السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مذاکرہ علمیہ متعلق منی آرڈر
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ستبدي لك الايام ما كنت جاهلا وياتيك بالاخبار من لم تزود
(اس شعر كا ترجمہ ہے۔ ) آج جو تو نہیں جانتا۔ آگے چل کر زمانہ تجھ کو بتادے گا۔ اور تیرا بے دام نوکرتیرے پا س خبریں لائے گا۔
یہ شعر ہے تو جاہلیت کے عربی شاعر کا مگر فخر موجودات علیہ افضل التحیات ہمارے حضور سرورکائنات ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے سنا اور ہم تک پہنچا۔ مطب اس شعر کا یہ ہے کہ ایسے بہت سے واقعات جو اس وقت ہم کومعلوم نہیں۔ عنقریب زمانہ اس کو ظاہر کردے گا۔ یہ قاعدہ دنیاوی واقعات کے ساتھ ہی مخصوص نہیں۔ بلکہ دینی امور میں بھی اس کی اصلیت پائی جاتی ہے۔ بہت سے مسائل فقہاء مجتہدین کے زمانے میں پیش آئے۔ جو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمانہ میں نہ تھے۔ بہت صورتیں امام ابویوسف ؤرحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں پیدا ہوئیں جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے وقت نہ تھیں۔ یہاں تک کہ فقہاء کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ کہ فصل مقدمات میں عموماً ابو یوسف کی رائے بمقابلہ اپنے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے صحیح یا راحج ہے ۔ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں۔ لیس الخبر لامعاینۃ جس کامطلب ہے شنیدہ کے بود مانند دیدہ''کیونکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کو بوجہ قاضی القضاۃ ہونے کے ایسے تجربے ہوئے جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کونہ ہوئے تھے۔ ہمارا مضمون منی آرڈر اسی قسم سے ہے۔ ناظرین حیرانی سے کہیں گے کہ یہ کیا مضمون ہے۔ اس کا نتیجہ کیا۔ جس صورت میں کہ دنیا بھر کے صالح وطالح (نیک وبد) منی آرڈر بھیجتے اور لیتے ہیں۔ تو مضمون ہذا کا نتیجہ اگر عدم جواز ہوا تو کون سنےگا۔ ااور کون باور کرے گا۔ اور اگرجواز ثابت ہوگا تو کون سا بڑا کام کیا۔ بجز اس کے کہ یہ کہا جائے گا۔ ''کون کنندن' وکاہ برآور دن'' سو گزارش ہے کہ ہمارا بھی یہی خیال تھا اس لئے ہم نے عرصہ سے اس مسئلے کو اپنے ناظرین تک پہنچایا مگر حال ہی اس کے متعلق ایک ضرورت پیش آئی جس کازکرآگے آتا ہے۔
عرصہ ہوا حضرت مولانا رشید احمدصاحب مرحوم گنگوہی فتویٰ ہم نے دیکھا کہ منی آرڈر کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ مولانا رشید احمد صاحب فرماتے ہیں۔ ''بذریعہ منی آرڈر روپیہ کا بھیجنا تا درست ہے اور داخل ربوا ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ جلد 2 ص 172)
