سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(511) بلیک مارکیٹ جائز نہیں

  • 7138
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1132

سوال

(511) بلیک مارکیٹ جائز نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید امام مسجد ہے اور  پابند شریعت ہے وہ اپنا گوٹہ،  (کھانڈ، تیل یا کپڑا وغیرہ)  اپنے کارڈ پر حاصل کر کے ذیادہ قیمت پر فروخت کر دیتا ہے جب لوگوں نے اس سے کہا کہ ایسا کرنا قانون مروجہ کی روسے جرم ہے تو اس نے کہا کہ جرم ہے تو ہو لیکن شریعت نے تجارت کو جائز قرار دیا ہے اور یہ بھی تجارت ہے اب سوال یہ ہے کہ زید کا یہ جواب کہاں تک درست ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قانون مروجہ کے خلاف بلیک کرنا حرام ہے حدیث شریف میں مذکور ہے

 الا ثم ما حاك في نفسك و كر هت ان يطلع عليه الناس.

’’یعنی گنا ہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو براسمجھے کہ لوگوں کو خبر ہو‘‘ یہ حدیث بلیک پر صادق آتی ہے مگر بلوہ عام ہے  (۱۵رمضان ۱۳۲۵ء؁)

تشریح

 (از حضرت العلام مولنا ابو سعید شرف الدین صاحب محدث دہلوی)

سوال :۔  جب اپنے مال کا ہر شخص کو اختیار ہے کہ جس قیمت سے چاہے بیچے تو پھر بلیک بیچنا کیوں نا جائز ہؤا جب کہ تراضی طرفین بھی ہو اور کنٹرول کا کیا اعتبارہے یہ تو حکومت غیر مسلمہ کا ہے اور تسعیر تو جائز نہیں اور وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا۟ میں بلیک کیوں نہ داخل ہو ، بینو اتوجروا۔

الجواب:۔ اقول بحول الله وتو فيقه وهو الهادي الي الصواب.

بیع بلیک یعنی چور بازاری جائز نہیں قطعاًحرام ہے وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتی اس لئے کہ بیع شرعی میں کسی شخص کا اور کے مال میں کسی قسم کا تصرف مطلقا جائز نہیں تا وقتے کہ اس بیع یا دیگر تصرفات میں شرعی اجازت نہ ہو اس لئے کہ ازروئے شرع ہر قسم کے تصرف خصوصاً بیع میں اس کے ارکان و شروط ترک و موائع کا ہونا بھی لازم ہے اور تراضی طرفین تو اشیاء ستہ منصوصہ فی الربا کی بیع بصورت عدم مساوات بھی عہد نبوی میں ہوتی تھی مگر پھر بھی حدیث نبوی میں اس کی حرمت کتب صحاح ستہ میں موجود ہے ایسے اور بھی کئی ایک قسم کی بیوع میں با وجود تراضی طرفین کے حرمت ثابت ہے جو علماء ربانیین پر مخفی نہیں اور تراضی طرفین تو قمار یعنی جوئے میں بھی ہوتی ہے اس لئے عہد نبوی میں قدرۃ جو قحط سالی ہوئی تھی وہ عرف عام ہو گیا تھا اور ظاہر علانیہ تھا چور بازاری نہ تھی اس پر صحابہ رضوان اللہ علیہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اندزانی کی درخواست کی یعنی تسعیر و کنٹرول کی تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قدرتی عرف عام کو نہ توڑا نرخ مقرر نہ کیا آپ کا نہ توڑنا بالکل صحیح تھا اور زمانہ حال میں جو حکومت غیر مسلمہ نے کنٹرول کیا ہے وہ عرف عام کے درہم برہم ہونے کے بعد کیا ہے اور اب مجبور ایہی عرف عام ہو گیا ہے اس لئے کہ عر ف عام قدیم ارزانی کا تو رہا نہیں پھر اگر اس پر بھی عمل نہ کیا جائے گا تو بلیک والوں کا ظلم حد سے زائد گرانی عوام الناس کی حق تلفی و محرومی اور تکلیف شدید ہو گی جس سے نظام صالح کے درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہے لہذا یہی حکومت کا مقرر کر دہ نرخ مجبورًا عرف عام  قرار  پائے گا اور نسبتاً بلیک سے اس میں رفاہ عام بھی ہے اور نسبتاً عرف عام کے قدر ے قریب بھی ہے لہذ ا اسی کا اعتبا ر ہو گا اورعرف عام وہ ہوتا ہے جو ہر شخص مسلم ، غیر مسلم صالح غیر صالح سب میں بلا کسی اعتراض کے مروج ہو تا ہے اور ظاہر و علانیہ ہوتا ہے چوروں اور ڈاکؤوں کے معاملہ کی طرح چھپ کر نہیں ہوتا جیسے کہ بلیک والے کرتے ہیں لہذا بلیک عرف عام نہیں ہو سکتی  پس نا جائز و حرام ہو گی اب بلیک یا چور بازاری کے موافع یا اس کے ابطال کے دلائل ملا خطہ ہوں ۔

دلیل اوّل :۔ یہ کہ اس میں چوری ہوتی ہے اور اس کا نام ہی چور بازاری ہے جو گناہ ہیں اور اگر چہ وہ بعض اہل کاروں کو رشوت سے کر دن و ہاڑے بلیک کر تے ہیں وہ اہل کار بھی حکومت کے چور ہیں اور رعایا و عوام الناس کے بھی چور کہ ان کا  حق کاٹ کر گرانی شدید سے دوسروں کے دیتے ہیں اور غرباء بے چار ے محروم رہ جاتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ مال ہی نہیں آیا اور ردی مال کتے کا کفن ان کو دکھاتے اور دیتے ہیں حالانکہ اچھال مال دکان میں کافی ہو تا ہے اور چوری کر نا حرام و ممنوع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے ،

لا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن.

 (صحیح بخاری و مسلم و مشکوۃ نمبر ۹)

 یعنی چور چوری کرتے وقت ایماندار نہیں رہتا،

دلیل دوم:۔ یہ کہ اس میں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ حکومت سے کنٹرول نرخ پر بیچنے کے لئے مال لاتے ہیں اور پھر اس کے مطابق نہیں بیچتے تو ایک جھوٹ تو حکومت کے سامنے بولا دوسرا یہ کہ جب غربا ء و عوام الناس کنٹرول نرخ پر مال لینے آتے ہیں تو ان کو کہہ دیتے ہیں کہ مال نہیں آیا یا بک گیا حالانکہ مال دوکان میں کافی ہو تاہے جس کووہ  بلیک کرتے ہیں تیسرا جھوٹ یہ کہ کوئی تفتیش کے لئے آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم بلیک نہیں کرتے کنٹرول ریٹ پر ہی بیچتے ہیں اور جھوٹ بولنا گنا ہ کبیرہ اور حرام ہے اور بحکم

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَقُولُوا۟ قَوْلًا سَدِيدًا۔﴿٧٠سورة الأحزاب...

’’اللہ سے ڈرو اور بات پکی سچی کہو‘‘ سچ بولنا فرض اور جھوٹ بولنا حرام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اصد قو اذا احد ثتم رواه احمد والبيهقي.(مشکوۃ ص ۴۰۸)

جب بولو سچ بولو صیغہ امر و جوب کےلئے ہے لہذا سچ بولنا فرض اور ترک فرض حرام قطعی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جھوٹ بدکاری اور بد معاشی کا راستہ دکھاتا ہے اور بد کاری و بد معاشی دوزخ کی راہ دکھاتی ہے  (صحیح بخاری و مسلم مشکوۃ نمبر ۴۰۴) پس بلیک والے دوزخ کی طرف چلتے ہیں ،

دلیل سوم :۔  بیع بلیک میں عہد شکنی بھی ہوتی ہے کہ حکومت سے کنٹرول نرخ کا عہد کر کے مال لاتے ہیں اور پھر عہد تو ڑ کر کنٹرول نرخ پر نہیں بیچتے اور بلیک بیچتے ہیں  یعنی ایسی شدید گرا نی سے بیچتے ہیں جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے مال کیا بیچتے ہیں لو گوں کو لوٹتے ہیں  اور بحکمقول باری تعالی وَأَوْفُوا۟ بِٱلْعَهْدِ ۖ إِنَّ ٱلْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔولًا. ﴿٣٤سورة الإسراء... عہد کو پورا کرنا فرض ہے اور ترک فرض اور عہد شکنی ممنوع اور حرام قطعی ہے ، بلکہ بحکم حدیث نبوی گناہ کبیر ہ و نفاق و بے ایمانی ہے،

 (صحیح مسلم، مشکوۃ)

دلیل چہارم :۔  اس میں خیانت و عوام الناس کی حق تلفی ہے کہ حکومت نے عوام و غربا وغیرہ کے لئے کنٹرول نرخ پر بیچنے کے لئے ان کو مال دیا تھا اور بلیک والے ان کا حق کنٹرول نرخ پر ان کو نہیں دیتے دوسروں کو بلیک بیچتے ہیں یہ کام بھی حرام و نا جائز اور نفاق ، دبے جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے،  (صحیح بخاری ومسلم )  ۔

دلیل پنجم :۔  اس میں رشوت کا لین دین بھی ہوتا ہے بلیک والے حکومت کے اہل کاروں کو رشوت دے کر مال زاید لاتے ہیں یا بہ سبب رشوت دینے کے بے دھڑک بیچتے ہیں یا پکڑ ے جانے پر رشوت دے کر چھوڑتے ہیں اور رشوت سے بعض فرضی پر مٹ بنا کر بلیک کرتے ہیں اور رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا بحکم حدیث شریف نبوی دونوں ملعون ہیں ،

لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ (رواه ابوداؤد والترمذي وابن ماجة وغيرهم. (مشکوۃ نمبر۳۱۸)

یعنی ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

دلیل ششم :۔  اس میں احتکار ہے جس کا معنی مطلقاً اشیا ئے خوردنی دنوشیدنی دپوشیدنی وغیرہ ضروریات زندگی و مدارزندگی جس کے عدم یا فلت شدید و گرانی شدید سے انسان کی زندگی تلخ و برباد ہو جائے اور ان کو بوقت ضرورت گراں بیچتا ہے اور مویشی وغیرہ جانوروں کی زندگی کی ضروریات چارہ وغیرہ بھی اس میں شامل ہے بلکہ ایسے زمانے میں کاغذبھی اس میں داخل ہے جو قرآن مجید و حدیث شریف اوردیگر کتب دینیات،  تفاسیر و شرح داحادیث وغیرہ کے کام آتاہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ دین پر روحانی زندگی کا ددار ومدار ہے اور دین کا قرآن و حدیث و دیگر کتب دینیہ پر اور وہ کاغذ پر چھپتے ہیں قاموس میں ہے ،

الحكر االقلم واسارة المعاشرة احتكري احتبس انتظار الغلاية انتهي.

حاصل یہ کہ حکرہ یا احتکار کا معنی ظلم رکسی کی حق تلفی یا حق کی کمی و معاشرت و برتاؤ میں بد معاملگی ہے ، اور آگے جو حدیث میں بد معاملگی ہے اور آگے جو حدیث میں اس کا ذکر ہے اس میں مطلب یہ ہے کہ اشیا ء مذکور کو روک کر شدید گرانی سے بیچنا جس سے انسانی زندگی تلخ و برباد ہو جائے،  اور احتکا ر مذکور فی الحدیث طعام کے ساتھ مخصوص نہیں جیسا کہ بعض علما کا خیا ل ہے اس لئے کہ حدیث نبوی عام ہے،  

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ احْتَكَرَ فَهُوَ خَاطِئٌ (رواه مسلم و في رواية سنن ابن ماجة المحتكر مجون انتهي.،  (مشکوۃ ص۳۴۲و۲۴۳)  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہےکہ احتکار کرنے والا یعنی اشیائے ضرور یہ انسانی زندگی کو روک کر گرانی سے بیچنے والا گنہ گار و ملعون ہے ، دوسری  حدیث اس سے بھی عام ہے،

 قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ مَنْ دَخَلَ فِي شَيْءٍ مِنْ أَسْعَارِ الْمُسْلِمِينَ لِيُغْلِيَهُ عَلَيْهِمْ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يَقْذِفَهُ فِي مُعْظَمٍ مِنَ النَّارِ انتهي اخرجه (ابوداؤد المطيالسي والا مام احمد في مسند يهما والطبراني في الكبيرولحاكم في امستدرك والبيهقي في سنن الاقوال والا فعال. (جلد ۶نمبر ۲۱۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ! جو شخص مسلمانوں کی اشیاء کی خرید فروخت کے (قال اصهحابنا احتكار المحرم هوالا حتكار في الا قوات خاصة واما غير الا قوات فلا يحرم احتكار فيه بكل حال،  (نوری نمبر۳۱) .

ترخوں میں دخل دے گا تاکہ ان پر گرانی کرے مقرر اللہ تعالی اس کو الٹا کرکے دوزخ میں ڈالے گا اسعار المسلمین میں اضافۃ الجمع الی الجمع المحلی بالام ہے جو مفید اسغراق ہے نیز "شئے"بھی تکرہ ہے جس سے عموم کی تاکید ہو تی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی مسلمان کی اشیاء ضرور یہ زندگی کی خرید و فروخت کے نرخوں میں دخل دے کر گرانی کرنے والا خواہ وہ اشیاء از قسم طعام ہوں یا غیر طعام الٹا کرکے دوزخ میں ڈالا جائے گا یعنی بلیک بیچنے والا، ایسے ہی ایک اور حدیث بھی عام ہے

قال رسول الله صلي الله عليه واله سلم من احتكرحكرة يريد ان يغالي بها علي المسلمين فهو خاطئي انتهي رواه الحاكم في المستدرك ذكره الحافظ و سكت عنه. (تحفة الا حوذی ج۳ص۲۴۵)  

 جوشخص اشیاء ضرور یہ کو مسلمانوں پر گرانی کرنے کے ارادے سے روکتا ہے وہ گنہ گار ہے ، یہ تمام حدیثیں ہر قسم کی اشیا ء کے احتکار مین عام ہیں اور قیاس سے بھی احتکار کا معنی عام ثابت ہو چکا ہے تو اب بعض علماء کا احتکار کو طعام کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں ہے اس لئے کہ ان کا استدلال بعض روایات میں طعام کے ذکر سے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ احتکار کے ایک فرد کی تنصیص ہے  تحفیص نہیں جس کی تحقیق نیل الا و طار جلدہ ص۸۷میں ہے کہ اس قسم کی تنصیص و تصریح سے تحفیص و تنقید کا خیال مفہوم لقب ہے جو جمہور محدثین کے نزدیک معتبر نہیں جیسا کہ اصول حدیث میں مصرح ہے انتہی نیز اگر طعام کے ساتھ احتکار کو خاص کیا جائے تو پھر اوپر کی اسعار المسلمین والی حدیث کے ساتھ تعارض واقع ہو گا لہذا تطبیق یا تو جیہ یہی ہے کہ وہ احتکار کے ایک فرد کی تنصیص ہے تخصیص نہیں، كما في نيل الاوطار.

پس ثابت ہؤاکہ طعام کے ساتھ احتکار کو مخصوص کرنا حدیث نبوی و جمہور محدثین و اصول حدیث کے خلاف ہے اور وہ بلیک بالکل احتکار ہی ہے جو آج کل چاول ، چینی ،  گیہوں اوراس کے آٹے ، سوت کپڑے اور کاغذ وغیرہ میں ہو رہاہے بالکل حرام ہے شریعت کا اصل منشار احتکار سے منع کرنے کا یہ ہے کہ عوام الناس کو زندگی کی ضروریات کے عدم یا قلت سے تکلیف نہ ہو کہ جس سے ان کی زندگی برباد یا تلخ ہو جاوے اور نظام صالح کے درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہے چنانچہ اس امر کا ذکر دلیل ہفتم میں آئے گا اور جیسے کہ طعام کی بندش یا قلت و گرانی میں لوگوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے ایسے ہی سوت کپڑے کا غذ ادویہ وغیرہ ضروریات زندگی کے عدم یا قلت میں ہوتی ہے لہذا ان کل اشیا ء میں بلیک حرام ہے ۔

دلیل ہفتم:۔  ہر قسم کی اشیاء ضروریات زندگی کی بلیک میں مسلمانوں کو مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہوتا ہے جو بحکم حدیث نبوی نا جائز و حرام ہے،

قال رسول الله صلي الله عليه واله سلم من يشا فق يشقق الله عليه يوم القيمة انتهي. (صحیح بخاري ج۶ص۱۰۵۹)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں پر مشقت ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کو مشقت میں دالے گا یہ و عید شدید بلیک کی حرمت میں بین دلیل ہے ۔

دلیل ہشتم :۔  بلیک میں فریب ، دغا بازی ، جعل سازی اور دھوکہ بازی بھی ہوتی ہے کہ فرضی پر مٹ بنا کر دھوکہ دےکر مال و صول کرکے بلیک کرتے ہیں جو بحکم حدیث نبوی حرام و ناجائز ہے

قال رسول الله عليه وسلم من غش فليس منا اخرجه (الترمذي في جامعه و قال حسن صحيح.،  (ترمذي ص۱۴۹)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو شخص لو گوں کو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہےیعنی مجھ سے اور میری امت سے  الگ ہے پس یہ بھی بلیک کی حرمت کی دلیل ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرمایا

 ملعون من ضارمؤمنا اومكربه (رواه الترمذي. مشکوۃ ض ۳۴۰)  یعنی جو شخص کسی مومن کو ضرور پہنچاتا ہے یا اس کے ساتھ مکر و فریب کرتا ہے اور دھوکہ دیتا ہے وہ ملعون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

 المؤمن غر كريم والغاجرخب لئيم رواه ابوداؤد الترمذي والحاكم. (جامع صغیر نمبر ۸۳)

 مومن بھولا اور شریف المطبع ہو تا ہے سخی یا مروت ہو تا ہے اوربد معاش دھوکہ باز بخیل ، یہ حدیثیں بھی بلیک کی حرمت کی دلیل ہیں کہ بلیک کرنے والا دھوکہ بازی کرتا ہے،

دلیل نہم :۔  بلیک میں حدیث نبوی

الدين النصيحه لله وارسوله ولا المسلمين دعا متهم  انتهم. (صحیح بخاري نمبر ۱۳جلد ۱)

کی بھی مخالفت ہے کہ حدیث  میں مسلمانوں  کی خیر خواہی و بھلائی کی تعلیم ہے اور بلیک میں مسلمانوں کی بد خواہی و تکلیف اور حق تلفی ہے لہذا حرام ہے ۔

دلیل دہم :۔  بلیک میں حدیث نبوی

لا يؤمن احد كم حتي يحب لا خيه ما يحب لنفسه. (صحیح بخاري ص ۶ج۱)

کی بھی مخالفت ہے کہ حدیث سے ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہیں ہو سکتا نا وقتے کہ وہ مسلم بھائی کے لئے وہ امر پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور بلیک والا اپنے لئے بھلائی و سرمایہ داری چاہتا ہے اور دوسرے مسلم بھائی کے لئے بد خواہی اور اس کا مال لوٹنا ، لہذانا جائز و حرام ہے ۔

دلیل یا زدہم :۔  حدیث نبوی میں ہے ،

الاثم ماحاك في صدرك وكرهت ان يطلع عليه الناس (رواه مسلم مشکوۃص ۴۲۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا گناہ وہ ہے جس کا تیرے سینے میں کھٹکا و شبہ گذرے اور لوگوں کا اس پر مطلع ہو نا تجھ کو نا گوار گذرے اور اسلام کے مدعی کو اس کے عدم جواز کا شبہ ضرور ہوتا ہے اور اگر بالفرض یہ بھی نہ ہو تو لوگوں کا اس پر مطلع ہونا جن سے کہ وہ بلیک والا چھپاتاہے خصوصاً تفتیش کرنے والوں سے تو ضرور ہی اس کو نا گوار ہو تا ہے اس سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا لہذا یہ گنا ہ اور نا جائز و حرام ہے ،

دلیل دوازدہم :۔  یہ کہ شریعت اسلامیہ میں بیع و شراء میں کتاب و سنت کے عموم یا خصوص کا اعتبار ہے یا عرف عام کا قال الله تعالي وَأْمُرْ‌ بِٱلْمَعْرُ‌وفِ. (پ ۹ع ۱۴)  اور صحیح بخاری میں ہے

باب من اجري اموالا مصار علي ما يتعار فون بينهم في البيوع والا جارة والكيل والوزن وسنتهم  علي نيا تهم و مذاهبهم المشهورة .وقال النبي صلي الله عليه واله سلم لهذخذي ما يكفيك وولدك بالمعروف وقال الله تعالي من كان فقيرا فليا كل بالمعروف انتهي ملخصا. (ج ا ص ۳۹۴)

خلاصہ یہ کہ بیع و شرا وغیرہ معاملات کا مدارواعتبار کتاب و سنت یا عرف عام پر ہے اور یہ سبب اوا مذکور ہ بالا بلیک نہ کتاب و سنت کے مطابق ہے نہ عرف عام کے  بلکہ ان کے مخالف ہے اس لئے کہ عرف عام قدیم ارزانی کا تو قطعاً نہیں اور نہ ہی عرف عام حال کا ہے جو یہ سبب کنٹرول حکومت کے مجبورا عرف عام ہو گیا ہے اس لئے صرف صرف عام اعلانیہ و ظاہر ہو تا ہے اور بلیک چھپ کر چوری سے ہوتی ہے لہذا یہ عرف عام نہیں ہو سکتی ہے پس حکومت کا نرخ مجبورًا عرف عام ہو گا اس لئے اگر یہ بھی نہ ہوگا تو پھر اور کیا عرف عام ہو گا اور پھر بلیک حرام ہوگی ،

دلیل سیزدہم لَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ. (پ۲)

 لوگو ایک دوسرے کے مال کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ ، باطل کا طریقہ بڑا وسیع ہے اور اوپر ثابت ہو چکا ہے کہ بلیک امر باطل ہے لہذا ناجائز و حرام ہے،

دلیل چھاردہم :۔  اولہ مذکورہ بالا یعنی برا ہیں شرعیہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ بلیک نا جائز و حرام ہے تو بحکم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

دع ماير يبك الي مالايريبك اخرجه (الترمذي)

وغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس امر میں تم کو شک اور قلق ہو اس کو چھوڑ کر یقینی امر پر عمل کرو اب کوئی بالکل ہی سیاہ قلب ہوگا کہ جس کا دل مسخ ہو گیا ہو گا ہی بلیک میں شبہ نہ کرے گا کہ شیطان کا اس پر پورا قبضہ ہے ورنہ مسلم کو ضرور کم از کم وہ دل میں کھٹکتی ہے لہذا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا فرض دواجب ہے هذا والله اعلم (۲۵جولائی ۱۹۴۷ء؁)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 458

محدث فتویٰ

تبصرے