سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(391) ایک وقت میں دو بیع کرنا

  • 7006
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1017

سوال

(391) ایک وقت میں دو بیع کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دربارہ خرید وفروخت یعنی ایک وقت میں دو بیع کرنا نقد پر بیشی کے ساتھ اور ادھار پرکمی کے ساتھ دینا اس طرح کی خرید وفروخت درست ہے یا نہیں اس کے جواب میں آپ کے ہاں سے فتویٰ آیا ۔ کہ نقد پر کم قیمت لینا۔ اور ادھار پر زیادہ قیمت لینادرست ہے۔ یہ مسئلہ ترمذی اور نیل الاوطار میں ملتا ہے۔ اور اسی طرح کا فتویٰ اخبار اہلحدیث قبل رمضان 1333ہجری میں دیکھا گیا۔ مگر اس کے ثبوت میں کچھ شک پڑتا ہے۔ کیونکہ ترمذی میں کوئی دلیل کافی نہ پائی گئی اورنیل الاوطار یہاں موجود نہیں۔ مگر برعکس اس کے ملتا ہے۔ یعنی تلخیص الصحاح باب لبیوع جلد اول ص 143 مترجم مطبوعہ مطبع صدیقی لاہو کہ ایک وقت میں دو بیع کرنا درست نہیں ہے۔ اور کیونکہ ادھاار پر زیادہ قیمت لینا ربا ہوگا۔ اس واسطے مکرر عرض ہے۔ کہ اس مسئلہ میں موافق قرآن وحدیث کے جواب ملنا چاہیے کسی کی رائے اور اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔  (عبدالحمید اہلحدیث از دھورہ ٹانڈہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ اس حدیث کی تشریح میں اقوال مختلف ہیں۔ جس صاحب کو جو قول پسند ہوتا ہے۔ اس پر وہ نتائج مرتب کردیتا ہے۔ نیل الاوطارمیں ایک قول یوں بھی مرقوم ہے۔ کہ اگرکوئی یہ کہے کہ نقد پر سو روپیہ اور ادھار پردو سو روپیہ لوں گا خریدار کہے میں نے نقد کی صورت میں یا ادھار کی صورت میں منظور کی تو جائز ہے۔  (جلد 5 ص 12) ترمذی میں بھی مرقوم ہے کہ صورت مرقومہ میں خریداار جب ایک صورت کو اختیار کرلے تو جائز ہے۔  (باب لنھی عن بیعتین فی بیعتہ)  غرض صورت مرقومہ کے منع پرکوئی آیت یا حدیث صاف دلالت نہیں کرتی اس لئے جائز معلوم ہوتا ہے۔  (اہلحدیث 25 فروری 1916ء)

تشریح

وقد فسر بعض اهل العلم قالوا بيعتين في بيعته ان يقول ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسية بعشرين ولا يفادقه علي احد ا لبيعين

يعنی بعض اہل علم نے حدیث

نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعته

 کی تفسیر یوں کی ہے۔ کہ مثلا ایک شخص کہے کہ یہ کپڑا میں نے تمہارے ہاتھوں نقد دس روپے پر اور ادھار بیس روپے پر فروخت کیا اور بائع اور مشتری جدائی سے پہلے کسی ایک بیع کا فیصلہ نہ کرسکیں۔ یہ بیع اکثر اہل علم کے نزدیک فاسد ہے۔

فازا فارقه علي احدهما فلا باس ازا كانت العقدة علي واحد منهما

یعنی اگر جدائی سے پہلے ایک بیع کا فیصلہ ہوگیا تو کوئی حرج نہیں۔ جبکہ بیع ایک صورت پر منقعد ہوچکی نقد پر متعین ہو یا ادھار پر مذید تفصیلات کےلئے دیکھو تحفہ لاحوذی جلد 2 ص 336  (مولف)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 364

محدث فتویٰ

تبصرے