سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(597) شراکتوں میں دو قسم کا طریقہ رائج ہے..الخ

  • 7224
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1278

سوال

(597) شراکتوں میں دو قسم کا طریقہ رائج ہے..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسمیان محمد شریف ومحمد حسین وولی محمد برادر حقیقی ہیں ۔ مگر عرصہ سے الگ الگ ہیں۔ ساری چیزیں بجز کھیت کے منقسم ہوچکی ہیں ۔ ایک کھیت کے متعلق مسمی ولی محمد بغیر رائے ومشورہ اپنے بھایئوں کےاسامی سے قبضے کا مقدمہ لڑے۔ ولی محمد ہارگئے۔ اوراسامی جیت گیا۔ ولی محمد بعدہ گھر سے اپنے سسرال چلے گئے۔ جہاں تقریبا 14 برس رہے ۔ ولی محمد نے سسرال پہنچ کر ایک معتبرشخص کی زبانی کہلا بھیجا کہ محمدحسن بھائی اگر اپنا کچھ فائدہ دیکھیں۔ تو آگے مقدمہ لڑیں۔ ہم کو اب اس کھیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعدہ محمد حسن نے کھیت مذکورہ کا مقدمہ بعدالت کمشنری وہائی کورٹ بعدخرچ زر کثیر کے جیت لیا۔ اور کھیت پر قبضہ دخل حاصل کرلیا۔ ولی محمد اب اپنے سسرال سے بعد 14 برس کے آگے ہیں۔ اوردعوے دار ہیں۔ کہ ہمارے مقدمہ خرچہ جس کو ہار گئے تھے۔ دونوں بھائی دیں۔ مگر محمدحسین ومحمدشریف عذدار ہیں کہ تم مشترکہ کھیت کا مقدمہ دائر کرکے بلاہم لوگوں کے مشورہ کے ہماری ملکیت کھوبیٹھے تھے ۔ اور بلا ہم لوگوں کی رائے کے تم کو مقدمہ داخل کرے کا کوئی حق نہ تھا۔ ہم دونوں خرچہ دینے کے زمہ دار نہیں۔ بلکہ بمطابق تمہارے کہلا بھیجنے کے اس کھیت پر  تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ولی محمد ہارے ہوئے مقدمہ کا خرچہ پانے کا مستحق ہے۔ یا نہیں۔ حالانکہ دوران مقدمہ میں بھی کبھی تذکرہ نہیں کیا۔ اوراب کھیت پر اس کا حق بحال رہا یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شراکتوں میں دو قسم کا طریقہ رائج ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ایک شخص جو مختار ہو یا شرکاء میں سے بڑا ہو وہ جو کام کرے۔ عدالتی اور عرفی طور پر دوسرےسے سب اس کے زمہ دارسمجھے جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے۔ کہ ایک شریک کا کوئی کام کرتا ہے۔ دوسرے خاموش رہ کر اپنی رضا مندی ظاہر کردیتے ہیں۔ ان تینوں بھایئوں کا برتائو اگر ایسا ہی ہے۔ تو تینوں خرچ میں شریک سمجھے جایئں گے۔ اگر ان کا دستور العمل مشورے سے کا م کرنے کا ہے۔ تو اکیلا ولی محمد خرچے کا زمہ دار ہے ہرحال ان کے سابقہ طرزعمل کودیکھا جائے گا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 2 ص 561

محدث فتویٰ

تبصرے