السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری شادی جنوری 1927 ء میں تقریبا ً 15 سال کی عمر میں ہوئی۔ اس عرصہ میں میں اپنے والدین کے گھر پر رہتی ہوں۔ میرے خاوند نے اس عرصہ میں مجھے آباد کرنے کے واسطے میری طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اور نہ ہی اپنے گھر لے جانے کے واسطے میرے والدین سے خواہش ظاہر کی۔ آخر مجبور ہو کرمیری برادری نے مجھ پر رحم کھایا۔ میری خاوند اور سسر کو اس بات پر آمادہ کیا۔ کہ میری مصیبت کو کم کرنے کے واسطے میرا خاوند دوعدد تمسکات لکھ دیوے۔ جن سے کہ میری بھلی تسلی ہوجاوے۔ کہ میرا خاوند مجھے آبندہ آباد کرلے گا۔ اور میرے ساتھ کوئی بے اعتنائی نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ تمسکات خریدے گئے۔ اور تکمیل بھی کئے گئے۔ مگر آخر پر میرے خاوند نے ان پر دستخظ کرنے سے انکار کردیا۔ اور وہ اپنے گھر چلا گیا۔ اور اس کے بعد میری طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ جس سے کہ میرے خاوند کی نیت میں فرق معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ مجھے ہرگز آباد نہیں کرے گا۔ اس واسطے میں علمائے دین سے ملتجی ہوں۔ کہ میری بہتری اور بہبودی کے واسطے کوئی سبیل نکالیں۔ اور مجھے اس مصیبت سے نجات دلاویں۔ تاکہ آئندہ میری زندگی خراب نہ ہو اور آرام سے گزرے۔ (الف) (معرفت مولوی عبد لقیوم دنیا نگر ضلع گورداسپور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نکاح کی غرض صرف کھانا کپڑا نہیں۔ بلکہ ضرورت خاصہ بھی ہے۔ اس لئے جو خاوند اس طرف خیال نہیں کرتا۔ اس کی منکوحہ نکاح فسخ کرانے کا حق رکھتی ہے۔ فقہاء نے تو نان ونفقہ نہ دینے والے سے بھی فسخ نکاح کا حق منکوحہ کودیا ہے۔ دارقطنی اور بہیقی نے آپﷺ کی حدیث نقل کی ہے۔
الرجل لايجد ماينفق علي امراته يفرق بينها
جو مرد نان ونفقہ نہیں پاتا۔ ان میاں بیوی میں جدائی کرائی جاوے۔ نیز حدیث شریف میں آیا ہے۔ لاضرر ولا ضرار في الاسلام کسی کو ضرر دینا اسلام میں ہرگز جائز نہیں۔ قرآن شریف میں ایک جامعہ حکم ہے۔ کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(عورتوں کے ساتھ عمدہ سلوک کیا کرو) اس کے خلاف ہونے سے عورت فسخ نکاح کراسکتی ہے۔ بذریعہ پنجایت فسخ ہونا کافی ہے۔ اگرایسا کرنے میں مقدمہ فوجداری کرنے کا خطرہ ہو۔ تو بذریعہ عدالت فسخ کرایا جائے۔ واللہ اعلم۔ (اہلحدیث امرتسر ص 13 5 جنوری 1934ء)
الرجل لا یجد الخ یہ روایت صحیح نہیں۔ اور ما نحن فیہ سے بھی خارج ہے۔ باقی جواب جواب ہے۔ (ابوسعید شرف الدین دہلوی)
ایک صاحب فتویٰ نمبر 44 مندرجہ اہلحدیث مورخہ 21 جمادی الاول 1343ہجری پ ر توجہ دلائی ہے۔ کہ غلط چھپ گیا ہے۔ جواباً تحریر کیاجاتا ہے۔ کہ واقعی غلط ہے۔ صحیح یوں ہے کہ۔
'' بیوہ کی عدت چار ماہ دس روز بحکم آیت ۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ﴿٢٣٤﴾سورة البقرة......
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب