سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(635) پوتے کاحق وراثت

  • 7268
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1492

سوال

(635) پوتے کاحق وراثت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پوتے کاحق وراثت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پوتے کو دادا کی جائداد کا مستحق قرار دینے کا سوال آجکل خاصہ زور پکڑ گیا ہے۔ بعض لوگوں پر تو یہ خیال اتنا مستولی ہوگیا ہے کہ وہ اسے قانونی شکل دینے کے درپے ہیں۔

صورت مسئولہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انتقال کرجائے۔ جس کا مثلا ایک لڑکا موجود ہے۔ اور ایسا پوتا بھی موجود ہے۔ جس کا باپ متوفی کی زندگی میں وفات پاچکا ہے۔ و کیا یہ پوتا دادا کی جائداد کا مستحق وراثت ٹھرتا ہے؟

کتاب وسنت کی روشنی میں اس مسئلے پر غورکرنے والوں بلکہ پوری امت کا آج تک کا متفقہ فیصلہ یہ ہے۔ اور عقل سلیم بھی اسی کی مویئد ہے۔ کہ صور ت مذکورہ میں اس پوتے کو دادا کی جائداد کا حق وراثت نہیں پہنچتا۔ اور متوفی کی جائداد کا مستحق وراثت اس کا بیٹا ہے۔ امت کے اس متفقہ فیصلے کی بنیاد صحیح بخاری کی وہ حدیث ہے۔ جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ

الحقوق الفرائض باهلها فما بقي فهو لا ولي رجل زكر

 يعنی متوفی کی جائداد کے مقررہ حصے حصہ داروں کودے جو بچ جائے۔ اس پران مردوں کا حق ہے۔ جو متوفی سے نسبتاً زیادہ قریب ہوں واضح رہے۔ کہ یہ فرمان نبوی ﷺقرآن سے کوئی الگ شے نہیں۔ بلکہ اس کے بیان کردہ قانون ارث پر مبنی ہے۔ اور قرآن وحدیث نے اس امر کی وضاحت کردی۔ کے میت کی جائداد سے جو جو حصے جن جن کو پہنچتے ہیں۔ وہ ان میں ٹھیک مقدار رپر بانٹ دینے ضروری ہیں۔ اور بقییہ جائداد کا مستحق وہ مرد ہوگا۔ جو متوفی سے زیادہ قریب ہو۔ متوفی سے زیادہ قریب کےلئے حامل قرآنﷺ نے ''اولیٰ کالفظ استعمال فرمایا ہے۔ جسے اسلامی قانون میراث میں ''اقرب''سے تعبیرکیا جاتاہے۔ بالفاظ دیگر یوں سمجھئے کہ متوفی سے جو زیادہ قریب ہوگا۔ وہی اس کی وراثت کا صحیح حقدار ہوگا۔ اس اصول کی روشنی میں امت کا اس پر بلا استثناء اجماع ہے۔ کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجائے۔ جس کے بیتے بھی ہوں اور اس کا پوتا بھی جس کا باپ وفات پاچکا ہو۔ تو وہ اپنے دادا کی جائداد سے مستحق وراثت نہیں ہوگا۔ اور جائداد متوفی کے دیگر مستحق ورثاء میں تقسیم کردی جائے گی۔ اس لئے کہ میراث کی رو سے ایسا پوتا مستحق وراثت نہیں۔ بلکہ مستحق وراثت متوفی کی موجود صلبی اولاد ہے اس ضمن میں خاص طور پر قابل غور لفظ اولی یا اقرب ہے۔ جو اس مفہوم کو واضح کرتا ہے کہ متوفی کا وارث وہ شخص ہے۔ جو اس سے قریب تر ہو ظاہر ہے کہ اس سے قریب تر پوتا نہیں۔ بلکہ بیٹا ہی ہوسکتا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ پوتا اور دادا کا رشتہ براہ راست نہیں ہے۔ بلکہ درمیان میں بیٹے کا واسطہ حائل ہے۔ جو کہ اقرب ہے۔ اور اس درمیانی واسطے نے پوتے کو اولیٰ یا اقرب نہ رہنے دیا۔ جب صورت یہ ہوئی تودادا کی وراثت کا پوتے کی نسبت صلبی بیٹا ہی حق دار ٹھہرا۔ اور اس کی جائداد کا اصل وارث قرار دیا۔ اور پوتا قرابت کےاس اصول کی روشنی میں خود بخود ہی محروم ہوگیا۔ یہاں یہ بات صاف ہوجانا ضروری ہے۔ کے علمائے امت نے بالاجماع اب تک جن چیزوں کو استدلال کا ماخذ اور احکام کی عمارت کا بنیاد ی پتھر قرار دیا ہے وہ یہ ہے۔ کتاب اللہ۔ سنت رسول اللہﷺ۔ اجماع ۔ اور قیاس مجتہد

علماء کا طریق استدلال یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ان کو تحقیق کرنا ہو تو وہ اولا ًکتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگر کتاب اللہ سے اس کی وضاحت نہ ہوتی ہو۔ تو سنت رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگر اس میں بھی ناکام رہیں تو اجماع امت کودیکھتے ہیں۔ اگر ا س میں بھی کامیاب نہ ہوں۔ توقیاس مجتہد کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔

یہ چار مراحل ہیں جنھیں استدلال کا سفر کرتے وقت عبور کرنا پڑتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا زیر بحث مسئلہ پوتے کی وراثت سے متعلق ان چاروں میں سے کسی میں یہ ثابت ہوتا ہے۔ کہ ایسا پوتا دادا کی جائداد کامستحق قرار پاتا ہے۔ ہرگز نہیں کتاب اللہ۔ سنت رسلو اللہ ﷺ اجماع امت۔ اور قیاس آپ ان چاروں کو کھنگال ڈالیے۔ ان کی مقررہ حدود میں بار بار اشہب فکر کودوڑایئے۔ اور اپنی نظر عمیق کو وسیع سے وسیع تر کیجئے۔ مگر آپ یقین جانیئے کہ آپ کو ایسا پوتا محرو الارث ہی نظرآئے گا۔ (الاعتصام 5 مارچ 1945ء)

قانون وراثت اور رواج

عرصہ سے ملک کی بہت سی مسلمان قوموں میں ایسے مقدمات وراثت کے متعلق عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ جن میں سے فریقین میں سے ایک شرع شریف پیش کرتا ہے۔ تودوسرا روااج رواج پیش کرنے والے عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو لڑکیوں کوحصہ نہیں دیتے۔ خاص امرتسر میں بھی اس قسم کے مقدمات کثرت سے ہوتے ہیں۔ جن کا فیصلہ اس طرح ہوتا ہےکہ جن قوموں میں شریعت کے رواج کی ایک دو مثالیں مدعی پیش کرسکتا ہے۔ تو شریعت پر فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اور جس قوم میں رواج کا ثبوت ہوتا ہے۔ رواج پر ہوجاتا ہے۔ اس سے عدالتوں میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں۔ اس کے فیصلے کے لیے عنقریب سرکاری کانفرنس بیٹھنے والی ہے۔ مسلمانوں کے امتحان کا موقع ہے کہ دنیائے دنی کو پسندکرتے ہیں یا ایمان قوی کو اگر انہوں نے صاف صاف لفظوں میں اظہار خیال کردیا۔ کہ ہم کو شریعت منظور ہے۔ تو دین اور دنیا دونوں بچ جایئں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مسلمانوں کے امتحان کاموقع یہی قرار دیتاہے۔ غور سے سنیئے۔ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴿٥١سورة النور

’’مسلمانوں کو جب اللہ اور رسول ﷺ کی طرف فیصلہ کےلئے بلایاجائے۔ تو وہ بجز اس کے کچھ نہیں کہتے۔ کہ ہم نے سنا اور مانا بس یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔‘‘

اس آیت نے فیصلہ کردیاہے کہ جولوگ اپنے نزاعات میں عموماً اور مسئلہ وراثت میں خصوصاً شریعت سے روگرداں ہوتے ہیں۔ وہ خدا کے نزدیک ایمان سے خارج ہیں۔

ایسے لو جو مقدمات میں شریعت کے مقابلہ میں رواج کوترجیح دیتے ہیں۔ پنجاب میں تو بہت کم ہیں۔ جمہور اہل اسلام برابر شریعت کے مطابق تقسیم کرتے ہیں۔ اس لئے سرکاری کانفرنس سے ہمیں توقع رکھنی چاہیے۔ کہ وہ اس امر میں جمہور مسلمانوں کے جذبات کا خیال فرما کر گمراہ مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کا قانون بنادے گی۔ خدا کرے کہ ہماری آرزو پوری ہو۔ اور گورنمنٹ کے دل میں خدا کیطرف سے یہی ڈالا جائے کہ جدید قانون سے حسب الوعدۃ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو صدمہ نہ پہنچے۔ (اہلحدیث 28زی قعدہ 1333ہجری مطابق 18اکتوبر 1915ء)

پوتے کی وراثت میں مرزائی غلطی

مرزا صاحب اور ان کے اتباع قسم کھائے بیٹھے ہیں۔ کہ جائز وناجائز ہر امر میں علماء اور فقہاء کی مخالفت کریں گے۔ قادیانی جماعت تو اس بارے میں اعلیٰ معراج پر ہے۔ لاہوری جماعت کےارکان بھی اس امر میں ان سے کچھ کم نہیں لطف یہ ہے کہ اپنا دوعویٰ ثابت کرنے سے پہلے ہی علماء اور فقہاء پرجارحانہ حملے شروع کردیتے ہیں۔

مولوی محمد علی صاحب کی ساری تفسیر میں یہی طر زعمل ملتا ہے اس جماعت کے دوسرے بڑے رکن ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ہیں جو عربی میں نا کافی قابلیت رکھنے کے باوجود فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اور تفیسر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ سے اعلی ہونے کا رزعم گمان رکھتے ہیں چنا نچہ پیغام صلح مو رخہ /8 اکتو بر میں یتیم پوتےکی وارثت کے متعلق آپ کا مضمون نکلا ہے جس کے الفا ظ مع سرخی یہ ہیں۔

پو تے کی وارثت میں اجتہادی غلطی

 ان مسائل میں سے جن میں بعض فقہاء کو غلطی لگی ہے پوتے کی وارثت کا بھی مسئلہ ہے ان کے نز دیک کسی شخص کے دادا کی زندگی میں اگر اس کا باپ مر جائے تو اس کی چچا کی موجود گی میں دادا کے تر کہ سے وہ پوتا محروم ہو جا ئے گا مثلا زید کے دو بیٹے بکر اور عمر ہیں اگر عمر اپنے باپ کی زند گی میں مر جائے تو عمر کا بیٹا خا لد اپنے دادا زید کے ترکہ سے محروم ہو جائے گا اور سارا ترکہ اس کے چچا بکر کو مل جا ئے گا ۔

جہاں تک میں غورو فکر اور تحقیقات کی ہے پو تے کی محرومی غلط ہے قرآن کریم میں صاف لفظوں میں ارشاد ہے۔ يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴿١١سورة النساء

’’اللہ تمہیں وصیت کرتا ہے تمہاری اولادکے بارے میں کہ مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ دو ‘‘جس کے صاف معنی ہیں کہ زید کی جتنی بھی اولاد ہو لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب کو زید کے ترکہ میں سے حصہ دیا جائے کو ئی وجہ نہیں کہ ایک باپ کی اولاد میں سے ایک شاخ حصہ ملے اور دوسری کو نہ ملے ۔ (پیغام صلح لاہور ۔ 8اکتوبر 41ء؁ ص4)

 اہلحدیث

طر یقہ تحقیق یہ ہے کہ اس مسئلہ پر بحث کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ قرآن مجید کے ارشاديوصيكم الله في اولادكم میں اولاد کا لفظ بیٹوں اور پوتوں کو یکساں شا مل ہے یعنی کلی متواطی ہے یا حقیقت و مجاز کی قسم سے ہے ڈاکٹر صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیٹوں اور پوتوں دونوں کو اولاد کا حقیقی مصداق جانتے ہیں اسی بناء پر ان کا سارا مضمون مبنی ہے پس وہ ہمارا سوال حل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 2 ص 578

محدث فتویٰ

تبصرے