سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(472) تعَاقب- تاڑی کی تحقیق

  • 7098
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1583

سوال

(472) تعَاقب- تاڑی کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال نمبر ۱ کا جواب جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ صبح صبح جب تاڑی اتارتے ہیں اس وقت نشہ نہیں ہوتا یہ تجربہ آپ کو کیسے ہؤاکہ صبح کی تاڑی میں نشہ نہیں ہوتا ، صوبہ بہار میں الصبا ح تاڑی اتارتے ہیں اور پینے والے اسی وقت پینا شروع کر دیتے ہیں اوران میں نشہ بھی ہوتاہے اس فتوی کو سنکر عام جہلاءخوشی منا رہے ہیں کہ جب صبح کی تاڑی پینا شرعاًجائز ہے تو اب صبح کی تاڑی پیا کریں گے مہربانی فرما کر تحقیق کر کے اس فتو ےٰ کو دوبارہ اہلحدیث اخبار میں شائع کریں ۔

 (الرقم  ماسٹر قطب الدین احمد ازبھد یسرخریدار نمبر ۱۱۴۲۹)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم نے صوبہ بہار میں خود ریافت کیا تو یہی بتایا گیا کہ صبح سویرے تاڑی نشہ آور نہیں ہوتی اب جو آپ نے اس کی بابت لکھا ہے تو صبح فتوی یہی ہو گا کہ تاڑی پر حال میں حرام ہے مزید تحقیق کے لئے میں مولوی حکیم مولوی عبدالخبیر صاحب کو تکلیف دیتاہوں کہ صحیح تحقیق سے اطلاع دیں ، سوال قابل غور اتنا ہے کہ تاڑی نچڑنے میں نشہ آور ہو جاتی ہے یا سورج چڑھے اس میں نشہ پیدا ہوتا ہے،   (۳۱مارچ۱۹۳۲ء؁)

تاڑی کی تحقیق

جناب مولانا صاحب امابعد! آپ نے کجھو ر کی تاڑی کی مزید تحقیق کی کے متعلق جناب مولوی حکیم عبدالخبیر صاحب کو تکلیف دی ہے مجھ کو جہاں تک تحقیق ہےلکھتا ہوں بنگال میں خصوصاً ضلع راجشاہی اور ضلع جسر و ضلع ندیر میں کثرت سے تاڑی ہوتی ہے جلع جسر میں لوگوں کی زبانی سنا ہے کہ جس کے مکان یا زمین میں ایک سو درخت کجھور کے نہ ہوں اس کے مکان میں کوئی شادی نہیں کرتا گو یا کجھور کے درخت ان کی جاندارماسٹر صاحب کا غلط ہے میں نے بخوبی تجربہ کیا ہے کہ صبح سویرے تاڑی نشہ آور نہیں ہوتی دن کے دس بجے تک بہت عمدہ رہتی ہے اگر اس کو دھوپ میں دو گھنٹہ رکھا جائے تو البتہ نشہ آور ہو جاتی ہے میں تو خاص کرکے اس شیرہ کو جسے آپ لوگ تاڑی کہتے ہیں پینے کے کئے جاڑے کے موسم میں ضلع راجشاہی مرشد آباد جاتاہوں اور دوبارہ برابر دہاں رہتا ہوں کسی قسم کی نشہ آور نہیں ہوتی۔

 (“مولوی محمد عبدالر حیم ”موضع المبوہا ڈاک خانہ راج گاؤں بیر بھوم )

 (۱۰اپریل ۳۲ء؁)

تاڑی کی تشریح

اہلحدیث کے کسی پرچے میں تاڑی کو دوقسم لکھا گیا ہے ایک بے نشہ حلال ، دوسری بانشہ حرام، اس کی مزید تحقیق تاڑی والے علاقے سے دریافت کی تھی جس کے جواب میں مولانا عبدالجلیل صاحب سا مرودی کا خط آیا ہے جو درج ذیل ہے ۔

پرچہ اہلحدیث میں تاڑ کےماحصل پینے پر استفسار تھا ہمارے علاقے گجرات میں درخت تاڑا اور درخت خرما ان دونوں سے ایک قسم کا عرق برآمد ہوتا ہے جو شریعت سے بھی ذیادہ شیریں ہوتا ہے اس کو حفاظت سے دن بھر رکھیئے بلکل نشہ نہیں آتا اس کے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ تاڑیا لھجور  کے درخت کو چھید کر شام کو ٹھنڈے پہر ایک برتن مٹی کا باندھ دیتے ہیں اس درخت میں سے قدرت نے ایک وقت رکھا ہے اس وقت اس میں وہ عرق اس طرح ٹپکتا ہے جس طرح شیر دار جانور کا دودھ تھن میں بھر کر ٹپکنے لگتا ہے فرق اتنا ہے کہ دودھ نکا لنا  پڑتاہے اور یہ قدرتی طور پر اثر پڑتاہے اسے علی الصباح اتارجاتاہے یہ سرد اور شیریں ہوتا ہے اس ہم لوگ نیرا کہتے ہیں اس میں نشہ نہیں ہوتا خواہ سن کو نکلنے یا رات کو کوئی تعلق نہیں البتہ جس روز برتن باندھا جاتاہے اس کے لئے اگر شب کو ابرہو جاوے تو وہ نیراپھٹ جاتاہے  رنگ بھورا ہو جاتاہے ترشی آجاتی ہے اس میں نشہ ہو جاتا ہے لیکن وہ نیرا سرد صاف ، شیریں،  اس میں ہذاۃ نشہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو دھوپ میں رکھا جاوے یا آگ پر تو اس میں پھر جوش آجاتا ہے اور نشہ لاتا ہے جس درخت سے نیرا اتارا جاتاہے اس زمانے میں سیندھی نہیں اترتی ، اور سیندھی کے زمانے میں یہ نہیں اترتا ، ہم لوگ اس سے خوب واقف ہیں اس کے حلال ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ، الانشہ کے زمانے میں،  (عبدالجلیل)  دوسرے صاحب پٹنہ سے لکھتے ہیں جنہوں نے اپنا نام نہیں لکھا ، ان کی تحریر یہ ہے جناب حضرت مولانا صاحب سلمہ الرحمٰن ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ،

میں نے اہلحدیث اخبار میں بابت تا ڑی یہ مضمون پڑ ہا بعدہ اس پر تعاقب کیا اس پر آپ جناب نے مولوی پٹنوی سے دریافت کیا ، والله اعلم. مولانا موصوف نے کیا جواب کیا کمترین بہ حثییت مسلمان ہونے کی وجہ سے  تجربہ کی بنا پر تحریر کرتا ہوں کہ برتن صاف بعد غروب آفتاب درخت سے شاخ دھو کر باندھ دیں طلوع آفتاب سے پیشتر اتار کر استعمال کریں اگر برتن غیر صاف یا گرمی پہنچنے سے ذرہ برابر جھاگ آجاوے تو بوجہ جھاگ نشہ آور خواہ تھوڑی یا ذیادہ مقدار ہو جاوے گی۔

 (اہلحدیث یکم مئی ۱۹۳۲ء؁)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 433

محدث فتویٰ

تبصرے