سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(563) متفقہ فتویٰ بابت توریث بنات

  • 7190
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-09
  • مشاہدات : 1195

سوال

(563) متفقہ فتویٰ بابت توریث بنات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

متفقہ فتویٰ بابت توریث بنات


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

متفقہ فتویٰ بابت توریث بنات

 (از قلم مولانا حکیم عبد الشکور صاحب شکراوی)

لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا﴿٧سورة النساء... یعنی مردوں کا حصہ اس میں سے جو ماں باپ اور نزدیک کے رشتہ داروں نے چھوڑا اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہے۔ اس میں سے جو چھوڑا ہے ماں باپ نے اور قریبی رشتہ داروں نے ترکہ کم ہو یازیادہ سب میں سے حصہ مقرر کیا ہوا چاہے ترکہ جائداد صحرائی یا مکان دکان وغیرہ ہوچاہے۔ نقد یا برتن کپڑے وغیر ہ ہو۔ اور خواہ نقد موجود ہو۔ خواہ کسی پر میت کا قرض آتا ہو۔ سب میں مردوں کیطرح عورتیں بھی حق دار ہیں۔ اس آیت سے صراحتا معلوم ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ یعنی جیسا کہ بیٹا پوتا وغیرہ اپنے ماں باپ دادا دادی وغیرہ کا وارث ہوتا ہے۔ ایسا ہی بیٹی پوتی وغیرہ بھی حقدار اور وارث ہیں۔ اور جیسا کہ بھائی وارث ہوتا ہے بھائی بہن کاجب کہ کوئی حاجب نہ ہو۔ ایسا ہی بہن بھی اس وورثہ میں شریک ہے اور جیسا کہ خاوند بیوی کا وارث ہوتا ہے۔ ایسا ہی بیوی بھی ہرحال میں وارث ہے۔ اور اس آیت میں تو مردوں اور عورتوں کا مستحق میراث ہونا ارشاد فرمایا ہے۔ آئندہ رکوع میں ان کے حصص بیان فرماتا ہے

 يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ﴿١١سورة النساء

''یعنی اللہ تعالیٰ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت (حکم ) کرتاہے۔ کہ مرد (یعنی بیٹے) کے لئے دو عورتوں (یعنی بیٹیوں ) کے حصہ کے برابر ہے۔ پس اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث ہوں تو ایک تہائی بیٹی کو ور دو تہایئاں بیٹے کو ملیں گی۔ اوراگردو بیٹیاں اور ایک بیٹا تو آدھا بیٹے کو۔ اور آدھے میں سے دونوں بیٹوں کو برابر ملے گا۔ اوراگردو بیٹوں اور ایک بیٹی ہوں۔ تو پانچواں حصہ بیٹی کا ہے۔ اور باقی دونوں بیٹے تقسیم کرلیں۔ غرض بیٹی کا اکہرا اور بیٹے کا دوہرا حصہ ہے یہ نہیں کہ تہائی میں بیٹیاں شریک اور دو تہائی میں بیٹے جیسا کہ بعض کو خیال ہوجاتاہے۔ اور یہ جب ہے کہ بیٹی بیٹا دونوںوارث ہوں۔ اور اگر فقط بیٹا ہو تو ـ (اولاد کا حق ہو وہ) کل اس کو ملے گا اور اگر فقط بیٹی ہو تو اس کابیان آگے آتا ہے۔

فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ﴿١١سورة النساء

یعنی پس اگر عورتیں (یعنی بیٹیاں ) ہی ہوں۔ (دو خواہ) دو سے زیادہ تو ان کے لئے دو تہایئاں ہیں۔ کل ترکہ میں سے اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لئے آدھا ترکہ ہے۔ پس یہ جو رواج ہے کہ بیٹی کو حصہ نہیں دیا جاتا تو یہ ظلم ہے۔ اور بعض لوگ بیٹا نہ ہونے کی حالت میں تو بیٹی کو حصہ دے دیتے ہیں۔ اور بیٹا موجود ہو تو بیٹی کو حق نہیں دیتے۔ یہ بھی ظلم ہے دونوں حال میں بیٹی کا حق دار ہونا اس آیت میں موجود ہے۔

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْن﴿١١سورة النساء

یعنی میت کے ماں باپ کےلئے ہر ایک کے واسطے چھٹا حصہ ہے۔ ترکہ میں سے اگر میت کی کوئی اولاد ہو (لڑکا یا لڑکی) بھی ہو۔ اگر اس کی اولاد نہ ہو اور اس کے ماں باپ ہی وارث ہوں تو اس کی ماں کےلئے تہائی ہے۔ اور دو تہائی باپ کےلئے ہے۔ او ر اگر میت کی بیوی موجود ہو تو اس کو چوتھائی دینے کے بعد یہ تقسیم ہوگی۔ اسی طرح اگر میت عورت ہے۔ اور اس کے ماں باپ اور خاوند موجود ہوں۔ تو خاوند کو نصف دے کر باقی نصف کے تین حصے کرکے ایک ماں کو اور دو باپ کو دیئے جایئں اور اگر اس کے بہن بھائی بھی ہوں۔ (یعنی کم از کم دو بہن دو بھائی یا ایک بہن یا ایک بھائی ) تو اس کی ماں کےلئے چھٹا حصہ ہے۔  بعد اس کی وصیت پوری کرنے کے جو اس نے کی ہو۔ اور شریعت میں معتبر ہو۔ یا قرض ادا کرنے کے جوشرعا ً اس کے زمہ ہو۔ اس آیت میں صاف موجود ہے کہ اگر کسی کابیٹا اور باپ دونوں وارث ہوں۔ تب بھی باپ کو حق پہنچتا ہے۔ پس یہ جو رواج ہے کہ بیٹا کل ترکہ لے لیتا ہے۔ یہ ظلم ہے اس صورت میں چھٹا حصہ والد کو دے کر باقی بیٹے کا ہے۔ اس طرح ماں ہر حال میں وارث ہے۔ اس کو کسی حال میں وارث قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ بھی خلاف شریعت اور حرام ہے۔ بعض لوگوں کواس حکم میں وسوسہ ہوسکتا تھا۔ اور جو ان میں عام رسم ہے۔ اس میں کچھ خوبی کا خیال ہوسکتا تھا۔ اس کو رفع کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١١سورة النساء

یعنی تمہارے اصول وفروع (ماں ۔ باپ ۔ بیٹا ۔ بیٹی) جو ہیں تم پورے طور پر یہ نہیں جان سکتے ہو۔ کہ ان میں کون ساشخص تم کو (دنیاوی واخروی) نفع پہنچانے میں نذدیک تر ہے۔ یہ حکم من جانب اللہ مقرر کیا گیا۔ اور یہ امر بالیقین مسلم ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ بڑے علم والے اور حکمت والے ہیں۔ (پس جو حکمتیں انہوں نے اپنے علم سے اس میں ملحوظ رکھی ہیں۔ وہی قابل اعتبار ہیں۔ اس لئے تمہاری رائے پر نہ رکھا۔

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ﴿١٢سورة النساء

اور تمہارے لیے آدھا ہے اس کا جو چھوڑا ہے۔ تمہاری بیویوں نے اگر ان کی اولاد نہ ہو پس اگر ان کی اولاد ہو۔ تو تمہارے لئے چوتھائی ہے۔ ا س میں سے جو چھوڑا انھوں نے بعد اس وصیت (جائز پوری کرنے) کے جو وہ کریں یا قرض (ادا کرنے) کے اور ان (بیویوں) کے لئے چوتھائی ہے جو چھوڑا تم نے اگر تمہاری اولاد نہ ہو اگر تمہاری اولاد (بیٹا ۔ بیٹی۔ پوتا ۔ پوتی۔ ) ہو تو ان (بیویوں ) کے واسطے آٹھواں حصہ ہے۔ اس میں سے جو چھوڑا ہے۔ تم نے بعد اس (جائز) وصیت کے جو تم کرو یا قرض کے۔

