السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک صاحب نے دوران تقریر یہ الفاظ کہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل فرض نہیں تھا ، آپ پر عمل اس وقت فرض ہوا جب کہ سورة العصر نازل ہوئی، کیا یہ بات صحیح ہے ؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ اگر یہ بات صحیح نہیں ہے تو ان صاحب کے ساتھ معاملات کی کیا گنجائش ہے کیونکہ ان صاحب کی توجہ جب اس طرف کرائی گئی تو وہ اپنی بات پر قائم ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!جی ہاں ،شریعت پر عمل کرنا نبی کریم پر بھی فرض تھا،بلکہ ہر حکم خدا کے پہلے مخاطب آپ ہی ہوا کرتے تھے، آپ پہلے خود عمل کرتے اس کے بعد صحابہ کرام کو بتاتے تھے، بلکہ آپ پر تو بعض وہ چیزیں بھی فرض تھیں جو امت کے حق میں نفل ہیں، مثلا تہجد پڑھنا امت کے لئے نفل ہے ،لیکن آپ پر فرض تھی۔ ایسا کہنے والا شخص یا تو جاہل ہے ،جس کی اصلاح کی ضرورت ہے ،یا پھر مبتدع ہے ،جس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |