئے اجر ہے اور رعیت ہر شکر وا جب ہے۔ (مشكواة كتاب الامارة)
قرآن وحدیث کو بغور دیکھنے سے معلو م ہو تا ہے کہ چار قسمیں با ہمی انواع مختلفہ تحت جنس نہیں کیو نکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مواد میں ان میں سے قسمیں ایک مادہ میں جمع ہو جا تی ہیں مثلا بعض ابنیاء محض مذہبی مقتداا بلا سیا ست ہیں جیسے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام وغیرہ اور بعض باسياست بھی ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ حضرت دائود علیہ السلام۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہﷺ یہ حضرت مذہبی مقتداء باسیاست تھے۔ اسی طرح امام باسیاست امام صلواۃ بھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ قاعدہ کلیہ ہے۔ کہ انواع متخالطہ قسیم ہونے کی وجہ سے ایک مادہ میں جمع نہیں ہوسکتے۔
حسب قانون محصلین تعریف کے بعد ہر ایک قسم کا حکم بتانا بھی ضروری ہے۔ گو ضمناً معلوم ہوتا رہا ہے۔ تاہم تصریح کے ساتھ بتانا زیادہ مفید ہوگا۔
قسم اول
یعنی امامت انبیاء علیہ السلام کا حکم یہ ہے کہ بلا چون وچرا ان کی پیروی کی جائے۔ انکار کرنے والے پر کفر عائد ہو جیسا کہ مسلمہ فریقین بلکہ مسلمہ کل اہل اسلام ہے۔
قسم دوم
یعنی آئمہ ہدایٰ کی امامت کا یہ حکم ہے۔ کہ اس کی پیروی کی جائے۔ بشرط موافقت تعلیم انبیاء علیہ السلام اجمعین والا۔ لا
قسم سوم
امام صلواۃ کاحکم یہ ہے کہ خالص صلواۃ میں امام کی پیروی فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ اذا ر كع فاركعواوغیرہ۔ مگر سوائے نماز کے باقی اوقات میں امام کی اطاعت فرض واجب نہیں۔
قسم چہارم
کا حکم یہ ہے کہ ہر حال میں اس کی اطاعت کی جائے۔ ملکی انتظام اس کے حکم کے ماتحت ہو۔ جہاد اس کے حکم سے ہو۔ مظلوم اس سے فریاد کرے۔ وہ ظالم سے مظلوم کا انتقام لے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
بايعنا رسول الله صلي الله عليه وسلم علي السمع والطاعة في العسر واليسر والمنتسطوا المكرة وعلي اثره علينا (الحديث)
یعنی ہم صحابہ کرامرضوان للہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سےبعیت کی تھی کہ امام وقت کی بات سنا کریں گے۔ اور تابعداری کیا کریں گے۔ تنگی آسانی خوشی اور ناخوشی سب ہیں۔ اس امام کی بابت ارشاد ہے۔
قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من خرج من الطاعة وفارق الجماعة فمات ميتة الجاهلية (الحديث)
یعنی جو شخص امام کی اطا عت سے نکل جا ئے۔ اور جما عت سے جدا ہو جا ئے وہ جا ہلیت کی موت مر ے گا ان سب مرا تب کی جا معہ قرآن مجید کی یہ آیت ہے۔
آيت۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
’’یعنی اللہ کا کہا ما نو رسول اللہ ﷺ کا حکم ما نو اور اپنے میں سے حکو مت والوں کی اطاعت کرو‘‘
یا د رہے کہ امامت قسم چہارم ہی وہ امامت ہے جس پر اسلا م کی تر قی کا دارو مدار ہے اسی کے ایک فعل کی با بت فرمایا ہے ذروة الجها دلاسلام کی بلندی اور بر تری جہا د میں ہے یہی وہ عالی قدر فعل ہے جس کی با بت ارشاد ہے
الا ما م م جنة يقا تل من رائد (امام مثل ڈھال کے ہے۔ جس کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے) یہی وہ امامت ہے جسکی بابت ارشاد ہے۔
الجهاد ما ض مع برد فاجر(جہاد جاری رہے گا چاہے امام نیک ہو یا بُرا)
کچھ شک نہیں کہ مسلمانوں کے تفرق اتصال کودیکھ کر یقیناً ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی جامع شخص پیدا ہو تاکہ ان کو ایک جاکرے۔ مگر آج تک ہندوستان میں اس جامعیت کے مدعی جتنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بجائے جمع کرنے کے تفریق میں شگاف زیادہ کردیا۔ معاف فرمایئے۔ مسلمانوں کو کسی جامع امام کی ضرورت ہے۔ محض مدعی کی نہیں۔
یہ مان لیا ہم نے کہ عیسیٰؑ سے سوار ہو
جب جانیں کہ درد دل عاشق کی دوا ہو۔
(اہلحدیث امرتسر 17جون 1937ء)
(از جناب مولانا محمد ابو القاسم صاحب سی بنارسی)
من مات و لم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية یعنی جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا تو اس کی موت مثل موت اہل جاہلیت ہوگی۔ یہ حدیث ان لفظوں سے حدیث کی کسی معتبر اور مشہور کتاب میں موجود نہیں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ منہاج السنۃ میں لکھتے ہیں۔ هذ الحديث بهذا اللفظ لايعرف (ص ٣٧ ج١) یعنی یہ حدیث ان لفظوں سے نہیں پہچانی جاتی۔ تعجب تو یہ ہے کہ آج کل ہرسردار اپنے کو امام کہنے لگا ہے۔ اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ اصطلاح شارع میں ''امام''سےمُراد کون سی ہستی ہے۔ حدیث متفق علیہ میں وارد ہوا ہے۔ الا علم راع وهو مسئول عن رعيته یعنی امام حاکم ہوتا ہے۔ جس کی رعیت ہو جس کا وہ مسئول عنہ ہے۔ اسی کو دوسری حدیث متفق علیہ میں یوں فرمایا گیا ہے۔
انما الامام جنة يقاتل من ورائه ويتقي به (بخاري شروع باره ١٢ مسلم ص ٢٦ ج٢ نسائي ص ٦٤٦)وفي ابن شيبه الامام جنة يقاتل به زكنوز الحقائق ص ٩ ج٢)
يعنی امام وہ ہے۔ جو رعیت کے لئے سپر بنے اس کے ساتھ ہوکرکافروں سے قتال کیاجائے۔ اور مسلمان اپنی مصیبتوں میں اس کو آڑبنایئں۔ اسی امام کو ( جس کی بیعت ک بغیر جاہلیت کی سی موت ہوگی)دوسری متفق علیہ حدیث میں ''سلطان'کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے۔
ليس احد من الناس يخرج من السلطان شبراً فمات عليه الامات ميتة جاهلية (مسلم ص ١٢٨ ج٢ بخاري شروع باره ٢٩)
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سلطان اسلام کی اطاعت سے ایک بالشت بھی الگ ہوکر مرجائےگا۔ اس کی موت مثل موت اہل جاہلیت ہوگی۔ یہی سلطان کا وصف مسند بزار وشعب الایمان للبہقی وغیرہ کی روایات میں یوں مذکور ہے۔
ا لسلطان ظل الله في الارض ياوي اليه كل مظلوم من عبادة وفي رواية يادي اليه الضعيف وبه ينتصرا المظلوم
(جامع صغیر ص 31ج2 ومنتخب کنز الاعمال ص1۔ 13۔ 132۔ ج2)
’’یعنی سلطان زمین پر خدا کا ظل ونائب ہے۔ ہر کمزور مظلوم اسکی طرف پناہ لیتے ہیں۔ اور ہر وہ ہر مظلوم کابدلہ لیتاہے۔‘‘
خدا کے لئے کوئی بتلائے تو سہی کہ برٹش حکومت میں ہندوستان کےاندر کون ایسا امام ہے۔؟اور جب کوئی ایسا نہیں ہے۔ تو مدعیان امامت کو ایک اور حدیث بھی سن لینی چاہیے۔
عن ابن عمر قال قال النبي صلي الله عليه وسلم الامام الضعيف مامون رواه الطبراني جامع صغير ص ١-٣ ج١وكنوز الحقائق ص ٨ج٣)
’’یعنی ملعون ہے وہ امام جو کمزور ہو۔ احکام حدود وحرب نافذ نہ کرسکے۔‘‘ جیسا کہ شعرانی کشف الغمہ میں اس حدیث کو نقل کرکے لکھتے ہیں۔
وهو الذي يضعف عن ت تنفيذ الامور الشرعية واقامتها (ص ٣-٨ ج٣)
’’یعنی جو امورشرعی کو نافذ کرنے اور قائم رکھنے سے عاجز ہو۔‘‘ شیخ عزیزی سراج المنیر میں اور شیخ خفی اس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
الامام الضعيف عن اقامه احكام الشرعية ملعون اي مطرود فعليه عزل نفسه ان اراد الخلا ص في الدنيا والاخرة انتهي (ص ١٣٣ ج٣)
یعنی وہ امام جو احکام شرعیہ کے قائم کرنے سے عاجز ہےراندہ بارگا ہ ہے۔ ایسے کو منصب سے خودالگ ہوجانا چاہیے۔ اگر وہ اپنی جان کی مخلصی دنیا اور آخرت میں چاہتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے۔
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً۔ (الی قولہ) وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً۔ (پ30)
آخر میں اما م زمان کےلئے ایک اور بھی شرط سن لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے۔ الائمة من قريش (مسند ابی دائود الطیالسی ص 284منتخب کنز العمال ص 142 ج3 کنوز الحقائق ص 10 ج 2فتح الباری انصاری ص 327 پ28 وص 589 پ39 )یعنی امام کاقریش سے ہونا ضروری ہے۔ ولعل فیہ کفایۃ (اہلحدیث گزٹ دہلی۔ اکتوبر 35ء)
الجواب
جاننا چاہئے کہ امام اکبر یعنی امیر المو منین جس کے ا ختیا ر میں انتظام سارے مو منوں کا ہو تا ہے اس کی اطاعت فر ض ہے اس میں کئی شرطین ضرور ہیں کہ جب وہ شر طیں پا ئی جا ئیں گی وہ امام وقت شرعا ہو گا ورنہ نہ ہو گا۔
شرط اول یہ ہے کہ وہ قریشی ہو یعنی قر یش میں سے ہو جیسا کہ کتب عقاید میں ہےکیونکہ احا د یث صحیحہ ے ثا بت ہے کہ امامت قریش کے سا تھ مختص ہے ان شا ء اللہ تفصیل اس کی آگے آتی ہے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ زندہ اور حا ضر ہو اور عاقل ہو مردہ و غا ئب قا بل امامت کے نہیں اس کا ثبوت بھی انشاء اللہ تعا لی ذکر کروں گا۔
تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے اور کسی امام کے ہا تھ پر مو منین نے بعیت نہ کی ہو اور وہ ا مام اول اب تک زندہ ہو۔
چو تھی شرط یہ ہے کہ مو من اور دیندار ہو ان شا ء اللہ ان دو نوں شر طوں کا بھی ثبو ت ذکر کیا جا ئے گا
۔ ثبوت شرط اول۔ کا یہ ہے عن ابن عمر ان النبي صلي ا لله علييه وسلم قال لا يذال هذ اا لا مر ني قر يش ما بقي منهم اثنان (رواه البخا ري مسلم) ترجمه ’’روایت ہے عبداللہ بن عمر سے کہ فر مایا رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ رہے گا یہ امر یعنی خلافت وامامت قریش میں جب تک با قی رہیں گے ان میں سے دو شخص‘‘ اس کو بخار ی اورمسلم نے روایت کیا۔
قا ل السيد جمال الدين في شرح الشكوة تحت هذاالحد يث دل هذ االحد يث دنظا ئر علي ان الخلافتة مختصة بقر يش لا يجوز عقد ها بغير هم وعلي هذ ااعنعقد اجماع الصحابة ومن بعدهم ومان خالف فهو محجوج بالاجماع
''تر جمہ فرمایا سید جمالالدین شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت می ولا لت کرتی ہے یہ حدیث اور جو مثل اس کی ہے اس بت پر کہ خلا فت قریش کے ساتھ خا ص ہے دوسروں کو اس کا اختیا رنہیں ہے اوراس پر منعقد ہوا اجماع صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین کا اور ان کے بعد کا جو خلاف کرے اس کا وہ مر دود ہے اجماع سے ،
وعن معاوية قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول ان هذا الامر في قريش لا يعاد يهم احدا لاكبه الله عل وجهه ما اقامو الدين رواه البخاري في صحيحه
’’ ترجمہ روایت ہے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا سنا میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہ فرماتے تھے تحقیق یہ امر یعنی خلا فت قریش میں ہے نہیں جھگڑے گا ان سے مگر اللہ اس کو منہ کے بل گرا دے گا یعنی دنیا میں مغلوب کرے گا اور آخرت میں عذاب کرے گا جب تک وہ لوگ یعنی قریش دین کو ٹھیک رکھیں گے۔‘‘
قال الحافظ في الفتح (قوله) ان هذا الامر الخ اي لا ينازعهم احد في الامر الاكان مقورا في الدنيا معذباني الاخرة انتهي