اس آیت سے معلوم ہواکہ خاوند کے ترکہ میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے۔ اور لاولد خاوند کے ترکہ میں سے چوتھائی ہے۔ وہ کسی صورت میں کل ترکہ کی وارث نہیں ہوسکتی۔ اور نہ بالکل محروم ہوسکتی ہے۔ پس یہ رواج ہے کہ بعض صورت میں بیوی سب کی مالک بن بیٹھتی ہے۔ باطل ہے اس کو چاہیے کہ انے حصہ مذکورہ سے زائد شوہر کےدیگر ورثاء بیٹا بیٹی بھائی یا بہن وغیرہ کو دے دے ۔ اس صورت یہ دستور کہ اگر عورت نکاح ثانی کرے۔ تو اس کے خاوند کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملتا ظلم اور حرام ہے۔ اسی طرح بیٹوں کا سب ترکہ پر قابض ہوجانا اور بیوی کو محروم کرنابھی ناجائز ہے۔ نیز یہ رواج کہ خاوند بیوی کا کل مال خود لے لیتا ہے۔ خلاف شرع ہے اس کو اپنا حصہ مقررہ لے کر بقیہ دیگر شرعی وارثوں کو دینا لازم ہے۔

وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ﴿١٢سورة النساء

یعنی اگر وہ شخص جس کی میراث لی جاتی ہے۔ کلالہ ہو (یعنی نہ تو اس کا باپ ہو اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو) یا عورت (ایسی ہی) ہو اور اس کے (ماں شریک ) بھائی یا بہن ہوں تو ہر ایک بھائی بہن کےلئے چھٹا حصہ ہے پس اگر وہ   (ماں شریک بھائی بہن) اس سے (یعنی ایک سے) زیادہ ہوں تو وہ تہائی میں شریک ہیں۔ بعد وصیت کے جو کے بناوے یا قرض کے بشرط یہ کہ کسی کو ضرر نہ پہنچاوے۔ یہ حکم کیاگیا ہے۔ اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا تحمل والا ہے۔ اور آخرصورت میں ہے۔

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴿١٧٦سورة النساء

یعنی حکم دریافت کرتے ہیں آپ سے فرمادیجئے کہ کلالہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی مرد (یا عورت مرجاوے) اور اس کی کوئی اولاد (پسری ) نہ ہو۔ اور (نہ باپ ہو) اور اس کی ایک بہن (سگی یا باپ شریک ہے) تو اس کےلئے نصف ہے۔ اور اگر اولاد دختر ہی موجود ہو تو اُس کا حصہ مقرر ہ دے کر بقیہ بھائی یا بہن کو دیاجاوے۔ اور بھائی بھی وارث ہوتا بہن (اور بھائی ) کا۔ اگر اس میں بہن (بھائی کی اولاد نہ ہو) اور بھائی بہن (دونوں وارث ہوں) تو مرد کےلئے دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے (احکام) بیان کرتا ہے۔ تا کہ تم گمراہ نہ ہو۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔

ان آیتوں سے معلوم ہواکہ بیٹا اور باپ نہ ہونے کی حالت میں جیسا کہ بھائی وارث ہے۔ ایسا ہی بہن کو حق وراثت پہنچتا ہے۔ بہن کو محروم قرار دینا صریح ظلم ہے۔ اور

يوصيكم الله اور فريضه من الله اور وصية من الله میں ان احکام کی بہت بڑی تاکید فرمانے کے علاوہ ارشاد ہے۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴿١٤سورة النساء

یعنی یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبردار ی کرے۔ اس کو اللہ بہشتوں میں داخل کرےگا۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے۔ اور ا س کی حدوں سے (بالکل ) ہی نکل جاوے۔ اس کو اللہ دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا۔ اسی میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے واسطے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔

اس سے زیادہ تاکید کیاہوسکتی ہے کہ مخالفت کرنے والے کے واسطے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ اللہ ہم سب کو بچاوے۔ اور اسی مقام پر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سےیہ مختصر بیا ن کیاگیا ہے۔ مفصل بیان فرائض کی کتابوں سے معلوم ہوسکتا ہے۔ اس مختصر اور مجمل بیان ہی سے یہ معلوم ہوگیا۔ کہ رواج عام میں کتنے حقداروں کی حق تلفی کیجاتی ہے۔ اور یہی مقصود مقام ہے۔ اورحق تلفی کی ممانعت میں مذمت میں آیت بالا کے علاوہ دوسری آیات واحادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا﴿٢ سورة النساء

 او ر تم یتیموں کو ان کا مال دے دو۔  اور پاک (مال) سے ناپاک (مال) مت بدلو۔ اور یتیموں کامال اپنے مال میں ملا کر مت کھائو بے شک وہ بڑا گنا ہ ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ حلال میں حرام مل جائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ اس میں حرام کم ہو یا زیادہ (کما ھو الظاہر من العموم) اورارشاد ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا ﴿١٦٨سورة البقرة (اے لوگو! جو چیزیں زمین میں ہیں ۔ ان میں سے حلال  پاک چیزوں کو کھائو اور ارشاد ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴿١٠سورة النساء

 یعنی بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں۔ وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ اور عنقریب وہ لوگ آتش دوزخ میں داخل ہوںگے۔ ااورارشاد ہے۔

وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا ۔ یعنی او ر تم میراث کا سارا مال سمیٹ کرکھاجاتے ہو۔ (یعنی دوسروں کا حق بھی کھا جاتے ہو۔ ) اور مال سے بہت ہی محبت رکھتے ہو۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ حرام مال آگ ہے۔ جو کسی کا مال ناحق کھاتا ہے۔ وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہا ہے۔

وعن ابن عمر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم الظلم ظلمات يوم القيمة (رواہ البخاری ومسلم وترمذی (ترغیب ص 389)

ظلم کرنا قیامت کے دن کئی اندھیریاں (یعنی اندھیروں کاسبب) ہے (جو کہ انسان کو جنت میں جانے سے روکنے والی ہیں۔ )

وعن سعيد ابن زيد قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من اخذ شبرا من الارض ظلما فانه يطوقه يوم القيمة سبع ارضين (متفق عليه) مشكواه شريف ص ٣١٥) یعنی جس نے ایک بالشت بھر زمین بھی ناحق لے لی ضرور وہ اس کے گلے میں طوق کر کے پہنائی جاوے گی۔ سات زمینوں تک۔

 عن سالم بن ابيه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من اخذ من الارض شيا بغير حقه خسف به يوم القيامة الي سبع ارضين (رواه البخاري ومشكواة ٢٥٦) یعنی نے جس نے کچھ زمین ناحق لے لی ا س کو قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جاوے گا۔

 وعن يعلي بن مرة قال سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول ايما رجل اظلم شبرا من الارض كلفه الله عزو جل ان يخمره حتي يبلغ به اخر سبع ارضين ثم يطوقه يوم القيامة حتي يقضي بين الناس (رواه احمد والطبراني وابن حبان في صحيحه (ترهيب ص ٣٣٥)

یعنی رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس نے بالشت بھر (یعنی بہت تھوڑی سی) زمین بھی ازرہ ظلم لے لی۔ اللہ عزو جل اس کو قبر میں تکلیف دے گا۔ کہ (اس ظلم سے لی ہوی زمین) کوکھودے۔ یہاں تک کہ سات زمینوں کے آخر تک پہنچ جاوے پھر وہ اس کے گلے میں پہنائی جاوے گی۔ جب تک کہ لوگوں میں فیصلہ کیا جاوے۔ پھر وہ اس کے گلے میں پہنائی جاوے گی۔ جب تک لوگوں میں فیصلہ کیاجاوے۔ (اللہ محفوظ رکھے) آمین۔

وعن ابي بكر صديق رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة جسد غذي بالحرام (رواه ابو يعلي والبزار والطبراني في الاسطوا البيقي وبعض اسانيد هم حسن (ترغيب ص ٣١١)

یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں وہ جسم داخل نہ ہوگا۔ جس کو حرام غذا دی گئی اور اگرحرام مال سے زکواۃ وصدقہ دیا جاوے۔ یا نماز روزہ اور حج میں خرچ کیا جاوے تو وہ قبول نہیں ہوتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ﴿٢٦٧ سورة البقرة

اےایمان والو اپنی کمائی میں سے عمدہ (یعنی حلال پاک) چیز کو اور جو ہم نے زمین سے تمہارے لئے پیدا کیا ہے۔ اس میں سے خرچ کیا کرو۔ اور ردی چیز کی طرف خیال مت لے جایاکرو۔ کہ اس میں سے خرچ کردو۔ حالانکہ تم کبھی اس کے لینے والے نہیں۔ ہاںاگرچشم پوشی کرجائو۔ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ تعریف کے لائق ہے۔ اس آیت میں مال طیب خرچ کرنے کا حکم ہے۔ اور خبیث سے منع فرمایا ہے۔ اور حرام سے بڑھ کر کیا خبیث ہوگا۔ اور حدیث شریف میں ہے۔

 لا يقبل الله الا الطيب (رواه البخاري مسلم ونسائي والترمذي وابن ماجة وابن خذيمة في صحيحة عن ابي هريرة (ترغيب ص ١٤٨)

 یعنی اللہ تعالیٰ حلال کے علاوہ کوئی چیز قبول نہیں کرتا۔

 وعنه قال قا ل رسو ل الله صلي الله عليه وسلم اذا اديت زكوة مالك فقد قضيت ما عليك ومن جمع مالا حراما ثم تصدق به لم يكن له فيه اجر وكان وزده عليه (رواه ابن حبان وابن خزيمة في صحيحا والحاكم (ترغيب ص ٣-٩)

 یعنی تو نے جب اپنے مال کی زکواۃ ادا کردی۔ تو جوتیرے ذمہ (حکم )  تھا۔ وہ پورا کردیا۔ اور جس نے حرام مال جمع کیا۔ پھر وہ صدقہ کردیا تو اس میں اس کو کچھ ثواب نہیں ہوا۔ اوراس (مال حرام) کا گناہ اس کے زمہ رہے گا۔ صدقہ سے نہ اس کوصدقہ کا ثواب ملےگا۔ اور نہ ظلم کاگناہ معاف ہوگا۔ بلکہ جب صاحب حق کو دے دے گا تب سبکدوش ہوگا۔

ان آیات واحادیث سے معلوم ہوا کہ اس رواج کی وجہ سے حق تلفی کا گناہ ہونے کے علاوہ عبادات مالیہ (صدقہ وغیرہ ( اور بدنیہ (نماز وغیرہ) بھی قبول نہیں ہوتیں۔ اس سے زیادہ کیا خسارہ ہو سکتا ہے۔ اے میرے پیارے مسلمان بھایئو! فرقہ اناث کوترکہ سے محروم کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ اب ظالم کا بیان سنیئے۔

 وعن سلمان الفارسی وسعد بن مالك وحذيفة بن اليمان و عبد الله بن مسعود حتي عد ستة او سبعة من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم قالوا ان الرجل لترفع له يوم القيامة صحيحفة حتي ير انه ناج فما تزال مضالم بني آدم تتبعه حق ما يبقي له حسنة وتمحمل عليه من سيئا تهم (رواه البهيقي في البعث باسناد ضيد (ترغيب ص 390)

یعنی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد بن مالک اورحذیفہ بن الیمان وعبد اللہ بن مسعود وغیرہ چھ یا سات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ (بعض) آدمی کے لئے اعمال نامہ اٹھایاجائے گا۔ (اور اس میں بہت سی نیکیاں ہوں گی۔ ) یہاں تک کہ وہ (اس کو دیکھ کر) نجات کا یقین کرلے گا۔ پھر لوگوں پر کئے ہوئے ظلم (مطالبہ کےلئے) اس کے پیچھے لگے رہیں گے۔ (اور ان کا بدلہ دیا جائے گا) یہاں تک کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہیں رہے گی۔ اور ان (مظلوموں) کی خطایئں  (حساب پورا کرنے ک مقدار ) ا س پر ڈالی جاوے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔

من كانت له مطلمة لا خيه من عرضه اوشئ فليحتل منه اليوم قبل ان لا يكون دينار ولادرهم ان كا ن له عمل صالح اخذ منه بقدر مظلمة وان لم يكن له حسنات اخذ سيثات صاحبه فحمل عليه (رواه البخاري عن ابي هريرة (مشكواة ص ٣٧-)

یعنی جس پر کسی بھا ئی کی آبروریزی یا کسی قسم کا رجا ن ما لی  حق ہو اس کو چا ہیے کہ اس سے آج ہی سب گرو ی حا صل کر لے اس دن سے پہلے نہ دینار ہو گا اور نہ درہم بلکہ اگر اس کے پا س نیک عمل ہوں گے تو ان میں سے ان کے ظلم کے موا فق یعنی کو اس کا عوض ہو جا ئیں وہ لئے جا ویں گے اور اگر اس کے پا س نیکیاں نہ ہوں گی تو اس کے فریق کے گناہوں  میں سے لے کر اس پر ڈال دی جا ئیں گی

وعن ابي امامة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ان الله ليملي الظالم حتي اذا اخذ لم يفلته ثم قراء او كذالك اخذ ربك اذا اخذ القري وهي ظالمة (متفق عليه  (مشكواة ص ٣٧-)

یعنی بے شک اللہ تعا لی ظا لم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ جب پکڑے گا تو چھوڑے گا نہیں  پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلا وت فر ما ئی ّ

وكذلك اخذربك الاية

 یعنی اسی طرح تیرے رب کا پکڑنا ہے جس وقت بستیوں کو یعنی بستی والوں کو پکڑتا ہےاس حا ل میں کہ وہ بستی والے ظالم ہوں غرض وہاں ذرہ ذرہ کا حساب ہو گا اور سب حقداروں کے حق ادا کرنے ہوں گے اور اس  حرام کھا نے کا مزا معلوم ہو جائے گا ۔

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَ

پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھے گا اور جس نے ذرہ برا بر بد ی کی وہ اسکو بھی دیکھے گا ۔

 وعن ابي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لتوءدن الحقوق الي اهلها يوم القيمامة حتي يقا دللشاة الجلجاء من الشاة القرناء رواه مسلم (مشكواة ص ٢٧١)

 یعنی قیامت کے دن حقد اروں کےحقوق ضرور بالضرور ادا کیے جایئں گے۔ یہاں تک کے سینگ والی بکری سے بے سینگ بکری ( کے مارنے کا) بھی بدلہ لیا جاوے گا۔ ان آنتوں کا خطرہ لیتے ہوئے حرام کھانا اور ظلم کرنا کون عقل مند پسند کرسکتا ہے۔ قال اللہ تعالیٰ۔ قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ

اس کے علاوہ اور بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں بوجہ اختصار کے انہیں پر اکتفاء کیا گیا۔ (مضمون مولوی عبد الکریم گمتھلوی کے رسالہ غصب المیراث سے ماخوذ ہے)

اس رواج کا باطل ومنکر ہونا۔ اور توریت بنات وغیرھا نص قطعی سے ثابت ہے اس کی مخالفت اگر اعتقاداً ہے تو کفر ہے۔ اور عملاً ہے۔ تو اشد درجہ کا فسق ہے۔ پس اس باب میں عقیدہ کی درستی اور عمل کی اصلاح تو یقینا ًفرض ہے۔ اور ابطال باطل وازالہ منکر قادر پرفرض ہے۔ لہذا سکوت بھی حرام ہوگا۔ اور تسلیم کرنا تو اس سے اشد ہے۔ اورحمایت کرنا سب سے بڑھ کر اشنع واقح ہے۔ وہذا کلہ ظاہر۔ (کتبہ اشرف علی تھانوی)

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اس باطل وحرام رواج کے قلع قمع میں کوشش کرے۔ امید ہے کہ علمائے کراس فریضہ اسلامی کی طرف تقریر وتحریر اً ضرور توجہ دلایئں گے۔ (حررہ احقر ظفر احمد عثمانی عفا اللہ عنہ تھا نہ بھون ۔ ضلع مظفر نگر)

اگر کوئی صاحب میراث کے (قانون شرعی) کا انکا کرے۔ تو نصوص قطیعہ کا انکار ہوگا اور معلوم ہے کہ قرآن پاک اور احکام قطعیہ کا منکر کون ہوتا ہے۔ اس سے زائد کیا کہا جاسکتا ہے۔ (کتبہ الاحقر عبد الطیف عفا اللہ عنہ مدرس اول مدرسلہ موصوفہ)

اس قانون کی مخالفت واجب ہے۔ رقمہ ضیاء احمد۔ الجواب صحیح خلیل احمد عفی عنہ

صحیح الجواب۔ عنایت الٰہی مہتمم مدرسہ۔ (ناظم مدرسہ موصوفہ) الجواب صحیح ۔ بندہ عبد الرحمٰن (کامل پوری) عفی عنہ (مدرس مدرسہ)

اس باطل وحرام رواج عام کے مرتکب اور مجوز اور معاون اور باقی رکھنے والے اور اس پر (عملاً) اصرار کرنے والے ظالم وعاصی ہیں۔ (اور اس فرض قطعی کے انکار کا کفر ہونا اظہر ہے۔ اور مواخذہ حق العباد کا ان کی گردن پر رہےگا۔ تو وقت یہ کہ وہ صاحب حقوق کے حقوق ادا نہ کریں گے۔ (الجواب صحیح ہندہ عزیز الرحمٰن عفی عنہ مدرسہ دیوبند ۔ (کتبہ مسعود احمد) الجواب صواب محمد انور عفا اللہ عنہ۔ الجواب صحیح بندہ مرتضیٰ حسن عفی عنہ)

یہ رواج شریعت غرا کے صریح منصوص احکام کے مخالف ہے۔ اوراولاد دختری (وغیرہ) کے ساتھ کھلا ہوا ظلم ہے ۔ جو لوگ اس رواج کو جائز اور تقسیم میراث کے شرعی اصول سے بہتر سمجھیں وہ مسلمان نہیں رہ سکتے۔ اور جو لوگ ناجائز اور خلاف شریعت یقین کرتے ہوں۔ مگر اس پر عمل کرتے ہوں۔ وہ بھی ظالم اور فاسق ہیں۔ (محمد کفایت اللہ غفر اللہ لہ مدرس مدرسہ امینیہ دہلی۔ احمد سعید (ناظم جمیعۃ العلما) حمد اللہ پانی پتی۔ عبد الرحمٰن روپڑ ضلعانبالہ حشمت اللہ مفتی پٹیالہ۔ عبدا لخالق جہاں خیلاں۔ جماعت علی (علی پوری) بقلم خود۔ غلام مرشد مدرسہ نعانیہ لاہور۔ عبد العزیز گوجرانوالہ۔ ثناء اللہ امرتسری ۔ غلام مصطفےٰ (مفتی امرتسری) اللہ ورسولﷺ نے جو جو حقوق مال میں مقرر فرمادیئے ہیں۔ اس میں فرق کرنا سخت گناہ ہے۔ اس کے واسطے اللہ پاک نے خود جس قدر اہتمام فرمایا ہے۔ اور جس قدر اس کے خلاف پروعید اور دھمکی فرمائی ہے۔ وہ پتہ کو پانی کرنے کےلئے کافی ہے۔ ذرا رسالہ غصب المیراث کو سب صاحب غور سے دیکھ لیں۔ اس سے بہت کچھ آپ پر کھل جاوے گا۔ (فقط بندہ ناچیز محمد الیاس عفی عنہ)

صورت مسئولہ میں واضح دلائل ہوکر لڑکیوں کو حصہ شرعی میراث نہ دینا صریح ظلم ورسم کفار پر عامل بننا ہے۔ پس مسلمانوں کو اسلام میں پورے طور پر داخل ہونا چاہیے۔ لقولہ تعالیٰ۔

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ

یہ نہیں کہ بعض باتیں   اسلام کی قبول کریں۔ اور بعض رسمیں کفار پر عامل نہیں ۔ چونکہ لڑکیوں کو حصہ نہ دینا صریح قرآن مجید کا خلاف کرنا ہے۔ کما لا یخفی

 (کتبہ ابو محمد عبد الجبار مدرس مدرسہ حمیدیہ عربیہ دہلی صدر بازار )

الجواب صحیح والرای نجیح۔ (عاجز ابو محمد عبد الوہاب المہاجری امام جماعت غرباء اہلحدیث )

جو رسوم کہ خلاف شرع محمدیہ ہیں۔ ان کی بیخ کنی اہل اسلام پر فرض ہے اللہ پاک مسلمانوں کونیک توفیق دے کہ وہ اسکی طرف توجہ کریں۔ (العبد ابو یحیٰ عبد اللطیف مدرس مدرسہ حمیدیہ موری دروازہ دہلی)

یہ جابرانہ رسم یعنی لڑکی کو حصہ نہ دینا۔ انہیں چند رواجوں میں سے ہے۔ جوفی الحقیقت زمانہ جاہلیت سے منتقل ہوکر ہماری قوم میں آئے۔ اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو۔ اورظلم سے باز آئو۔ یہ حق العباد ہے جو توبہ سے بھی معاف نہ ہوگا۔ قیامت کے دن سے ڈرو جس کی شان یہ ہے۔ كلكم اتيه يوم القيامة فردا ۔ یعنی ہر ایک بندہ اللہ کے پا س اکیلا آوے گا۔ (ابو محمد عبد الجبار مہتمم مدرسہ اشاعت القرآن والسنۃ سو کھپوری) بے شک یہ غلط رسم ہے۔ ہرمسلمان کو شرعی تقسیم کرکے حصہ دینالازم ہے۔ جو اس کے کلاف کریں گے۔ وہ غاصب ظالم ہوں گے۔ اللہھم احفظنا۔ آمین (الراقم محمددائود رہپوا۔ ابو اسحاق عبد الرزاق رہپوہ عبد الصمد  رہپوا)

بے شک یہ رواج یعنی لڑکی حصہ نہ دینا رسم جاہلیت ہے۔ اس سے بچنا چاہیے اور مسلمہ شرعی پر عمل کرنا فرض ہے۔ اس پر کار بند ہونا چاہیے۔ تصریح اس مسئلہ کی اوپر علمائے کرام فرماچکے ہیں۔ زیادہ ضرورت نہیں۔ (العبد عبد الغفار غفرلہ الستار اوتہوی) (بندہ عبد الرحمٰن عفی عنہ)  (ملخص از اصلاح میوات از ص 19 تا ص 29 )

 

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 523

محدث فتویٰ

تبصرے