سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(340) حاملہ مطلقہ کی عدت وضح حمل یا ثلاثہ اشہر (تین مہینے )ہے؟

  • 6955
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1448

سوال

(340) حاملہ مطلقہ کی عدت وضح حمل یا ثلاثہ اشہر (تین مہینے )ہے؟

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاملہ مطلقہ کی عدت وضح حمل یا ثلاثہ اشہر  (تین مہینے )ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضع حمل ہے۔ چاہے ایک گھڑی میں ہوجائے۔ بحکم ان یضعن حملھن  (اہلحدیث امرتسر 24 رجب 1364 ہجری)

تعاقب

جلد 41 پرچہ 2 سوال نمبر 6 کے جواب میں جو آیت آپ نے لکھی ہے۔ اس میں غیرمدخولہ مطلقہ کا حکم ہے۔ جیسا کہ ثم طلقتموھن کا لفظ بتارہا ہے۔ اور متوفی عنہا کی عدت چار ماہ دس دن قرآن نے بیان کی ہے۔ والذين يتوفون منكم اس میں مدخولہ وغیر مدخولہ صغیرہ غیر صغیرہ سب شامل ہیں۔ اوراس پر اجماع بھی ہے۔ ہاں اگر کوئی آیت یا حدیث صغیرہ متوفی عنہاکو اس آیت سے خارج کرے۔ کہ صغیرہ پر عدت نہیں۔ تو امنا وصدقنا ورنہ قرآن مجید کی آیت کے مقابل کسی کی فقہ قابل تسلیم نہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ جو حدیث کی کتابوں میں مرقوم ہے۔ کہ متوفی عنہا غیر مدخولہ پرعدت بھی ہے۔ اور اس کو میراث بھی ملے گی۔ احناف کے قول کا رد ہے۔ کہ صغیرہ متوفی عنہا پر عدت نہیں ہے۔ جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحت شروع حدیث میں موجود ہے۔

جواب۔ میرا خیال تھاکہ عدت تعلق زوجین پر مبنی ہے۔ مطلقہ غیر مدخولہ پرعدت نہیں ہے۔ قیاس جلی یہ ہے کہ زوجہ متوفی عنہا ٖغیر مدخولہ پر بھی عدت نہ ہو۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقول بھی یہی ہے۔ تفسیر کبیر جلد 2 ص 278 ملاحظہ ہو۔ مگر چونکہ حدیث مرفوع اس بارے میں آگئی ہے۔ کہ زوجہ متوفی عنہا غیر مدخولہ پر بھی عدت ہے۔ اور خاوند کی وارث بھی ہے۔ مہر بھی پورا ہے اس لئے میں اپنے فتوے سے رجوع کرتاہوں۔ مگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے حبراالامت کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس مسئلہ کو اجماعی نہیں سمجھتا۔ حدیث کیوجہ سے رجوع کرتا ہوں۔ مفصل بحث اس کی تفسیر ابن کثیر اور تفسیر فتح البیان اور تفسیر کبیر میں ملتی ہے۔  (اہلحدیث 2 جمادی الاخر 1363ہجری)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 328

محدث فتویٰ

تبصرے