بعض محرمات کی بابت فقہاء نے کئی ایک حیلے بتائے ہیں۔ منی آرڈر ایسا حرام ہے۔ کہ مولانا مرحو م سے اس کے حیلے کی بابت سوال ہوا۔ اس زمانے میں جو منی آرڈر کے بھیجنے کا رواج ہورہا ہے۔ اس کے جواز کےلئے بھی تو کوئی حیلہ شرعی ہے یا نہیں کہ اس میں عام وخاص مبتلا ہورہے ہیں۔ تو مولنا نے جواب دیا۔ کہ حیلہ بندہ کو معلوم نہیں۔
( فتاویٰ رشیدیہ جلد اول ص 37)
اس وقت تو ہم نے یہ سمجھا تھا کہ حسب مضمون شعر مندرجہ عنوان زمانہ خود ہی بتلاوے گا۔ اور مولنا مرحوم کے احباب سے کوئی کوئی اس کی اصلاح کرادے گا۔ مگر رسالۃ ضیا ء السلام مراد باد بابت فروری (جو مارچ میں آیا تھا۔ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مولانا مغفور کے احباب کا ہنوز وہی خیال ہے جو عرصہ ہوا مولانا صاحب کاتھا۔ رسالہ مذکور میں مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کاایک فتویٰ شائع ہوا ہے۔ جس کا سوال مع جواب درج زیل ہے۔
سوال۔ زید ااورعمرو میں منی آرڈر کے زریعہ سے روپیہ بھیجنے میں گفتگو ہے۔ زید کہتا ہے کہ منی آرڈر کے زریعے سے روپیہ بھیجناجائز ہے۔ اور جواز کی دلیل یہ بیان کرتا ہے۔ کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے۔ عمرو کہتا ہے کہ چونکہ منی آرڈر کے زریعہ سے روپیہ بھیجنا کسی معاملہ شرعی کے تحت میں داخل نہیں۔ اس لئے ناجائز ہے۔ زید کہتا ہے کہ یہ معاملہ شرعی کے تحت میں داخل ہے۔ اور داخل ہونے کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ کہ اگر کو ئی کسی حما ل سے کام لے اور اجرت پیشگی دے دے ۔ عمو کہتا ہے کہ منی آرڈر کے ذر یعہ سے روپیہ بھیجنے میں اور پیشگی اجرت دینے میں فر ق ہے ۔ پہلی صو رت کو دوسری صورت پر قیاس کرنا صحیح نہیں کیو نکہ منی آرڈر میں شرط ہے ۔ کہ رو پیہ پہچانے کی اجرت پیشگی لی جاوے ۔ اور حمال کو پیشگی اجرت دینا شرط نہیں بلکہ دینے والے کا احسا ن ہے ۔ اگر پیشگی اجرت نہ دے تو حمال شرعایا عر فا تقا ضا نہیں کر سکتا ۔ اور منی آرڈر تک اور اس وقت تک روا نہ نہیں ہو سکتا جب تک پیشگی اجرت نہ دے اسکے علاوہ ناجا ئز ہو نے کی وجہ عمرو ایک اور بھی بیا ن کر تا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ حمال پر قیاس کر نا اس وجہ سے صحیح نہیں ۔ کہ حمال کے پاس جب تک وہ بوجھ ہے۔ وہ اس کا امین ہے۔ اگرحمال سے وہ بوجھ کھوجاوے۔ توتاوان نہ دیاجائےگا۔ جیسا امین سے نہیں لیا جاتا۔ منی آرڈر کا روپیہ اگرڈاک خانہ والوں کے پا س سے کھو جاوے تو اس کا تاوان لیا جاتا ہے۔ اور ڈاک خانہ سے گویاشرط ہے۔ کہ اگر روپیہ کھوجاوے گا۔ تو وہ تاوان دے گا۔ اس کے علاوہ ناجائز ہونے کی ایک وجہ اور بھی بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حمال پر قیاس کرنا اس وجہ سے بھی صحیح نہیں جہ حمال کے پاس جب تک وہ بوجھ ہے۔ وہ اس کا امین ہے۔ اور امین پر واجب ہے کہ جوچیز امانت دی جاوے۔ بعینہ وہی واپس کرے۔ اور منی آرڈر میں سب جانتے ہیں کہ وہی روپیہ بعینہ نہیں ملتا۔ بلکہ اس کی مثل دوسرا ر وپیہ ملتا ہے۔ زید کہتا ہے کہ عمومی ودفع حرج وتعامل علماء وصلحا ء کی وجہ سے بعض ناجائز چیزیں بھی جائز ہوجاتی ہیں۔ اور مباح الاصل ہے۔ یہ کیونکہ ناجائز ہوگا۔ مثلا غلہ کی بالیوں کو بیلوں سے پامال کراتے ہیں۔ اور بیل اس میں بول وبراز کرتے ہیں۔ اس کو سب جانتے ہیں۔ پھر عموم بلوی اور دفع حرج اور تعامل علمء وصلحاء یاتعامل خلائق کی وجہ سے اس کو سب جائز جانتے ہیں۔ اور اس غلہ کو سب استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی طرح اگر منی آرڈر پر بالفرض اگر ناجائز ہو تو جائز ہوجاوے گا اب ازروئے شرع شریف اس گفتگو کافیصلہ فرمایئے۔ اورقول فصیل ارشاد فرمایئے۔ تاکہ قلب کو تسکین ہو۔
الجواب۔ قائدہ کلیہ ہے الاقراض تقتضی بامثالھا اور منصوص ہے کہ قرض میں کمی بیشی کی شرط ربا ہے۔ اب سمجھنا چاہیے کہ منی آرڈر کا روپیہ جو ڈاک خانے میں داخل کیا جتا ہے۔ آیا وہ امانت ہے۔ اور اہل ڈاک اجیر یا قرض ہے۔ اور اہل ڈاک مستقرض سوچونکہ یقینا معلوم ہے کہ وہ روپیہ بعینہ نہیں بھیجا جاتا اور نیز قانون ہے کہ اگر ڈاک خانہ سے وہ روپیہ اتفاقا ضائع ہوجائے۔ تو اہل ڈاک اس کا ضمان دیتے ہیں۔ ان دونوں امر سے معلوم ہوا کہ وہ امانت نہیں بلکہ قرض ہے۔ جو دوسری جگہ ادا کیا جاتا ہے۔ پس فیس بھی جزو قرض ہوا۔ اور مقا م وصول پر چونکہ بوضع فیس ادا کیا جاتا ہے اس لئے قرض میں کمی بیشی لازم آئی یہ وجہ اس کے ممنوع ہونے کی ہے۔ بلکہ اگر یہ فیس بھی نہ ہو۔ تب بھی حسب قاعدہ کلیہ کل قرض جرنفعا فھو ربوا۔ بوجہ منفعت سقوط خطرطریق کے داخل (1)۔ سفتج ہوکر مکروہ ہے۔
في الدرالمختار كتاب الحوالة وكرهت السفتجة
اور چونکہ یہ عقد اجارہ نہیں ہے۔ جیسا اوپر مذکور ہوا لہذا مسئلہ حمال سے اس کوکوئی مس نہیں۔ کما ہو ظاہر۔ اور عموم بلوی ظہارات ونجاسات پر موخر ہے۔ نہ حلت وحرمت میں اورتعامل اس کو نہیں کہتے۔ بلکہ وہ قسم ہے اجماع کی اور اس میں شرائط اجماع کا پایا جانا ضروری ہے۔ منجملہ اس کے یہ بھی کہ علمائے عصر واحدبلانکیر اس کو قبول کرلیں۔ متنازعہ فیہ میں یہ امر مفقود ہے۔ اس لئے یہ تعامل نہیں ہے۔ ایک رواج عامیانہ ہے۔ جوشرعا حجت نہیں۔ اس لئے سب نظائر مذکورہ زید کا جواب نکل آیا۔ واللہ اعلم۔ البتہ بہت عرق ریزی سے اس قدر تاویل کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ کہ فیس کو اجرت کتابت وروانگی فارم کی کہاجاوے۔ اس سے حرمت تقاضل تودفع ہوجائےگی۔ مگر کراہت سفتجہ کی باقی رہے گی۔ واللہ اعلم۔ (ضیاء الاسلام)
گو مولانااشرف علی صاحب نے فقہیانہ طریق سے جوابدیا ہے۔ جوایک ایسے شخص یا قوم پر جو بغیر قرآن کے کسی کی پیروی واجب نہ جانتی ہو۔ حجت نہیں اس لئے جماعت اہل حدیث پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارے خیال میں فقہی اصول سے یہ بھی مسئل عدم جواز کا مورد نہیں ہوسکتا۔ لہذا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مولانا اشرف علی صاحب اور ان کے احباب کو حق حاصل ہے۔ کہ وہ اس مسئلے کے متعلق اہل حدیث کے اس مذاکرہ علمیہ میں حصہ لیں۔ مولانااشرف علی تھانوی صاحب نے منی آرڈر کی دو صورتیں بتلائی ہیں۔ یا تو ڈاک خانہ اس روپیہ کو قرض لیتا ہے۔ یہ صورت اس صورت اس لئے ناجائز ہے کہ فیس ساتھ لے کر قرض کم ادا کرتا ہے۔ یا ڈاک خانہ اجیر یعنی مزدور ہے۔ یہ صورت اس لئے ناجائز ہے کہ اس صورت میں ڈاک خانہ امین ہے۔ اور امین کا فرض ہے کہ امانت بعینہ وہی پہنچادے۔ حالانکہ ڈاک خانہ وہی روپیہ نہیں پہنچاتا۔ قاعدہ یہ ہے کہ ڈاک خانہ سے مکتوب الیہ کو کاغذ بھیجے جاتے ہیں۔ وہاں والے اپنے خزانہ سے روپیہ ادا کرتے ہیں۔ نیز امین سے نقصان ہوجائے۔ تو اس کو بھرنا نہیں آتا۔ حالانکہ ڈاک خانہ بھرتا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ ڈاک خانہ قرض دار ہے۔ نہ اجیر (مزدور) جب تک منی آرڈر کے عقد کی کوئی فقہی صورت نہ ہو۔ منی آرڈر کرناجائز نہیں لو یہ ہے مولنا تھانوی کا فتویٰ
مدرسہ دیو بند میں ایک طالب علم اس مسئلہ کا دل سے معتقد تھا اس کو روپے بھیجنے کی ضرورت پیش آئی منی آرڈر تو ناجائز تھا۔ اس نے مبلغات ڈبیہ میں بند کرکے بھیجے خدا کی شان وہ ضائع ہوگئے چلو مسئلہ تو حل ہوگیا۔
یہ تو خیر ایک لطیفہ ہے۔ مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ صورت اختیار کرتے ہیں۔ کہ ڈاک خانہ اجیر ہے۔ چنانچہ فیس منی آرڈر کا لفظ ہی اس کے اجیر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ فیس کے معنی اجرت کے ہیں۔ فقہاء کی اصطلاح میں اجیر دو قسم کے ہیں۔ ایک اجیر خاص دوم اجیر مشترک اجیر خاص وہ ہوتا ہے۔ جو ایک ہی کا کام کرے۔ جیسے کے دوکان کا ملازم وقت مقررہ میں ایک ہی دوکان کا ملازم ہے۔ دوسرا اجیر مشترک جو بہتوں کا کام کرتا ہو۔ جیسے دھوبی درزی وغیرہ جو بہتوں کے کپڑے دھوتا اور سیتا ہے۔ ان دونوں کے حکم بھی الگ ہیں۔ اور یہ بات بالکل بدہی ہے۔ کہ ڈاک خانہ اجیر ہے۔ تو خاص اجیر نہیں بلکہ مشترک ہے۔ اجیر مشترک کی بابت صالحین کا مذہب ہے کہ نقصان ہونے کی صورت میں اس سے بھرا جائے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے۔ یضمنہ عندھما۔ تو ضمان بھرنے کا ثبوت تو صاحبین امام محمد اور امام یوسف کے قول سے ملتا ہے۔ جس کی تائید تعامل سے بھی ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ بعینہ وہی روپیہ ادا نہیں ہوتا۔ اس کی بابت گزارش کہ روپیہ اصطلاح فقہاء مثلی چیز ہے۔ یعنی ایک روپیہ بعینہ وہی دوسرا یہی وجہ ہے کہ ہم ایک عقد میں اس جیسی دوسری چیز لے لیں۔ مثلا ً دس انڈے ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ہاتھ میں لے کر ہم نے سودا کیا۔ مگر لیتے ہوئے دوسرا لیا تو منع نہیں۔ کیونکہ وہ سب مثلی ہیں۔ ایک چیز کسی شخص کی ہم سے کھوئی گئی کی قیمت ادا کرنا ہم پر واجب ہے۔ لیکن اس چیز کی مثل ہمارے پاس ہے۔ تو ہم اس کے دینے سے سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ مثلا ً کسی شخص کی چھتری ہم سے کھوئی گئی۔ اس قسم کی بازار سے لا کر ہم دیویں۔ در اصل مالک انکار نہیں کر سکتا کیونکہ وہ چیز مثلی ہے۔ پس اگر ڈاک خانہ وہی روپیہ نہیں پہنچاتا۔ تو نہ سہی۔ اس کی مثل روپیہ تو پہنچاتا ہے۔ جس کو ہم ٹھوک بجا کر لیتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ نہ روپیہ بھیجنے والے کو یہ منظور ہے۔ وہی روپیہ جو میں دیتا ہوں پہنچایا جائے۔ نہ وصول کرنے والے کو یہ شوق ہے۔ کہ وہی روپیہ جو بھیجنے والے نے داخل ڈاک خانہ کیا ہے۔ مجھے ملے بلکہ دونوں کو اس قسم کا خیال تو کیا پرواہ بھی نہیں۔
اُمید ہے دیگر حضرات علماء بالخصوص مولناٰ گنگوہی اور اشرف علی تھانوی کے معتقدین ضرور اس مذاکرہ میں حصہ لیں گے۔ والسلام ٢٤ جمادی الاول سنہ ١٣٣١ھ مطابق ٢ مئی سنہ ١٩١٣ ء کے اہل حدیث میں یہ مسئلہ بطور مذاکرہ علمیہ کے لکھا گیا تھا۔ کہ ہر صاحب علم اس کے متعلق مخالف موافق رائے دے سکتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اہل علم اس اصل مسئلہ پر توجہ کر کے گفتگو کرتے بجائے اس کے ایک صاحب نے نواح جھانسی سے گالیوں کا ایک اچھا خاصہ دشنام نامہ بھیجا۔ جس میں بہت کچھ اپنی قابلیت کا اظہار کیا۔ وجہ خفگی یہ بتائی کہ تم کیا ہو جو بڑے بڑے علماء مثل مولانا رشید احمدگنگوہی۔ اور اشرف علی تھانوی پر اعتراض کرتے ہو۔ یہ سب کچھ لکھ کر دشنام نانہ کے درج اخبار کرنے کی درخواست کی تھی۔ ہمیں اپنی ذات خاص کی توہین اس کے درج کرنے سے مانع نہ تھی۔ کیونکہ ہم عرصہ سے چکنے گھڑے ہو چکے ہیں۔ جس پر پانی اثر نہیں کرتا بلکہ یہ امرمانع تھا۔ کہ ناظرین دیوبندی جماعت سے بد ظن ہو جایئں گے۔ کہ ایسے صاف اور معقول مضمون کا جواب ایسا نا مہذب اور ناقابل سماعت خیر وہ تو گزرا ہم منتظر رہے۔ کوئی اہل علم اس کی طرف توجہ کرے کسی نے نہ کی اللہ بھلا کرے۔ ایڈیٹر رسالہ ضیاء الاسلام مراد آباد کا کہ انہوں نے ہمارے مضمون کو پورا درج نہیں کیا جوان کو کرنا چاہیے تھا۔ مگر اختصار کر کے بغیر اظہار اصل حال کے مولناٰ اشرف علی تھانوی سامنے پیش کراکر جواب طلب کیا گو اخبار اہل حدیث کا پرچہ بھی مولانا کے پاس جا چکا تھا۔
اصل مسئلہ تو ناظرین کو شعائر تو بھول ہوگیا ہوگا۔ اس لئے اس کا خلاصہ بتلا کر جواب اور جواب الجواب ناظرین کو سناتے ہیں۔ مولناٰ رشید احمد اور اشرف علی تھانوی کا فتویٰ ہے۔ موجود طریق جو منی آرڈر بھیجنے کا ہے جائز نہیں۔ کیونکہ یہ عقد نہ تو اجارہ ہے اور نہ ہی قرض اجارہ اس لیے نہیں کہ منی آرڈر کی رقم ضائع ہونے کی صورت میں ڈاک خانہ پھر دیتا ہے۔ اجارہ میں اجیر پر بھرنا نہیں آتا۔ نیز وہ روپیہ بعینہ نہیں بھیجا جاتا۔ حالانکہ اجارہ میں بعینہ دیا جاتا ہے۔ اور قرض اس لئے نہیں کہ فیس جو ساتھ دی جاتی ہے۔ وہ ڈاک خانہ واپس نہیں دیتا۔ حالانکہ قرض میں سب کچھ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ہے دومولنٰائوں کی تقریر کا خلاصہ اس کے جواب میں ہم نے لکھا تھا۔ کہ امر واقع یہ ہے کہ عقد اجارہ ہے ڈاک خانہ ہم سے قرض نہیں مانگتا ڈاک خانہ کو قرضدار قرار دینا خلاف منشاء ڈاکخانہ اور نیز قواعد ڈاک خانہ کے ہے۔ کیونکہ اجارہ ہے اس لئے اس کی اجرت بھی مقرر ہے۔ جس کا نام فیس ہے۔ رہا یہ کہ روپیہ بعینہ نہیں بھیجا جاتا۔ اس کا جواب دیا تھاکہ روپیہ مثلی چیز ہے۔ یعنی جو روپیہ ہم نے ڈاک خانہ میں دیا ہے۔ اس کے ساتھ کے اور روپے بھی ملتے ہیںَ۔ جو کام کے لہاظ سے ہمارے روپوں کے برابر ہو بہو ہیں۔ اور مثلی چیز کا حکم یہ ہے وہ یا اس کی مثل دوسری چیز کا دینا جائز ہے۔ بھرنے کا جواب دیا تھا کہ اجیر دو قسم کے ہوتے ہیںَ۔ ایک خاص جو صرف ہمارا ہی کام کرتا ہے۔ اس سے نقصان کا بھرنا تو احناف میں کسی کا مذہب نہیں۔ مگر ڈاک خانہ اجیر خاص بلکہ اجیر مشترک ہے۔ کیونکہ وہ ہمارا ہی کام نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کا کرتا ہے۔ وہ اامام محمد اور امام یوسف کا مذہب ہے۔ کہ جو نقصان اجیر مشترک سے ہو یقینا جائز ہے۔ پس اس حکم کے مطابق اگر ڈاک خانہ نقصان بھر دے۔ تو عقد اجارہ میں دخل نہیں آتا۔ یہ ہے ہمارے مضمون کا مندرجہ اہل حدیث ٢ مئی کا خلاصہ اسی کو ایڈیٹر نے رسالہ ضیاء الاسلام نے بعنوان زیل مولنا ٰ اشرف علی تھانوی کے پاس پہنچایا جو درج زیل ہے۔
سوال۔ آیا جو منی آرڈر کی یہ تاویل ہوسکتی ہے یا نہیں کہ اس معاملہ کو اجارہ اور فیس کو روپیہ پہنچانے کی اجرت کہا جائے اس پر دوجو شہبے ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ روپیہ بعینہ نہیں پہنچایا تھا۔ اور دوسرے ہلاک سے ڈاک خانہ پر ضمان شروط ہوتا ہے۔ اُن کا آیاج ئہ جواب ہوسکتا ہے۔ یا نہین کہ روپیہ بوجہ نقد ہونے کے تعین سے متعین نہین ہوتا بلکہ ہر مثلی کا یہی حکم ہے کہ اس میں تعین نہیں ہوتی جیسے انڈا کہ ختتا مثلی ہے اور چھتری کہ صنعتاً مثلی ہے۔ اور ضمان مشترک پر ایسی صورت میں کہ ہلاک بفعل اجیر نہ ہو۔ گو وہ ہلاک ممکن الاحتراز ہو صاحبین کے نزدیک مشروع ہے بینوا توجروا؟
جواب۔ یہ تاویل ٹھیک نہیں دو شبہوں کی وجہ سے جو سوال میں مذکور ہین اور ان کے جو جواب دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے اول کا جواب تو بالاجماع ٹھیک نہیں کیونکہ یہ عدم تعین صرف عقود میں ہے۔ باقی امانات و غصوب میں نقود بھی متعین ہیں۔ پس یہ جواب موئل کا ٹھیک نہ ہوا اور دوسرے شبہ کا جواب اول تو اما م صاحب کے قول پر ٹھیک ہو سکتا تھا۔ اور جب یہ نہیں تو وہ اجارہ ہی نہیں جو ڈاک خانہ کو اجیر مشترک کہا جائے اس لئے صاحبین کے قول پر بھی یہ جواب نہ چلا۔
