السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مردار کی ہڈی تجارت جائز ہے۔ یاناجائز مردا ر کی ہڈی سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک حلال وحرام جانور مردہ کی ہڈی جیسے کتا۔ سور وغیرہ کی ہڈی بھی مل کررہتی ہے۔ اس کی تجارت کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حلال جانوروں کی ہو تو بلاشبہ جائز ہے۔ ملی جلی بے امتیاز ہو تو مشتبہ ہے۔ واللہ اعلم۔ (اہلحدیث 19 جمادی الاول 1342ہجری)
ماکول الحم(1) مذبوح کی ہڈی کےجواز پرکلام نہیں۔ اور غیر ماکول الحم کے استعمال وفروخت کو ہاتھی دانت پر قیاس کرکے جواز پر استدلال ہوسکتا ہے۔ کہ حدیث وآثار صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے ہاتھی دانت کا استعمال ثابت ہے۔ اور استعمال اور فروخت کا حکم ایک ہے۔
قال النبي صلي الله عليه وسلم في اخر حديث طويل ياثوبان اشتر لفاطمة قلاده من عصب وسواين من عاج انتهي
(سنن ابی دائود باب الانتفاع بالمعاج) (ابوسعید شرف الدین دہلوی)
ہڈی کی تجارت جائز ہے۔ ماکول الحم کی ہو غیر ماکول الحم کی صحیح بخاری صفحہ نمبر 170 میں ہے ۔
قال حماد لا باس بريش المتية وقال ا لذهري في عظام الموتیٰ نحول الفيل وغيره ادركت ناسا من سلف العلماء يمتشطون بها ويد هنون فيها لايرون به باساوقال ابن سيرين وابراهيم لا باس بتجارة العلج انتهي
یعنی حماد بن ابی سلمان کو فی فقیہ نے کہا کہ مردار پر میں کچھ مضا ئقہ نہیں ہے ۔ یعنی مردار کا پر نجس نہیں ہے ۔ ماکول الحم کا پر ہو یا غیر ماکول الحم کا ہو ۔ زہریرحمۃ اللہ علیہ نے مردار جانور جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے بارے میں یعنی ان جانوروں کی ہڈیوں کے بارے میں غیر ماکول الحم ہیں ۔ کہا کہ میں نے بہت سے علما سلف کو پایا کہ وہ ان ہڈ یو ں کے کنگھے استعما ل کرتے تھے ۔ اور ان میں کچھ مضا ئقہ نہیں سمجھتے تھے اور ابن سیر ین اور ابراہیم نے کہا کہ ہا تھی دانت کی تجارت میں کچھ مضا ئقہ نہیں ان بہت سے علمائے سلف ابن سیر ین ۔ ابراہیم کے قو ل کی تائید ابو داود کی اس حد یث سے ہو تی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب