السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والدین کے یہ عقاید ہیں: رسول ا للہ ﷺ حاظرو ناظر ہیں۔ غیب جانتے ہیں۔ نور من نو ر اللہ ہیں۔ ہماری مدد کرتے ہیں۔ مختار کل ہیں۔ قبر میں زندہ ہیں۔ ان کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں۔اگر میرے والدین فوت ہو جا ئیں تو کیا میں ان کی جنازہ پڑھوں؟ ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنائت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں صرف کافر کی نماز جنازہ نہیں ہے جبکہ بدعتی، فاسق اور گناہ گار کی نماز جنازہ جائز ہے اور پڑھنی چاہیے۔ اس مسئلہ کا جواب اس پر منحصر ہے کہ آپ اپنے والد محترم کو کیا سمجھتے ہیں۔ ؟ اگر انہیں کافر سمجھتے ہیں تو ان کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور اگر انہیں مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں تو ان کی نماز جنازہ لازماً پڑھیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ اگر انہیں کافر سمجھتے ہیں تو ان کی وراثت لینا بھی آپ کے لیے جائز نہیں ہے کیونکہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ اپنے دل سے اس بارے فتویٰ لیں کہ وہ کیا تھے؟ پھر اس پر عمل کر لیں۔ ہمارے نزدیک تاویل، جہالت یا دیگر اسباب کی بنیاد پر کفر یا شرک کے مرتکب کے افعال کو تو کفریہ اور شرکیہ افعال کہا جائے گا لیکن انہیں کافر قرار نہیں دیا جائے گا الا یہ کہ تمام موانع مفقود ہو جائیں۔
جبکہ http://islamqa.com/ur/ref/2900 میں اس سے ملتا جلتا ایک سوال موجود ہے کہ جو شخص قبروں سے مدد مانگتے ہوئے فوت ہو اس كى جنازہ ميں شركت كا حكم كيا ہے ؟
جواب:
ہم نے يہ سوال فضيلۃ الشيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ تعالى كے سامنے پيش كيا تو ان كا جواب تھا:
جب وہ مردوں سے استغاثہ اور مدد مانگنے پر مصر ہو اور اسى حالت ميں اس كى موت واقع ہو جائے تو اس كے جنازہ ميں شركت كرنا جائز نہيں ہے۔ اور جب اس كے ساتھ كسى نے بھى مناقشہ نہيں كيا اور بحث نہيں كى تو ہم ديكھيں گے كہ آيا اس كے علاقے ميں توحيد پرست لوگ اور توحيد كى دعوت دينے والے ہيں، اور توحيد كى پہچان كے طريقے موجود ہيں تو ايسے شخص كے متعلق غالب گمان يہى ہے كہ اس كے خلاف حجت قائم ہو چكى ہے اور تو اسكے جنازہ ميں بھى شركت نہيں كى جائےگى، اور اگر ايسا نہيں تو پھر اس كے جنازہ ميں شركت كى جائےگى .
وبالله التوفيق