كہا حافظ ابن الحجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں قول میں آپ ﷺکے بے شک یہ امرخلافت آخر حدیث تک جس کا خلا صہ یہ ہے کہ نہ جھگڑے گا ان سے کوئی مگر قہر ہوگا اس پردنیا میں اور عذاب پاوے گا آخرت میں تمام ہوا قول حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا۔
عن ابي هيريرة قال قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلم الناس تبع القريش في هذ الشان مسلهم تبع لمسلهم وكافر هم تبع الكافر هم (رواه مسلم)
’’ترجمہ۔ روایت ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ فرمایا رسول اللہﷺ نے فرمایا سارے لوگ تابع ہیں قریش کے اس امر میں یعنی خلافت میں مسلمان انکے تابع ہیں مسلمان کے۔‘‘ اور کفار ان کے تابع ہیں کفار کے روایت کیا اس کو مسلم نے
قال الامام نووي في شرح مسلم تحت هذ الحديث وفي رواية الناس تبع القريش في الخير والشر وفي رواية لا يزال هذا الامرفي قريش ما بقي منهم اثنان وفي رواية البخاري ما بقي منهم اثنان هذه الاحاديث واشباها دليل ظاهر علي ان الخلافة مختصة بقريش لا يجوز عقدها لاحد من غيرهم وعلي هذا انعقد الاجماع في زمن الصحابة وكذالك من بعدهم ومن خالف في من اهل لبدع او اعض بخلاف من غيرهم فهو محجوج باجماع الصحابه واتابعين فمن بهدهم بالاحاديث الصحيحه قال القاضي وقد عدها العلماء في مسائل الاجماع ولم ينقل عن احد من السلف فهيا قول ولا فعل بخلاف ما زكرنا وكذالك من بعد هم في جميع الاعصار انتهي
وعن ابي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الملك في قريش والقضا في الانصار ولازان في الحبشة والا مانة في الازد بعتي اليمن (رواه الترمذي)
’’ترجمہ۔ روایت ہے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا۔ فرمایا رسول اللہ ﷺنے خلافت قریش میں اور قضا انصار میں اور اذان حبش میں اور امامت یمن میں‘‘ روایت کیا اس کو ترمذی نے
قال الشيخ في اشعه اللمعات شرح المشكواة تحت هذ الحديث لعل المراد ان يراعي هذه المناصب فهيم فهو خبر في مغني الامر انتهي
یہ حدیثیں صراحتا دلالت کرتی ہیں۔ اس بات پر کہ امر خلافت وامامت مخصوص ومنحصر ہے۔ قریش میں ہے۔ انصار وغیرہ کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر گزرا کہ جو ان سے اس امر میں جھگڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو منہ کے بل گرادے گا۔ اور بعض حدیث میں آیا ہے۔ کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے انصار کو فرمایا۔ کہ میر ے بعد تم قریش امیر ہوں گے۔ تم صبرکرنا۔ اوران کی اطاعت کرنا۔۔
عن انس بن مالك يقول قال النبي صلي الله عليه وسلم للانصار انكم ستلقون بعدي اثرة فاصبرواحتي تلقوني موعدكم الحوض (رواه البخاري)
’’ترجمہ۔ روایت ہے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ کہتے تھے۔ کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے انصار کو تحقیق پاؤ گے میرے بعد حکومت دوسرے کی پس صبرکیجئے۔ یہاں تک کہ ملو مجھ سے اور جگہ وعدے تمہارے کی حوض ہے‘‘ روایت کیا اس کو بخاری نے آپﷺنےانصار کو مخصوص کرکے فرمایا کہ تم پردوسرے حاکم ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خلافت قریش کے ساتھ خاص ہے۔ انصار کو کچھ حصہ اس میں سے نہیں ہے۔ چنانچہ کہا حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ عسقلانی نے فتح الباری میں
ولما كان الامر مختصا بقريش ولا حظ للانصار فيه خوطب الانصار بانكم ستلقون اثرة انتهي
اور یہ حدیث چند طرق سے بخاری ہی میں مروی ہے۔
اب بوجہ اتم واکمل ثابت ہوا کہ امام قریشی ہوناچاہیے۔ انصاری وغیرہ کو اس سے کچھ سروکار نہیں اور یہی شرط اول تھی کما لا یخفی۔ اب یہاں پر ایک شبہ ہوتا ہے۔ اس کا ذکرکرنا اور دفع کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ حدیث میں آیا ہے۔
عن انس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال اسمعوا واطعيوا وان استعمل عليكم عبد حبشي كان راسه ربيبة (رواه البخاري)
’’ترجمہ۔ روایت ہے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ سنو اور تابعداری کرو۔ اگر چہ حاکم بنایاجائے تم پر غلام حبشی کہ سر اس کا مانند انگورخشک کے ہو۔‘‘ تو یہاں پرقریش کی خصوصیت نہ فرمائی بلکہ فرمایا جو حاکم ہو۔ اس کی تابعدار کرو۔ تو اب قریش کی خصوصیت جاتی رہی۔ پس اس حدیث میں اور حدیث سابقہ میں تطبیق کیونکر ہوگی دفعیہ اس کا یہ ہے کہ یہاں حاکم سے مراد وہ عامل ہے۔ کہ جس کو امام وقت کسی شہر یا کسی گائوں میں یا کسی لشکر پرمقررکرے۔ امام وقت مراد نہیں ہے کیونکہ لفظ حدیث ان استعمل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے عامل بناجاوے۔ اورعامل امام وقت کو نہیں کہتے ہیں۔ اور احادیث سے ثابت ہوا کہ امامت خاص ہے قریش کے ساتھ تو ضرور ہوا کہ حدیث سے وہ عامل مراد لیاجائے۔ جس کو امام وقت مقرر کرے۔
قال الحافط في الفتح ونقل ابن بطال عن المهلب قال قوله اسمعوا واطيعوا يوجب ان يكون المستعمل للعهد الامام قريشي لما تقديم ان الامامة لا تكون الا في قريش واجتمعت الامة علي انها لا تكون للبعيد انتهي قال ايضا في المقام الاخر رواه ابن الجوزي بان لمراد بالعامل هذا امن يستعمل الامام الا من يلي الامامة المعظمي انتهي وقال في المقام الاخر وقيل ان الامام الاعظم اذا استعمل عبد الاحبشيا علي امارة بلد مثلا وجبت طاعتة وليس فيه ان العبد الحبشي يكون هو الامام الاعظم انتهي
اور یہی مطلب بیان کیا ہے اس حدیث کا ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکواۃ میں
قوله وان استعمل الخ اي وان استعمل الامام الاعظم فان الائمة من قريش انتهي
اب یہ شبہ بھی دفع ہوگیا۔ پس دعویٰ ثابت رہا کہ سوائے قریش کے کوئی امام اور خلیفہ نہیں ہوسکتا۔
ثبوت شرط دوم
کاسنیے شرح عقائد نسفی میں ہے۔
ينبغي ان يكون الامام ظاهر اليرجع اليه فيقوم بالمصالح ليحصل ما هوا الغرج من نصب الامام لا مختفيا من اعين الناس خوفا من الاعداء وما للظالمة من الاستيلا ء ولا منتظرا اخروجه عند صلاح الزمان وانقطاع مواد الشر والفساد والخلال نظام اهل الظلم والعناد لاكما زعمت الشعية خصوصا الامامة منهم انتهي اور اسی میں ہے۔ ويشترط ان يكون من اهل الولاية المطلقة الكاملة اي مسلمان حرا زكرا عاقلا بالغا اذا ما جعل الله للكافرين علي المومنين سبيلا انتهي
اور ظاہر ہے۔ کہ امام غیب کی امامت ہوتی۔ تو بعد آپﷺ نصب امام کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ ناجائز ہوتا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔
وان احد يصلي علي الاعرضت علي صلواته حتي يفرغ منها قال قلت وبعد الموت قال وبعد الموت ان الله حرم علي الارض ان تاكل اجسادا لا نبياء قسبي الله حي يرزق (رواه ابن ماجه)
غرض یہ کہ امام غائب نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ امامت کا مقصود غائب ہوگیا۔ یہ عقیدہ شیعوں کا ہے۔ نہ کہ اہل سنت ووالجماعت کا اور نابالغ بھی نہیں۔
ثبوت شرط سوم
کا یہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے۔ کہ جب امام کی بعیت مومنین کرلیں تو اگر دوسرا امام بیعت چاہے تو اس کو قتل کردو۔
عن ابي سعيد قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا ابويع الخليفتين فاقتلوا الاخر (رواه مسلم)
تو اس سے معلوم ہوا کہ بیعت امام ثانی کی بعت بیعت ہوجانے امام اول کے ناجائز ہے اور ہی میں نے کہا تھا۔
شرط چہارم کا ثبو ت ضمن میں ثبوت شرط اول دوم کے گزرچکا وہ حدیث بخاری کی جس میں مااقامو الدین ہے یعنی جب تک دین ٹھیک رکھیں گے۔ قابل امامت رہیں گے۔ اور جب بے دین ہوں گے۔ تب نہیں اورعبارت شرح عقائد نسفی کی یہ ہے۔
اي مسلما حرا زكرا عاقلا بالغا اذا ما جعل الله للكافرين علي المومنين سبيلاالخ (سید محمد نزیر حسین دہلوی۔ فتاویٰ نزیریہ ج2 ص 470)
حدیث من لم یعرف امام زمانہ الخ کی مولانا شاہ عبد العزیز صاحب لکھتے ہیں۔ کہ حدیث
من ما ت ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية
صحيح الاسناداست ومقولہ جناب نبوی ﷺ ومعنی معرفت وجوب اطاعت است در صورت وجود امام وتحذیر از منازعت ومخالفت چنانکہ از لفظ مات میتۃ جاھلیۃ ظاہر است کہ اہل جاہلیت اتباع ریئس واحد ندا شتند وہر فرقہ برائے خورد رئیس می کہ وند۔ (فتاویٰ عزیزی صفحہ 77ج جلد دوم)
شاہ صاحب نے اس حدیث کو صحیح الاسناد فرمایا ہے۔ مگرحافظ ابن تیمیہرحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی نسبت منہاج السنۃ میں لکھتے ہیں۔
هذا الحديث بهذا اللفظ لايعرف انما المعروف مثل ما روي مسلم في صحيحه عن نافع قال جاء عبدا لله بن عمر الخ ثم زكر حديث ابن عمر رضي الله عنه من مات وليس في عنقه بيتعه مات ميتة جاهلية
اور یہ حدیث بہت صحیح ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اپنی صحیح میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ صفحہ38 جلد3 میں مذکور ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے۔
من خلع يد امن طاعة لقي الله يوم القيامة لاحجه له ومن مات وليس في عنقه بيعته مات ميتة جاهلية الخ
اس حديث كے جملہ اخیرہ یعنی ومن مات وليس في عنقه الخ کامطلب ومنشاء یہ ہے۔ کہ جوشخص امام وقت کےہوتے ہوئےاس کی بیعت نہ کرے۔ اور بلابعیت کے مرجائے۔ تو وہ جاہلیت کی موت مرا یعنی گمراہی پر مرا۔ یا اہل جاہلیت کی موت مرا کہ جیسے ان کا کوئی مطاع نہیں۔ اس کابھی کوئی امام مطاع نہیں مجمع البحار میں ہے۔
وفی الفتن فقد مات ميتة هي بالكسر حاله الموت اي كما يموت اهل الجاهليه من الضلال والفرقتك من خرج من السلطان مات ميتة جاهلية اي كموت اهل الجاهلية حيث لم يعرفوا ما ما مطاعا ولايريد انه يموت كافرا بل عاصيا
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں۔
بكسر الميم اي علي صفة موتهم من حيث هم فوضي الامام لهم انتهي
جناب نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ بغیۃ الرائد فی شرح العقائد صفحہ 97 میں لکھتے ہیں۔ '' مراد بمردن جاہلیت آن است کہ باوجود امام وست بیعت باوند ہند ومتابعت اونکند واگر زمانہ آید کہ امامے دراں موجود نہ باشد ونصب امام صورت نہ بندو۔ امید آن است کہ داخل دریں وعید نہ باشد انتھیٰ
شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ صاحب لکھتے ہیں۔ وآنچہ از ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کردہ کہ ومن مات وليس في عنقه بيعته مات ميتة جاهلية صحیح است لیکن مراد آن ست کہ بعداز انعقاد امامت امام باجماع اہل حل وعقد اگر عادل باشد در تسلط استیلا بلامنازع اگر جائز باشد توقف در بیعت روانیست انتھی (فتاویٰ عزیزی جلد دوم صفحہ 77 )واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ محمد عبد الرحمٰن۔ المبارک فوری۔ عفی عنہ۔ سید محمد نزیر حسین (فتاویٰ نزیریہ جلد ثانی ص 143)
(از قلم حضرت خطیب الہند مولانا محمد جوناگڑھی ثم الدھلوی)
امامت و خلافت و امارت کیاچیز ہے۔ اور اسے یہاں ان کےحلال خور امامچوں کے سمجھ رکھا ہے؟یہ سلطان نجد وحجاز کے اس جواب سے ظاہر ہوتا ہے جو آپ نے اس وقت سلطنتوں اور مسلمانوں کی درخواست پر انہیں دیا ہے۔ اس بے طمع سچے مسلم کو بادشادہ کو خدا پاک دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ سلطان المعظم کا یہ جاب عربی اردو اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ ہم اپنے ہاں کے مقامی اخبار ''ملت''سے نقل کرتے ہیں۔
انگریزوں نے یہ کوشش بھی کی تھی کہ کسی طرح جلالۃ الملک ابن سعود منصب خلافت کو قبول کرلینے پر آمادہ ہوجایئں۔ مگر آپ نے صاف صاف کہہ دیا۔ کہ خلیفہ کےلئے ضروری ہے کہ وہ زبردست اور ناقابل مقابلہ طاقت کا مالک ہو جب دنیائے اسلام کے کسی حصے کو غیر مسلموں کے ہاتھوں تکلیف پہنچے۔ تو خلیفہ کےلئے یہ ضروری ہوجاتا ہے۔ کہ وہ مبتلائے مصیبت مسلمانوں کی مدد کو نکلے۔ اس زمانے میں جب تک کسی مسلمان حکمران کے قبضے میں اس قدر بحری بری او ر فضائی قوت نہ ہو کہ وہ کسی بڑی سے بڑی سلطنت کا مقابلہ کرسکے۔ وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا۔ چوں کہ میں اس قدر طاقت کا مالک نہیں ہوں۔ اس لئے اس منصب کو قبول نہیں کر سکتا۔ ''
کہاں میں ہندوستانی برسات کے کیڑے جو چپہ چپہ پرامامت کا دعویٰ کئے بیٹھے ہیں۔ الخ ''محمد''(اخبار محمدی ص 4 یکم ستمبر 38ء)
(از حضرت علامہ جلیل مولانا محمد اسماعیل صاحب ناظم اعلیٰ آل پاکستان اھل حدیث کانفرنس)
معقل بن یسار فرماتے ہیں۔
ما من اميريلي امرا المسلمين ثم لا يجهد لهم ولا ينصح الالم يدخل معهم الجنة (صحیح ابوعوانہ ج1 ص 329)
یعنی مسلمانوں کا امیر یا بادشاہ اگر ان کے معاملات میں خیر خواہی اور نصیحت کی کوشش نہ کرے۔ تو وہ ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایسے کمزورحضرات جو محض شوقیہ امارت کے خواہش مند ہیں۔ ان کو خدا سے ڈرناچاہیے۔ زکواۃ کے چند پیسوں کےلئے جنت سے دائمی محرومی دانش مندی نہیں ہے۔
وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ﴿٩٧﴾ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ
بعض احادیث میں کمزور امراء کو لعنت کا مستحق ٹھرایا ہے۔ سند کے لہاظ سے یہ احادیث ضعیف ہیں۔ مگر مفہوم کےلہاظ سے درست ہیں۔ جو شخص مفوضہ حقوق العباد کی حفاظت پرقدرت نہیں رکھتا۔ اور عامۃ الناس سے زکواۃ وصول کرلیتا ہے۔ وہ یقیناً عوام کو دھوکا دے رہا ہے۔ ایسا شخص یقیناً اس کی رحمت کو نہیں پاسکتا۔ حقوق العباد کا اتلاف ایسا جرم ہے۔ جس کی معانی کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ نہیں فرمایا۔ سنت ک محبت اور شرعی نظا م کی آرزو میں اتنا بد حواس نہیں ہونا چاہیے۔ کہ حق وباطل میں امتیاز ہی ناپید ہوجائے۔ (مصباح۔ ربیع الثانی 71ہجری)
-----------------------------------------------
1۔ قال ابو عبیدہ قاسم بن سلام 223 فی کتاب الاموال ص 573۔
2۔ حضرات خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم مرد ہیں۔ جن کی خلافت راشدہ کوتسلیم کرنا اصولدین سے شاہ مرھوم فرما رہے ہیں۔ (راز)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب