السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نوٹ کرنسی میں جس کو جیلی بولتے ہیں بنزلہ روپے کے جاری ہیں اور اکثر ان کے نرخ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اگر کوئی مسلمان اس کو بحصول منفعت ارزائی میں خریدے، اور بر وقت گرانی وغیرہ کے اس کو بحصول منافع فروخت کرے تو ازروئے شرع شریف اس میں کمی بیشی جائز ہے یا نہیں ؟ بینواتوجروا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درصورت مرقومہ اولا معلوم کرناچاہیے کہ سرکاری نوٹ دو قسم کے ہوتے ہیں سو ایک قسم کے نوٹ کا سود سرکاری بینک سے ملتا ہے دوسری قسم کا نوٹ بحکم سرکار انگر یزی واسطے معاملات روز مرہ رعایا کے کہ وہ اسے خرید فروخت کریں ، رواج دیا گیا پس ہر دو قسم نوٹ حکم روپیہ کا انگریزی عملداری میں رکھتے ہیں چنانچہ اہل تجارت نوٹ کو بمنز لہ روپے کے سمجھتے ہیں اور اس سے مال خریدتے ہیں اور نیز باہم اس کی بیع و شرا کرتے ہیں ۔ ثا نیا بیع و شرا ہر دو قسم نوٹ سے مقصود متعا قدین کا صرف کا غذ کی بیع و شرا نہیں ہے بلکہ بیع و شرا ء اس زر کی مقصود ہے جو اس میں مرقوم ہے اور ثمینت اس میں بحکم ترویج حاکم وقت قرار پائی ہے سو خرید و فروخت کمی اور بیشی کے ساتھ بمقابلہ روپیہ کے یا بیع و شرانقدین کے بلنیسسہ اور تملیک الدین من غیر علیہ دین حرام اور ناروا ہو گا شرعاًاور اس کو ارقم سفتجہ یعنی ہنڈوی درشنی قرار دیجیئے اور یہ بات اس پر صادق ہے کہ مثل ہنڈوی درشنی جس مہاجن اور تاجر اور سرکاری بنک والوں کو دیا جاوے تو وہ بلا تامل زر مرقوم اس کایا اسباب بالعوض اس کے حوالے کر دے گا پس سفتجہ کہ اولاقرض اور ثانیا حوالہ بدوں کمی بیشی کے مکروہ اور کمی بیشی کے ساتھ حرام ہے ،
لان كل دين و قرض جر نفعا فهو ربوا كذايستفاد من الهداية وغيرها. معہذا اگر نوٹ مثل ہنڈوی کے قرار دیا جاوے تو یہ بھی ممکن نہیں اس لئے کہ ہنڈوی کے تلف سے روپیہ تلف نہیں ہوتا اور اس کے عوض میں مہاجن شئے دیتا ہے جیسے من آرڈر یعنی سرکاری ہنڈوی کے تلف ہونے سے سرکاری خزانے سے ثنے ملتا ہے عرض روپیہ اس کا کسی ہنج سے تلف نہیں ہوتا بخلاف نوٹ کے کہ اس کے تلف ہو جاوے گا اور جو کوئی نوٹ کو اسٹامپ و ٹکٹ پر قیاس کر کے اس کی بیع و شرامیں جو از کمی بیشی کا سمجھے تو یہ قیاس کرنا اس کا قیاس مع الفاروق ہے اس واسطے کہ واضع اسٹامپ و ٹکٹ نے اس کو واسطے ثمنیت کے وضع نہیں کیا بلکہ خاص اپنی عدالتوں میں اس کو رواج قرار دیا ہے کہ بذریعہ اس کے دعوےٰ مدعی یامدعی علیہ کا عندالسرکار مسموع ہوگا والاً لا چنانچہ شرعا ً یہ بات ثابت ہے کہ تمام تجاروں میں خرید فروخت مال کی اسٹامپ وٹکٹ سے نہیں ہوتی اور نہ کوئی ان کو خرید کر اپنے پاس سرکاری بنک میں رکھتا ہے اور نہ کوئی فائدہ ان سے سوائے عدالت انگریزی کے حاصل کرتا ہے پس اس سے معلوم ہو کہ اسٹامپ و ٹکٹ بحکم سرکار روپیہ قرار نہیں دیا گیا اور نوٹ قرار دیا گیا ہے چنانچہ تفصیل اس کی اوپر بیان ہو چکی حاصل کلام حکم نو ٹ کا مثل وراہم متعین کے ہو گا اور نیز بیع و شرا اس میں مثل دراہم کے جاری ہوگی ،
كما لا يخفي علي العالم الماهربالفقه والله اعلم بالصواب حرمره السيدشريف حسين عفي عنه. (سید محمد نذیر حسین )
درحقیقت کمی بیشی اس میں جائز نہیں ہے ،
والله اعلم ، کتبه ابوالا حيا ء محمد نعيم عفی عنه.
(۱۸ذیعقدہ ۱۶۸۸ء) ھوالمصوبفی الواقع بیع و شرانوٹ کی مثل بیع و شرااثمان کے ہے کیونکہ مقصود متعاقدین کا صرف بیع کاغذ کی نہیں ہو تی ہے بلکہ بیع وارہم و نانیز کی والعبرة في العقود للمعاني لا للا لفظ پس ذیادتی وکمی ممنوع ہوگی ،
والله اعلم.حرره الراجي عفوه به القوي ابواحسنات محمد عبدالحي تجاوزالله عن ذنبه الجلي ولخفي و حفظه عن موجبات الغي. (ابوالحسنات محمد عبدالحي)
فی الحقیقت کرنسی نوٹ کی بیع و شرا مثل بیع و شرا وراہم و نانیر کے ہے اس میں کمی بیشی درست نہیں،
والله اعلم باصواب نمقه خادم الاولياء الكريم محمد ابراهيم غفره الله الكريم ابن مولانا محمد علي مرحوم.
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب