سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(455) کمائی عورت زانیہ کی بعد میں کیا حکم رکھتی ہے

  • 7081
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1263

سوال

(455) کمائی عورت زانیہ کی بعد میں کیا حکم رکھتی ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کمائی عورت زانیہ اور چور اور سود خوار کی کمائی ان کے غائب ہو جانے کے بعد کیا حکم رکھتی ہے یعنی حلال ہے یا حرام؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

توبہ کے متعلق قرآن شریف میں آیاہے

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠سورة الفرقان....

یعنی سچی توبہ کرکے نیک عمل کرنے والے کی برائیاں خداتعالیٰ نیکیوں سے بد ل دیتا ہے حدیث شریف میں ہے:التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ. ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کا کوئی گناہ نہیں ہے‘‘ سود خوار کے متعلق قرآن پاک میں صاف ارشاد ہے:فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ﴿٢٧٥سورة البقرة....’’جوشخص نصیحت سنے کے بعد رک جائے تو اس کے لئے ہے جو پہلے ہو چکا اور اس کا کام سپرد خدا ہے‘‘ کہ اس نے سچے دل سے توبہ کی ہے یا محض ریا ہے ان آیات سے بعض علماء نے استدلال کیاہے کہ زانیہ عورت کی خرچی بعد سچی توبہ کے حلال ہو جاتی ہے حافظ ابن قیم کا رحجان بھی اسی طرف ہے اور حافظ عبداللہ غازی پوری مرحوم بھی اسی کے قائل تھے میری رائے ناقص میں سود خوار کے مال یہی حکم ہے کیوں کہ دونوں صورتوں میں وجہ ایک ہے یعنی اخد مال برضائے مالک بر خلاف حکم شریعت میں قپنی رائے پر اعتماد نہیں کرتا حضرات علمائے کرام کے جواب کا انتظار ہے چوری کا مال ہر گز جائز نہیں ہو سکتاکیونکہ اس میں مالک کا رضا مندی نہیں ہوتی۔

شرفیہ:۔

یہ استدلال  کہ سود میں رضائے مالک ہوتی ہے عجیب استدلال ہے یہ کس دلیل سے ثابت ہے کہ جہاں رضائے مالک ہو وہاں حکم جواز ہے زانیہ اپنی رضاسے کراتی ہے تو کیا زنا جائز ہے زانیہ حرام کے بچے کو قتل کرانے کو یا اور کوئی شخص کسی کو قتل کرنے لے کئے مال دیتا ہے اس میں بھی مالک کی رضا ہے کہ یہ مال حرام بعد تو بہ حلال ہو جائے گا، ہر گز نہیں لہذا استدلال باطل ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 426

محدث فتویٰ

تبصرے