سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) تحیۃ المسجد

  • 711
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1815

سوال

(21) تحیۃ المسجد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تحیۃ المسجد پڑھنا واجب ہے یا سنت۔بعض لوگ بوجہ تنگی وقت کے فرض نماز کھڑے ہونے تک کھڑے رہتے ہیں اور بیٹھتے نہیں اور کہتے ہیں کہ بغیر تحیۃ المسجد پڑھے مسجد میں با نتظارصلوۃ بیٹھنا درست نہیں یہ کہنا ان کا صحیح ہے یا غلط۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

تحیۃ المسجد نہ واجب ہے نہ سنت مؤکدہ بلکہ مستحب ہے۔مسلم جلداول صفحہ نمبر248 میں حدیث ہے۔

«عن ابی قتادة قال دخلت المسجد و رسول الله صلی الله عليه وسلم جالسٌ بين ظهرانی الناس قال جلست قال رسول الله صلی الله عليه وسلم مامنعک ان ترکع رکعتين قبل ان تجلس قال فقلت يارسول الله صلی الله عليه وسلم رأيتك جالساً والناس جلوسٌ قال اذا دخل احدکم المسجد فلا يجلس حتیٰ يرکع رکعتين ۔»

بخاری جلداول صفحہ 63 میں قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے۔

«ان رسول الله صلَّی الله عليه وسلم قال اذا دخل احدکم المسجد فليرکع رکعتين قبل ان يجلس»

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں مسجد میں داخل ہوا۔اور رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے میں بھی بیٹھ گیا۔آپ نے فرمایا کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے سے کس نے روکا ہے؟میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کو دیکھا اور لوگوں کو بھی بیٹھے دیکھا، تو میں بھی بیٹھ گیا۔اس پر آپ نے فرمایا کہ جب کوئی تمہارا مسجد میں داخل ہو تو پہلے دو رکعت نماز پڑھے اور پھر بیٹھے اور بخاری میں ہے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔‘‘

ان ہر دو احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تحیۃ المسجد واجب ہے مگر دوسری احادیث پر نظر کرنے سے اس کا مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ استحباب کی دلیل ملاحظہ ہو۔

دلیل اوّل

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر امام نوویؒ مسلم صفحہ 248 میں تحیۃ المسجد کے استحباب پر باب باندھا ہے۔بخاری جلد ثانی صفحہ 636 میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث میں ہے کہ میری توبہ قبول ہوئی تومیں مسجد میں داخل ہوا۔ دیکھاکہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں۔اور لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔میں نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو السلام علیکم کہا۔آپ خاموش تھے اور آپ ﷺ کا چہرہ مبارک چمک رہا تھا۔ اور آپ نے مجھ کومیری توبہ  قبول ہونے پر مبارکباد اور خوشخبری دی ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تحیۃالمسجد ضروری نہیں۔اگر ضروری ہوتے توکعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کے لئے ضرور کہتے اور سکوت نہ فرماتے۔چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر امام نوویؒ نے تحیۃ المسجد کے استحباب پر باب باندھا ہے جیسا کہ ابن بطال ؒ نے کہا ہے کہ ائمہ الفتوی نے اس باب پر اتفاق کیا ہے کہ صیغہ امر فليرکع رکعتين استحباب پر محمول ہے اس لئے کہ جلیل القدر صحابی مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے اور نماز نہ پڑھتے۔ان دلائل سے ثابت ہو گیا کہ تحیۃ المسجد مستحب ہے۔ جماعت سے پہلے اگر وقت فراخ ہے تو مرضی پر ہے پڑھے یا نہ۔اگر وقت تنگ ہے تو بدرجہ اولیٰ  بیٹھ سکتا ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔

نوٹ:خطبہ جمعہ میں کوئی شخص آئے تو وہ ضرور دو رکعت پڑھے چنانچہ مسلم میں اس کی تصریح ہے ان کی  بابت یہ ذکر نہیں آیا کہ وہ مسجد کا حق (تحیۃ المسجد  )ہیں یا کچھ اور ہیں،اس لئے جس طرح آیا ہے عمل کرنا چاہیے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الطہارت،مساجد کا بیان، ج2ص25 

محدث فتویٰ

تبصرے