السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی نے سولہ برس سے پہلے ایک جامع مسجد کی عمارت کےلئے اندازاً پانچ بیگہ زمین کچھ رقم دے کرزمین دار سے لا خراج بنا کر خالصا اللہ ایک مسجد پختہ بنائی تھی۔ اور مین مذکورہ متصل مسجد میں میوہ اور درختوں سے ایک باغ بنا کر مصلیوں اور مسافروں کے لئے اللہ وقف کیا تھا۔
اس وقت نواسہ وقف کنندہ کہتا ہے کہ سوائے مسجد پختہ کے جتنی زمین اور باغ ہے میر قبضہ میں ہے۔ یہ سب وقف شدہ ہیں۔ دریں صورت نواسہ وقف کنندہ گناہگار ہے۔ ؟ یا مصلیوں کاحق زائل ہوجائے گا۔ ؟ جواب از قرآن وحدیث ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وقف کا ثبوت اگر ہے۔ تو وقف ہے ۔ تحریری ہویازبانی پھر کسی کا انکار چنداں مضر نہیں۔ (اہلحدیث امرتسر ص 12 6جمادی الاخری 46 ہجری)
کسی واقف نے یہ وصیت کی ہو۔ کہ آمدنی فلاں مکان موقوف یا فلاں دکان موقوف کی فلاں مسجد کے مصرف میں خرچ ہوتی رہے۔ تو کیا کسی وارث واقف یا حاکم یا متولی کو جائز ہے کہ اس مکان یا دکان موقوف کی آمدنی کسی دوسری مسجد کے مصرف میں صرف کرے۔ بینوا توجروا۔
الجواب۔ ہر گاہ نص صریح واقف کی طرف سے یہ پائی گئی کہ فلاں مکان موقوف یافلان دوکان موقوف کی آمدنی فلاں مسجد کے مصرف میں خرچ ہوتی رہے۔ تو بعد ازاں کسی وارث واقف یا حاکم یا متولی کویہ روا نہیں کہ آمدنی اس مکان موقوف یا دکان موقوف کی کسی دوسری مسجد کے مصرف میں صرف کرے۔
شرط الواقف يحبب اتباعه لقولهم شرط الواقف كنص الشارع كذافي الاشياء والقنيةوالدارالمختار وغيرها من كتب الفقه وان اختلف احد هما بان بني رجلان مسجدين اوور رجل مسجد او مدرسة ووقف عليها اوقافا لا يجوزله ذلك كذافي المختار
یعنی اگر مختلف ہو۔ اس طرح پرکہ دو شخصوں نے دو مسجدیں بنایئں۔ یا ایک شخص نے مسجد اور مدرسہ بنایا اور دونوں پر اوقاف وقف کیے تو حاکم کو یہ جائز نہیں کہ ایک کا محصول دوسرے پر صرف کرے۔ پھر جو کوئی خلاف نص موصی واقف کے کرے گا۔ وہ وعید میں اس آیت کریمہ کے
فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ ﴿١٨١﴾سورة البقرة....
داخل ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب