سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(490) صدی مال بعد از توبہ

  • 7117
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1020

سوال

(490) صدی مال بعد از توبہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے سود کےساتھ بہت سا روپیہ جمع کیا ہے بعد ازاں سود سے توبہ کی کہ آگے سود نہ لوں گا سابقہ روپیہ سودی جمع شدہ کھانا جائز ہےیا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سود کی بابت قرآن مجید میں ارشاد ہے: فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ﴿٢٧٥سورة البقرة....’’سود کے بارے میں خدا کی طرف سے جس کو نصیحت آپہنچے پھر وہ باز آئے تو جو گزرا وہ اس کا ہو ا‘‘

اور جو رقم ابھی مقروض کے ذمہ ہےاس کی بابت ارشاد ہے: وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِكُمْ

’’اگر تم تو بہ کرو تو تم اصل مال کے مالک ہو گے سود تم کو نہیں ملے گا‘‘

تشِریح

از مولانا عبدالسلام صاحب شیخ الحدیث ریاض العلوم دھلی

س:۔  زید دس سال سے سود ی لین دین کر رہا ہے آج خدا سے ڈرکر توبہ کرتاہے اور اپنے کل مال زکوۃ نکالتا ہے لوگوں کے ذمے باقی ماندہ سود کو چھوڑ دیتا ہے لیکن جو مال اس نے سود لے جمع کیا ہے اس میں اصل بھی ہے آیا یہ مال پاک ہے یا نا پاک؟

ج:۔  سود کا لینا دینا ہر صورت میں حرام ہے توبہ کرنے سے معاف ہو جائے گا قبل از توبہ حلال و مخلوط از سود مال توبہ کے بعد پاک ہو جائے گا توبہ کرنے سے شرک و کفر تک معاف ہو جاتے ہیں انہیں گنا ہ کبائر میں سے سود بھی ہے وہ بھی معاف ہو جائےگا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا!

التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ

 (گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں  )

مسئلہ مذکور میں  قرآن اپنے ان الفاظ میں ناطق ہے ، آیت  (رضی اللہ  تعالیٰ عنہ )

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ  (البقره)﴿٢٧٥

ترجمعہ:۔  جو لوگ سود کھاتے ہیں ، نہیں اٹھتے ہیں ، مگر جیسےوہ شخص جس کو شیطان نے اچک بہا ہو،  (یعنی مجنون ) یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے خرید فروخت اور سود کو ایک کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید فروخت کو حلال کیا ، اور سود کو حرام ، تو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت آجانے کے بعد یا رز رہے ، تو وہ حلال اسی کا ہے جو اس نے پہلے لیا اس کا امر خدا کے سپرد ہے لیکن جو باز نہ آئے ، وہی اہل نارمیں سے ہے جواس میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے قول فله ماسلف سے معلوم ہو تا ہے کہ جو مال توبہ سے پہلے اور حرمت سے پہلے لے چکا ہے اس کا رکھنا اس کے لئے جائز ہے اس کے واپس کرنے کا صراحۃ حکم نہیں ہے چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ،

فمن جاءه مو عظة من ربه فانتهي فله ما سلف وامرةالي الله الاٰية اي من بلغه نهي الله عن الربوا فانتهي حال وصول المشرع اليه فله ما سلف من المعاملة لقوله  عفاالله عما  سلف وكما قال النبي صلي الله عليه واله سلم يوم فتح مكة وكل رباني الجاهلية مو ضوع تحت قدمي ها تين راول ربا العباس ولم يا مرهم برد الزيادات الماخوذة في الجاهليه بل عما سلف كما قال الله فله ماسلف وامره الي الله الخ.

اور تفسیر مواہب الرحمن میں آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے یعنی جس شخص کے  پاس آگئی نصیحت اس کے رب عزوجل کی طرف سے پس وہ بازر رہا یعنی بیاج کھانے سے تو جو گذر چکا ہے وہ اس کے لئے ہے ۔

 (فائدہ) یعنی وہ بیاج اس سے واپس نہیں لیا جائے گا جو حکم آلہی کے پہنچنے سے پہلے وہ جمع کر چکا ہے الخ اور اگر توبہ کے وقت اصل رقم اور سود کے مال سے لوگوں کے ذمے بانی ہے تو توبہ کے بعد اپنی اصل رقم کو لے لے اور سود کو چھوڑ دے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے :۔  

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُ‌وا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْ‌بٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَ‌سُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ. (البقرة) .

’’اے ایمان والو !ڈرو اللہ سے ، اور چھوڑدو جو وہ گیا ہے سود سے اگر تم کو یقین ہے پھر اگر نہ کرو گے تو خبر دار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ اور اس کے رسول سے ، اگر توبہ کرو گے تو تم کو پہنچتے ہیں اصل مال ، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور کوئی تم پر ظلم کرے‘‘

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 443

محدث فتویٰ

تبصرے