ناظرین نے سوال و جواب جو مولناٰ اشرف علی تھانوی نے دیا ملاحظ فرمالیا۔ پس اب ہماری طرف سے جواب الجواب بھی سنیے۔
اجارہ ہی سے مخصوص نہیں فقہ کے بہت سے مسائل کی بناء صرف اس بناء پر ہے کہ مالک کی اجیر کے ساتھ نزاع نہ ہو۔ اس لئے کوئی شخص زمین کرایہ پر لے تو جو کچھ اس میں بوئے اس کا زکر اس کو کرنا ضروری ہے یا یہ کہہ دے کہ میں جو چاہوں گا بوئوں گا۔ ورنہ بوجہ نزاع کے خطرہ کے یہ اجارہ جائز نہ ہوگا۔ ہدایہ کتاب الاجارہ باب
ما يجوز فيه الاجارة وما لا يجوز
اس اُصول کے مطابق آج ہم منی آرڈر کے طریق کو دیکھتے ہیں تو کوئی نزاع اس مطلب کے ہم نہیں پاتے کے لینے والے کو روپیہ یا نوٹ یا پونڈ لینے میں کچھ تکرار ہو۔ بلکہ وہ سب کو یکساں جانتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا نہ جاننا چاہتا ہے۔ کہ بھیجنے والے نے ڈاک خانہ والے کو کیا دیا۔
اس محصول پر یہ مسئلہ ہے۔ جو مولناٰ اشرف علی تھانوی نے بھی جس کی تصدیق کی ہے۔ کہ روپے مثلی ہونے کی وجہ سے عقود کی صورت میں بھی متعین نہیں ہوتے۔ کیونکہ روپیہ اصل مقصود نہیں بلکہ کار براری کا زریعہ ہے۔ فقہا نے اس کی صاف تصریح کر دی ہے۔ پس جب کہ نقود کے عدم تعین کی مثال ملتی ہے۔ اور اس کی وجہ بھی فقہا کے الفاظ میں ہم سمجھ چکے ہیں۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ منی آرڈر کی صورت میں اس تعین پر زور دیں۔ بلکہ عدم تعین میں نہ نزاع پیدا ہو نہ تکرار۔ دوسری وجہ جس کو مولناٰ کمال بلند پردازی سے شبہ کے ساتھ تعبیر فرماتے ہیں۔ صاحبین کا مذہب ہے۔ جن کے مذہب پر بوقت ضرورت عمل کرنا گویا امام صاحب کے مذہب پر عمل ہے۔ اجیر مشترک تو اس کو کہتے ہیں۔ جو کئی ایک کام کرے جیسے دھوبی ۔ درزی جو خاص ایک ہی کے نوکر نہ ہوں۔ ان سے اگر نقصان ہو جا تو صاحبان کے مذہب میں اس کابدلہ مالک کو ملتا ہے۔ روپیہ کا بیعنہ نہ جانا تو مالک اور مرسل الیہ کو پہلے ہی سے معلوم ہے پھر اس کی شرط ہی کیا
ضروری اُصول قابل لہاظ۔
اجارہ میں کسی چیز کا بعینہ پہنچانا اصل مالک کے فائدے کیلئے ہے۔ یعنی اصل چیزکو لینا مالک کا حق ہے۔ شرع کا حق نہ ہونے سے اجارہ کی ماہیت یا ذات میں داخل نہیں یہ ظاہر ہے کہ صاحب حق اپنا چھوڑے تو کسی کو مجال دوم زون کیا۔ منی آرڈر کرنے والا جس وقت منی آرڈر کرتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے۔ یہ روپیہ بعینہ نہیں پہنچے گا باوجود علم کے اگر وہ روانہ کرتا ہے تو گویا وہ اپنا حق خود ساقط کرتا ہے۔ اس صورت میں عدم جوازکی کیا وجہ ہے۔
اُمید ہے حضرات مانعین اس پر کافی غور فرمایئں گے ۔ ایڈیٹر صاحب رسالہ ضیاء الاسلام سے امید ہے کہ مثل سابق ہمارے معروضات پہنچا کر ثواب حاصل کریں گے۔
٢٦ ستمبر سنہ ١٩١٣ء
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب