سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(329) مفلس شخص کی بیوی کیا کرے؟

  • 6937
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1564

سوال

(329) مفلس شخص کی بیوی کیا کرے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی مسلمان جواں سال نکاح کرے۔ اور متایل ہونے کے بعد منکوحہ کو نان ونفقہ دینے کی مقدرت واستطاعت نہ رکھے تو اس صورت میں وہ کیاکرے ؟ وہ شخص بالکل مفلس اور کنگال ہے خود اس ہی کا گزر بہت مشکل سے ہوتا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت اگر علحیدگی چاہے تو اس کا طلاق دے دے قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ لا تمسکوھن ضرارا عورتوں کو دکھ دینے کے لئے مت روک رکھاکرو۔  (26 شوال 37ہجری)

شرفیہ

اقول۔ اس آیت سے استدلال وجوب طلاق صحیح نیں اس لئے کہ ضرر نسبت مرد کی طرف صحیح نہیں ہے۔ اضرار اور چیز ہے۔ اور ضرر پہنچنا من جانب اللہ بسبب ماکسبت ایدیکم اور چیز ہے۔ قسم اول سے استدلال ہوسکتاہے۔ دوم سے نہیں جب مرد لائق کمانے کاتھا۔ اور بعد کومفلس ہوگیاہے۔ خواہ عدم روزگار سے خواہ قسم مرض وغیرہ سے تو وہ مجرم نہیں عورت کو صبر لازم ہے۔ ااور اس پر مرد کا حق ہے۔ کہ حتی الامکان اس کاساتھ دے۔ موسرہ ہو تو اپنے پاس سے خرچ کرے۔ ورنہ محنت مشقت کرنے سے دریغ نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا کام کرتی تھیں۔ چکی پیستیں پانی بھرتیں۔ اور

ولهن مثل الذي علهين بالمعروف الايةو (پ2 ع 12 )

عورت کے مرد کی خدمت کرنے پردال ہے۔ اور حکیم بن معاویہ قشیری نے کہا یا رسول اللہ ﷺ

 ما حق زوجه احدنا عليه قال ان تطعها اذا طعمت وتكسوها اا اكتسبت ولا تضرب الموجه ولا تقبح ولا تهجرا الا في البيت رواه احمد وابودائود وابن ماجه  (مشکواۃ ج2 ص 281)  سے ثابت ہے کہ مرد کے پاس جب وسعت ہو تو جیسا آپ پہنے اس کو بھی پہنائے اور جب آپ کھائے اس کو بھی کھلائے اور جب یہ مجبور نادار ہو تو پھر اس پراعتراض نہیں اور حکم فسخ باطل ہوگا۔ اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔

لوكنت امر احد ان يسجد لاحد لامرت امراة ان تسجد لزوجها ولوامرها ان تنتقل من جبل الصفر الي جبل اسود ومن جبل اسود الي جبل ابيض كان ينبغي لها ان تفعله رواه احمد  (مشکواۃ ص 283 ج3)

اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کے بیت مبارک میں تشریف لائے۔ تو آپ کو یعنی حضورﷺ کو حزین اور سکوت کی حالت میں پایا اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے خوش کرنے کو اپنا واقعہ بیان کیا اور کہا حضور ﷺ میری زوجہ نے مجھ سے خرچ طلب کیا۔ تو میں نے اس کی گردن وبادی گھونسہ ماردیا۔ آپ ہنسے اور فرمایا کہ یہ میری ازواج مطہرات بھی یہی مطالبہ کررہی ہیں۔ اس پرصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو گردن دبا کر مارنے لگے۔ کہ حضور ﷺ سے وہ خرچ طلب کرتی ہو جوآپﷺ کے پا س نہیں ہے۔  (رواہ مسلم فی صحیحہ مشکواۃ ص 281 ج2)  اور فتح خیبر سے پہلے عموما صحابہ افلاس کی حالت میں تھے۔ تو کیا ان کی عورتوں کے نکاح فسخ ہوا کرتے تھے۔ پھر تو معدود سے چند ہی عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھتے ہوں گے۔ باقی سب مجرد اور لفظ تقول  (ای المراۃ9 اطعمنی والافارقنی رواہ احمد وغیرہ۔ یہ قول ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے حجت نہیں۔ اور روایت

 ان النبي صلي الله عليه وسلم في الرجل لا يجد ما ينفق عل امراته قال يفرق بينهما رواه الدار قطني ولابيهقي من طريق عاصم القاري عن ابي صالح عن ابي هريره صحیح نہیں۔

وابو حاتم وعن سعيد بن المسيب عند سعيد بن منصور والشافعي وعبد الرزاق في الرجل لا يجد ما ينفق علي اهله قال يفرق بينهما قال ابو الزناد قلت لسعيد سنة قال سنة وهذا مرسل قوي المرسل في مقابلة الادلة المذكورة ليس بشي وكذا مارويّعن عمر عند الشافعي وعبد الرزاق وابن المنذر انه كتب الي امراة الا جناه في رجال غابوا عن نسائهم اما ان ينفقوا وانا ان يطلقوا ويبعثوا نفقة ما هبسوا انتهيّ

لاحجةفيه لان هذا ليس مما نحن فيه لا نهم لم يكونوا مفسلين بل متمولين ياخذون الموظائف وبهذا قال عمر يبعثوا نفقة ما حبسوا ونسبتة الفسخ عند الا عسارا الي عمر وعلي رضوان الله عنهم اجمعين لم تثبيت وان قال اكثر العلماء بالفسخ لكنه ليس بشي بل باطل قطعا بال لة المذكورة دلالة الاصل اذا ثبت النكاح بالكتاب والسنة فلم يفسخ باقوال الرجال مالم يثبت الا بالكتاب والسنة بسند صحيح لاشبهه فيه

ان قائلین فسخ سے کوئی پوچھے کہ حضرت بالفرض اگر عورت نے بہ سبب اعسار زوج آپ کے فتویٰ سے فسخ نکاح پر عمل کرلیا۔

اوردوسرے شخص سے نکاح کیا پھر وہ بھی ایسا ہی مفلس ونادار ہوگیاپھرفسخ پر عمل کیا پھر تیسرے سے کیا پھر وہ بھی ایسا ہی ہو گیا اور یہ کوئی امر محا ل نہیں بہت ممکن ہے علیٰ ھذا لقیاس یہ سلسلہ جا ری رہا یہ تو کیا یہ رفیقہ حیا ت کہلانے کے لا ئق ہوگی اور کیایہ طر یق آپ کتاب وسنت یاخیرالقرون سے ثابت کرسکتے ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 322

محدث فتویٰ

تبصرے